روزنامہ اوصاف کے صفحۂ اول پر ایک بس کی تصویر دیکھ کر گزشتہ ہفتے کے ایک سفر کی یاد پھر سے ذہن میں تازہ ہوگئی ہے۔ تصویر کا منظر یہ ہے کہ بس میں بڑے مزے سے بکرے سیٹوں پر براجمان ہیں اور کھڑکیوں سے باہر سر نکالے ماحول کا نظارہ کر رہے ہیں۔ جبکہ تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ زیرنظر تصویر تیسری دنیا کے انسانوں کے بے وقعت ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے، مسافر بسوں میں جانوروں کی طرح سفر کرتے ہیں جبکہ قربانی کے قیمتی جانوروں کو سیٹوں پر بٹھا کر بڑے آرام اور احتیاط سے لایا جا رہا ہے۔
قربانی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں باپ بیٹا اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے جھک گئے اور باپ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بیٹے کی گردن پر چھری رکھ کر اپنی طرف سے اسے ذبح کر دیا مگر اللہ تعالیٰ نے بیٹے کو ذبح ہونے سے بچا لیا اور دونوں کی قربانی کو قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہم نے بعد میں آنے والوں کے لیے ان کی سنت کو قائم کر دیا‘‘۔ چنانچہ جناب نبی اکرمؐ نے اسے سنت ابراہیمیؑ قرار دیا اور آپؐ کا اپنا معمول یہ رہا کہ مدینہ منورہ میں دس سالہ قیام کے دوران ہر سال قربانی کرتے۔ بلکہ دو جانوروں کی قربانی کرتے اور فرماتے کہ ایک جانور میری طرف سے اور دوسرا جانور اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح کر رہا ہوں جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ہوں گے۔ یہ قربانی شرعاً ہر صاحب استطاعت مسلمان پر واجب ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان عید الاضحیٰ کے ایام میں جانور قربان کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے عید الاضحیٰ سے کافی پہلے ہمارے شہروں میں قربانی کے جانوروں کی چہل پہل شروع ہو جاتی ہے او رمذکورہ تصویر بھی اسی چہل پہل کا حصہ تھی۔
میرا قصہ یہ ہے کہ اکیس مارچ کو ضلع بہاولنگر میں بھارتی سرحد کے ساتھ محمدپور سنساراں میں ظہر کے بعد ایک دینی درسگاہ مدرسہ عربیہ قادریہ کے سالانہ جلسہ اور اسی روز بعد نماز عشاء منڈی صادق گنج کی مرکزی جامع مسجد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیراہتمام ایک اجتماع سے خطاب کیا، اس کے بعد مجھے واپس گوجرانوالہ آنا تھا۔ میں ایک ’’بے کار‘‘ شخص ہوں اور پبلک ٹرانسپورٹ ہی عام طور پر میرا ذریعہ سفر ہوتا ہے۔ میرا معمول یہ ہے کہ جہاں سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ میسر ہو اور وقت کی قلت کا مسئلہ نہ ہو تو وہاں اپنے میزبانوں کو سفر کے لیے کسی خصوصی بندوبست کی زحمت نہیں دیا کرتا۔ منڈی صادق گنج کے دوستوں نے بتایا کہ رات پونے گیارہ بجے ایک بس یہاں سے روانہ ہوتی ہے جو صبح کی نماز تک لاہور پہنچا دیتی ہے چنانچہ میں نے سوا دس بجے اپنا خطاب ختم کر دیا اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر پونے گیارہ بجے سے پہلے بس پر سوار ہوگیا۔ بس ٹھیک وقت پر روانہ ہوئی مگر ہوا یہ کہ بس مسافروں سے بھری ہوئی ہونے کے باوجود کنڈیکٹر نے کم از کم پندرہ بیس بکرے بھی بس میں گھسیٹ لیے اور تین تین والی دو سیٹیں خالی کرا کے ان میں بکروں کی اوپر نیچے تہہ لگا دی اور کچھ جانور سیٹوں کے درمیان کھڑے رہے۔
