روزنامہ اسلام لاہور میں ۲۱ جون کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ پورے ملک میں پولیس کا نظام فلاپ ہو چکا ہے، ملک میں پولیس نام کی کو کئی چیز نہیں ہے، پولیس آخر کیا کر رہی ہے جو تنخواہ دی جائے؟ انہوں نے یہ ریمارکس پنجاب کے ٹریفک وارڈنز کی تنخواہوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے۔
اس کیس کی تفصیلات سے قطع نظر یہ بات ملک کے ہر باشعور شہری کے لیے قابل توجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک محترم جج کو یہ بات آخر کیوں کہنا پڑی ہے اور صورتحال اس مقام تک کیسے پہنچ گئی ہے؟ یہ بات کسی سیاستدان کے منہ سے نکلتی، کسی ٹی وی چینل کے اینکر نے یہ تبصرہ کیا ہوتا، یا کسی کالم نگار کے قلم سے یہ بات نکلی ہوتی تو کہا جا سکتا تھا کہ یہ تو ہمارے روزمرہ معمولات کا حصہ ہے کہ ہم ایسے تبصرے کرتے اور سنتے رہتے ہیں، مگر عدالت عظمٰی کے فورم پر ایک جسٹس صاحب کا یہ کہنا یقیناً لمحۂ فکریہ ہے اور اسے روٹین کی بات کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے خیال میں یہ صرف پولیس کا معاملہ نہیں بلکہ کم و بیش ملک کے ہر محکمہ اور شعبہ کا یہی حال ہے اور اس کی وجہ اس محکمہ کے داخلی ماحول یا نظام سے کہیں زیادہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم نے آزادی کے حصول اور پاکستان کے بعد سے ابھی تک نو آبادیاتی دور کے انتظامی، عدالتی اور ریاستی نظام کو ہی گلے سے لگا رکھا ہے اور اس کے کسی شعبہ میں کوئی بنیادی تبدیلی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ ملک و قوم کی آزادی کا مطلب صرف حکمرانوں کے رنگ اور ناموں کی تبدیلی نہیں تھا بلکہ اس نظام سے گلو خلاصی بھی آزادی کے مقاصد میں شامل تھی جو بیرونی حکمرانوں نے اپنے نوآبادیاتی مقاصد کے لیے رائج کیا تھا اور اس نظام کو چلانے اور بچانے کے لیے ہر شعبہ کے افسران اور ملازمین کی کھیپ تیار کی تھی۔
جب انگریز تجارت کے نام سے برصغیر میں آئے اور پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر اس کے بعد تاج برطانیہ نے برصغیر کا نظم و نسق سنبھالا تو انہوں نے پورا نظام یکلخت تبدیل کر دیا، دفتری زبان فارسی سے انگریزی کر دی، عدالتی قانون فقہ اسلامی کی بجائے برٹش لاء کو قرار دے دیا اور ایک نئے تعلیمی نظام کے ذریعے سے ہر محکمہ کا پورا ڈھانچہ تبدیل کر کے رکھ دیا جو ان کی نوآبادیاتی ضرورت تھی۔ مگر جب ہم نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور تاج برطانیہ کی غلامی سے ایک سو نوے برس کی جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی تو انگریز حکمرانوں کو رخصت کرنے کے بعد بھی نظام انہی کا قائم رکھا، حتٰی کہ دفتری زبان و ماحول اور عدالتی قوانین و طریقہ کار بدستور وہی جاری رکھے ہوئے ہیں جو ہمارے قومی مزاج اور معاشرتی ضروریات کے ساتھ ساتھ آزادی کے مقاصد سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ بالخصوص پاکستان کے قیام کا تو مقصد ہی نظام و قانون کی تبدیلی تھا، تحریک پاکستان کے قائدین نے مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور اسلامی قانون و نظام کی ترویج کے عنوان سے الگ ملک کا مطالبہ کیا تھا اور مسلمانوں نے اس کے لیے بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔ آزادی کے حصول، پاکستان کے قیام اور ملت اسلامیہ کی مسلسل قربانیوں کا تقاضہ تھا کہ ہم اسی طرح پورے نظام کو تبدیل کرتے جس طرح انگریزوں نے کیا تھا اور نوآبادیاتی نظام سے گلوخلاصی کرا کے قومی اور ریاستی زندگی کے ہر شعبہ میں آزادی اور اسلامی تہذیب کے تقاضوں کے مطابق نیا نظام تشکیل دیتے۔ مگر ہم تو دفتری زبان تک تبدیل نہیں کر سکے اور دستور کے وعدہ اور سپریم کورٹ کے واضح فیصلوں کے باوجود اردو کو دفتری زبان کا مقام دینے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہم نوآبادیاتی نظام کے ڈھانچے میں آزادی اور مسلم تہذیب کے راستے تلاش کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں اور نوآبادیاتی نظام اپنے تشکیل دینے والوں کے ایجنڈے کے مطابق اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو نظام جس مقصد کے لیے تشکیل دیا جائے گا اسی کے لیے کام کرے گا اور اگر اسے کسی اور مقصد کے لیے ذریعہ بنایا جائے گا تو اس کی کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔
پولیس کی کارکردگی کے بارے میں جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس سے ہمیں اتفاق ہے مگر یہ صرف پولیس کی بات نہیں باقی محکموں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ باقی ساری باتوں سے قطع نظر صرف اس ایک پہلو سے صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ دستور پاکستان نے قومی زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے جو اہداف اور دائرے طے کر رکھے ہیں، کونسا محکمہ اور شعبہ اس کی پاسداری کر رہا ہے؟ اور اگر جسٹس محترم ناراض نہ ہوں تو یہ عرض کرنا بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ ملک میں اسلامی قوانین کے مکمل نفاذ اور قرآن و سنت کے منافی قوانین کی منسوخی کے بارے میں دستور پاکستان نے جو کچھ کہہ رکھا ہے ، ہماری عدالت عظمٰی خود اس کی عملداری کے لیے کیا کر رہی ہے؟ مسئلہ کسی محکمہ کا نہیں مجموعی نظام کا ہے اور معاملہ صرف محکمانہ کارکردگی کا نہیں قومی مقاصد اور اہداف کا ہے۔ عدالت عظمٰی دستور کی محافظ اور اس پر عملداری کے نگران کی حیثیت رکھتی ہے، ہم اس کے قابل صد احترام جج صاحبان سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ مجموعی طور پر ملک کے نظام کا جائزہ لیں اور اسلامی و دستوری ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی کارکردگی پر نظر ڈال کر آزادی، قیام پاکستان اور دستور کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے کردار ادا کریں، اللہ تعالٰی ہماری صحیح سمت راہنمائی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