تحفظِ ناموسِ رسالتؐ: حکومت کا مستحسن موقف

   
۲۲ فروری ۲۰۱۱ء

پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر بازی لیتی دکھائی دے رہی ہے اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی روح دوبارہ اپنی پارٹی کے قلب و دماغ کو متوجہ کرتی نظر آرہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے تمام تر اختلافات کے باوجود ان کا یہ کریڈٹ ہمیشہ غیر متنازعہ رہا ہے کہ انہوں نے ۱۹۷۳ء کے دستور میں پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت کو قائم رکھا، قوم سے نفاذِ اسلام کا دستوری عہد کیا، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کا دیرینہ مسئلہ حل کیا، اسلامی سربراہ کانفرنس کا اہتمام کر کے عالم اسلام کو وحدت اور یکجہتی کا پیغام دیا اور ایٹمی توانائی کے مسئلہ پر عالمی دباؤ کی پروا نہ کرتے ہوئے قومی خودمختاری اور ملی حمیت کا مظاہرہ کیا۔

تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کے مسئلہ پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کے بیانات اور اس کے خلاف ان کی کمپین دیکھ کر ڈر لگ رہا تھا کہ شاید پی پی پی اپنے مرحوم بانی اور قائد کے اس کردار سے منحرف ہونے جا رہی ہے، لیکن ریمنڈ ڈیوس کے مسئلہ پر شاہ محمود قریشی اور تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کے قانون کے بارے میں وزیر قانون بابر اعوان کے دوٹوک موقف نے ہمارے خوف اور خدشے کو دور کر دیا ہے اور دل کو تسلی ہونے لگی ہے کہ پی پی پی میں ابھی ایسے رہنما موجود ہیں جو ملی جذبات کو محسوس کرتے ہیں اور نہ صرف ان سے ہم آہنگ ہیں بلکہ ان کی ترجمانی کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ آج کے گھمبیر حالات میں میرے جیسے نظریاتی کارکن کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔

تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کے قانون کے مسئلہ پر وزیراعظم کی خدمت میں وزیر قانون جناب بابر اعوان کی طرف سے پیش کی جانے والی سمری کی شہرت بہت دنوں سے سن رہا تھا اور مسلسل اس کی تلاش میں تھا، گزشتہ روز چناب نگر میں مجلس احرار اسلام کی کانفرنس میں شرکت کے لیے حاضر ہوا تو ایک دوست سے اس کی کاپی مل گئی۔ بابر اعوان کے بارے میں یہ اطمینان تو تھا کہ وہ دینی معاملات میں ایک حد سے آگے جانے والے نہیں ہیں مگر یہ سمری پڑھ کر خوشی ہوئی کہ ناموسِ رسالتؐ کے حوالے سے ان کی آخری حد بھی وہی ہے جو پاکستان کے عام مسلمانوں اور دینی جدوجہد کرنے والے کارکنوں کی ہے، اور انہوں نے یہ حد کراس کرنے سے انکار کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو بھی اسی دائرے میں رکھنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ جس پر سمری پیش کرنے والے وزیر قانون جناب بابر اعوان اور اسے منظور کرنے والے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پوری قوم کی طرف سے شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یقیناً ان کے اس عمل سے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک بھی خوش ہوگی۔ سمری میں جن امور کا جائزہ لیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

  • تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کے قانون کے سلسلہ میں مختلف شہریوں، اداروں اور غیر ملکیوں کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کو موصول ہونے والے خطوط جو وزارت قانون قانون کو بھجوا دیے گئے۔
  • وزارتِ داخلہ کی جانب سے بھیجا جانے والا ریفرنس۔
  • قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ کی طرف سے بھیجا جانے والا ریفرنس۔
  • اور توہینِ رسالتؐ کے قانون میں ترمیم کے لیے محترمہ شیری رحمان کی طرف سے قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کرایا جانے والا پرائیویٹ بل۔