بس چل پڑی تو بکروں کی باں باں او رنقل و حرکت نے مسافروں کو پریشان کرنا شروع کر دیا، پانچ چھ گھنٹے کا سفر تھا اس لیے بعض مسافروں نے احتجاج کیا کہ وہ تنگ ہو رہے ہیں اور جانوروں کے ساتھ لگنے سے ان کے کپڑے بھی خراب ہو رہے ہیں۔ مگر ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے سنی ان سنی کر دی، تھوڑی دیر کے بعد ایک زور آور سواری نے کھڑے ہو کر باقاعدہ تقریر جھاڑ دی اور بس کے عملہ کو لعن طعن کیا تو کچھ شنوائی ہوئی اور جانوروں کو بس کی چھت پر منتقل کرنے کا فیصلہ ہوگیا جس پر ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا مگر یہ کیفیت بھی عارضی ثابت ہوئی۔ جانوروں کو چھت پر چڑھا کر ان پر ترپال ڈال دی گئی جس سے تھوڑا سا سفر عافیت سے گزرا لیکن اس کے بعد ان جانوروں نے جب پیشاب کرنا شروع کیا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ جانوروں کو اپنے ساتھ بٹھانے پر احتجاج کر کے ہم نے کتنی بڑی ’’حماقت‘‘ کا ارتکاب کیا ہے۔ اب جانور بس کی چھت پر باری باری پیشاب کر رہے تھے جو چھت سے ٹپک کر سواریوں پر چھڑکاؤ کر رہا تھا۔ بعض سواریوں نے شور مچایا مگر بس کا عملہ کسی بات کو سننے کا روادار نہیں تھا، خود میرے کپڑے اس چھڑکاؤ سے سفر کے دوران تین بار بھیگ کر خشک ہوئے۔
اور مجھے تو اس کے ساتھ ایک اور عذاب بھی سہنا پڑا وہ یہ کہ میں پیشاب کا مریض ہوں اور دو تین گھنٹے کے بعد مجھے بہرحال اس کے لیے مناسب جگہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ بس منڈی صادق گنج سے روانہ ہوئی تو خیال ہوا کہ اوکاڑہ میں سٹاپ ہوگا تو پیشاب کرنے کا موقع مل جائے گا مگر اوکاڑہ میں کھڑے کھڑے سواریاں اتار چڑھا کر بس آگے چلا دی گئی تو مجھے تشویش ہوئی۔ میں نے ڈرائیور پکار کر کہا کہ مجھے پیشاب کرنا ہے اس نے کہا کہ آگے چل کر کسی ہوٹل پر سٹاپ کریں گے لیکن بس مسلسل چلتی رہی اور جب پتوکی بھی گزر گیا تو میں نے کھڑے ہو کر ایک بار پھر آواز دی اور احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ بکرے ہم پر مسلسل پیشاب کر رہے ہیں اور ہمیں تم پیشاب کرنے کا موقع نہیں دے رہے۔ اس پر کنڈیکٹر نے کہا کہ آگے کسی ہوٹل پر کھڑے ہوتے ہیں مگر بس کی رفتار میں کوئی فرق نہ آیا۔ کچھ دیر کے بعد ایک بار پھر میں ’’گرم سرد‘‘ ہوا مگر ڈرائیور اور کنڈیکٹر بہت ثابت قدم قسم کے لوگ تھے چنانچہ ڈرائیور نے ٹھوکر نیاز بیگ جا کر بریک لگائی جہاں اس نے کسی سواری کا سامان اتارنا تھا۔ وہاں مجھے کنڈیکٹر نے کہا کہ ’’حاجی صاحب پیشاب کرلو‘‘۔ میں اس وقت سخت غصے کی حالت میں تھا اس لیے احتجاجاً میں نے وہاں پیشاب کے لیے اترنے سے انکار کر دیا اور راوی چوک پہنچ کر سڑک کے کنارے جس تکلیف کے عالم میں پیشاب کیا اس کا اندازہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ رات کا سفر تھا، بس سے اتر کر راستے میں کوئی متبادل سروس ملنے کی امید نہیں تھی اس لیے بس سے اترجانے کی ہمت بھی نہیں ہوئی۔ اور اس کے ساتھ یہ ہوا کہ صبح کی نماز گئی اور لاہور میں جن دو تین ضروری کاموں کے لیے رات کا سفر کیا تھا وہ بھی گئے کیونکہ پیشاب آلود اور بدبودار لباس کے ساتھ تو میں کسی شریف آدمی کے پاس جانے کی پوزیشن میں نہیں تھا اس لیے راوی چوک سے دوسری بس میں بیٹھ کر گوجرانوالہ چلا آیا۔
اس کے بعد کئی بار ذہن میں خیال آیا کہ اس آپ بیتی سے کسی مجاز اتھارٹی کو آگاہ کروں تاکہ آئندہ کے لیے اس قسم کے کسی واقعہ کا شاید سدباب ہو سکے مگر ابھی یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ آخر مجاز اتھارٹی کون ہے اور کیا اس ملک میں کوئی مجاز اتھارٹی ہے بھی؟ میں تو شاید خاموش ہی رہ جاتا لیکن آج روزنامہ اوصاف میں بکروں سے بھری ہوئی بس کی تصویر دیکھ کر قلم حرکت میں آگیا اور میں نے یہ استغاثہ اپنی ہی طرح کے دوسرے بے بس عوام کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ البتہ ملک کے چیف ایگزیکٹو میاں نواز شریف اور صاف ستھری انتظامیہ کے علمبردار صوبائی حاکم اعلیٰ میاں شہباز شریف سے گزارش ہے کہ اگر ان کے علم میں کوئی مجاز اتھارٹی ہے تو ازراہِ عنایت مجھے ’’مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ، پوسٹ بکس ۳۳۱، فون ۰۴۳۱۲۱۹۶۶۳ پر اس سے آگاہ فرمائیں میں ان کا شکر گزار رہوں گا اور بہت دعائیں دوں گا۔