روزنامہ پاکستان لاہور ۲۴ نومبر ۱۹۹۶ء کی ایک خبر کے مطابق امریکہ کی ایک انتہا پسند تنظیم ’’ارتھ رولز‘‘ نے حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ امریکہ میں مردوں کو دفنانا یا انہیں جلانا قانونی طور پر ممنوع قرار دیا جائے، اس کی بجائے مردہ افراد کے اعضا جسمانی طور پر معذور افراد کو لگائے جائیں، اور مردہ افراد کا گوشت ری سائیکل کر کے اسے خوراک کے طور پر استعمال کیا جائے۔
خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’ارتھ رولز‘‘ نامی اس تنظیم کے پورے ملک میں تریسٹھ ہزار ارکان ہیں، اور اس کی طرف سے حکومت کو پیش کردہ یادداشت میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی آبادی حد سے بڑھ چکی ہے اور دنیا بھر میں لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں، اس لیے مردہ لوگوں کو دفنانے کی بجائے ان کا گوشت ری سائیکل کر کے کھانے کے طور پر استعمال کیا جائے، اس سے انسانی وسائل میں اضافہ ہو گا اور وسیع و عریض قبرستان بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ امریکہ کے بہت سے ڈاکٹروں، دانشوروں اور سیاستدانوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مرنے کے بعد انسانی جسم کو کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہیں اس لیے بہتر ہے کہ انہیں زندہ لوگوں کی خوراک بنایا جائے۔
یہ تجویز افریقہ کے کسی خونخوار قبیلہ کی طرف سے سامنے نہیں آئی بلکہ انسانیت اور انسانی حقوق کے اس وقت کے سب سے بڑے ٹھیکیدار ترقی یافتہ ملک امریکہ کے پڑھے لکھے لوگوں نے پیش کی ہے۔ جن سے ان کا مذہب پوچھا جائے تو وہ ’’انسانیت‘‘ کو اپنا مذہب قرار دینے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے، اور اسلام کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا مخالف قرار دینے میں بھی پیش پیش ہوں گے۔ جبکہ اس سلسلہ میں اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے جو زندگی میں بھی تکریم کا مستحق ہے اور مرنے کے بعد بھی یہ تکریم اس کا حق ہے۔ جنگ اور دشمنی میں بھی کسی انسان کی شکل بگاڑنے اور اس کے اعضا بلاوجہ کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور مرنے کے بعد اس کے جسم، شکل و صورت اور اعضا کی حفاظت و احترام دینی تقاضہ ہے، حتٰی کہ اسلامی تعلیمات میں کسی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کی بھی اشد مجبوری کے سوا اجازت نہیں ہے، مگر اس کے باوجود مغرب کے لوگ انسانیت کے علمبردار ہیں اور اسلام ان کے نزدیک انسانی حقوق کا مخالف شمار ہوتا ہے