ان تمام ریفرنسز میں وزارتِ قانون سے اپنا موقف واضح کرنے اور اس سلسلہ میں پیشرفت کا تقاضا کیا گیا تھا جس کے جواب میں وزارتِ قانون نے تفصیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ہے۔ وزارتِ قانون کی طرف سے جوابی طور پر پیش کیے جانے والے اس ریفرنس میں تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کے قانون کا مختلف حوالوں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ سب سے پہلے قرآن و سنت اور اسلامی روایات کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ کرامؓ کا فیصلہ یہی رہا ہے کہ گستاخِ رسالت کی سزا موت ہے اور مختلف مواقع پر آنحضرتؐ کے حکم سے یہ سزا دی گئی ہے۔ پھر مختلف ممالک کے قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں توہینِ مذہب اور مذہبی شخصیات کی بے حرمتی کو جرم قرار دیتے ہوئے ان پر سزا نافذ کی گئی ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، آسٹریلیا، بنگلہ دیش، برازیل، کینیڈا، مصر، کویت، ملائیشیا، مالٹا، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، نائجیریا، سعودی عرب، سوڈان، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، یمن اور امریکہ کی بعض ریاستیں شامل ہیں۔ مثلاً برطانیہ کے قوانین کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ توہین رسالتؐ کے قانون کے تحت ۱۹۷۷ء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں توہین آمیز خاکہ شائع کرنے پر اخبار کے ایڈیٹر ڈینس لیمن کو سزا سنائی گئی اور اسے جرمانہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جیل بھی جانا پڑا تھا۔ اسی طرح نیوزی لینڈ میں کرائم ایکٹ کی دفعہ ۱۲۳ کے تحت گستاخیٔ رسولؐ کو جرم قرار دیا گیا ہے اور جان لگودر نامی ایک ایڈیٹر کو اس کے تحت سزا دی جا چکی ہے۔ مذکورہ بالا تمام ممالک میں مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین جرم ہے اور اس جرم پر مختلف نوعیت کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، اس لیے پاکستان میں ناموسِ رسالتؐ کی توہین کو جرم قرار دینے اور اس پر سزا مقرر کرنے کا قانون عالمی روایات کے خلاف نہیں ہے۔

اس کے بعد اس سمری میں پاکستان کے دستور و قانون کے حوالے سے تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کے قانون کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ قانون مکمل طور پر دستور کے مطابق ہے، اس سلسلہ میں سمری میں بیان کی گئی تمہید بطور خاص قابل توجہ ہے کہ پاکستان آئینی طور پر ایک اسلامی ریاست ہے اور ۱۲ اپریل ۱۹۷۳ء کو منظور کیے جانے والے آئین کے تحت ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ آئین میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری کائنات میں حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور مملکتِ خداداد میں اللہ کے قانون کی حکمرانی کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا، حکومتِ وقت لوگوں کے جمہوری حقوق اور آئین کی پاسداری کے لیے تمام ایسے قانون بنانے کا حق رکھتی ہے جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہوں۔ آئینِ پاکستان تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان میں ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جو قرآن و سنت کے مطابق زندگی بسر کرے اور اسلامی روح کے مطابق ملک کے اقلیتی طبقے اور غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار بھی ریاست ہے۔

جبکہ سمری کا اختتام اس پیراگراف پر ہوتا ہے کہ ان تمام حقائق کی روشنی میں توہینِ رسالتؐ کی سزا موت آئین کے آرٹیکل ۲۹۵ سی پاکستان پینل کوڈ ۱۸۶۰ اور قرآن و سنت کے عین مطابق ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی یا ترمیم کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے ایسے تمام پیراگراف جو مختلف ریفرنسز میں بیان کیے گئے ہیں وہ تمام قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہیں جبکہ اس قانون پر عملدرآمد کے لیے پاکستان میں مؤثر عدالتی انصاف بھی موجود ہے جو آئینِ پاکستان، قرآن و سنت اور انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔

اس تفصیلی جائزہ کے ساتھ وزارت قانون نے وزارت اقلیتی امور کے ریفرنس اور محترمہ شیری رحمان کے پرائیویٹ بل سے اختلاف کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کے قانون میں کسی قسم کی تبدیلی یا ترمیم کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزارتِ قانون نے اس ریفرنس کی صورت میں پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کے عقائد و جذبات کا تحفظ و ترجمانی کی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی سابق وزیرخارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے بھی ریمنڈ ڈیوس کیس کے بارے میں زمینی حقائق کے خلاف موقف اختیار کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کسی بھی قسم کے ملکی و غیر ملکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے وہ پاکستانی عوام کے جذبات اور قومی حمیت کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ہم ملکی صورتحال میں اس مثبت تبدیلی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم، وزیر قانون اور سابق وزیرخارجہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں:

شکریہ جناب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی۔

شکریہ جناب وزیر قانون بابر اعوان۔

شکریہ جناب شاہ محمود قریشی، سابق وزیرخارجہ۔

   
2016ء سے
Flag Counter