تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے چند پہلو

   
تاریخ: 
جون ۲۰۱۵ء

جمعیۃ علماء اسلام (س) ضلع گوجرانوالہ کے امیر مولانا حافظ گلزار احمد آزاد رمضان المبارک کے دوران سیٹلائیٹ ٹاؤن کی ایک کوٹھی کے لان میں صبح نماز فجر کے نصف گھنٹہ بعد روزانہ درس قرآن کریم کی نشست کا اہتمام کرتے ہیں جو ۲۵ رمضان المبارک تک جاری رہتا ہے۔ اس نشست میں مختلف علماء کرام متنوع موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس سال مجھے ۲ رمضان المبارک کو اس پروگرام میں ’’تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے مختلف پہلو‘‘ کا عنوان دیا گیا، اس موقع پر جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہمیں چونکہ اپنے علاقہ میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالہ سے قادیانیوں سے سابقہ درپیش رہتا ہے اس لیے تحفظ ختم نبوت اور رد قادیانیت ایک ہی موضوع کے مختلف عنوان سمجھے جاتے ہیں۔ میں آج کے حالات کے تناظر میں اس موضوع پر گفتگو اور جدوجہد کے چند اہم پہلوؤں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔

  1. اس کا پہلا شعبہ یا دائرہ اعتقادی ہے کہ اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپؐ کی آمد کے ساتھ ہی وحی و نبوت کا دروازہ بند ہوگیا تھا۔ اس لیے جو شخص بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے، وہ اور اس کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ اس عقیدہ کی دلائل کے ساتھ عوام کے سامنے وضاحت بار بار ضروری ہے تاکہ عام مسلمان کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اور ان کا عقیدہ و ایمان محفوظ رہے۔ علماء کرام کی ایک بڑی جماعت اس سلسلہ میں مصروف کار چلی آرہی ہے اور اس محاذ کی اولین قیادت امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے کی ہے۔
  2. دوسرا دائرہ علمی ہے کہ منکرین ختم نبوت بالخصوص قادیانیوں نے اپنے غلط عقائد کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بے جا تاویلات کا شروع سے بازار گرم کیے رکھا ہے اور وہ نیم فلسفیانہ اور نفسیاتی موشگافیوں کے ذریعہ خالی الذہن مسلمانوں کو گمراہی کا شکار کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے اس قسم کی تاویلات اور خود ساختہ دلائل کا جواب دینا اور ان کے دجل و فریب کو واضح کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے۔ تاکہ پڑھے لکھے لوگ اس دجل و فریب سے واقف رہیں اور اس سے اپنے ایمان کا تحفظ کر سکیں۔ اس دائرہ میں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ جیسے اکابر علماء کرام کی راہ نمائی میں اہل علم کا ایک طبقہ ہر دور میں خدمات سر انجام دیتا آرہا ہے۔
  3. تیسرا دائرہ سماجی ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت سے انکار اور وحی و نبوت کو قبول کرنے سے معاشرہ پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کو واضح کیا جائے اور اس کے سماجی نقصانات کی نشاندہی کر کے اصحاب دانش کو ان سے خبردار کیا جائے۔ اس سلسلہ میں سب سے ٹھوس کام مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا ہے کہ انہوں نے یہ واضح کیا کہ چونکہ نبی اللہ تعالیٰ کے نمائندہ کے طور پر غیر مشروط اطاعت کا مرکز ہوتا ہے اور وہی دینی معاملات میں آخری اتھارٹی ہوتا ہے اس لیے نبی کے بدلنے سے وفاداری اور اطاعت کا مرکز تبدیل ہو جاتا ہے اور معاشرہ تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس لیے عقیدۂ ختم نبوت قیامت تک وحدت امت کی اساس ہے اور اس سے انحراف وحدت امت سے انحراف ہے۔
  4. چوتھا دائرہ سیاسی ہے کہ نئی نبوت اور وحی کے سیاسی عزائم کیا ہیں؟ جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے خود لکھا کہ میں انگریز کا خودکاشتہ پودا ہوں اور میری نبوت کا سب سے بڑا مقصد جہاد کو حرام قرار دینا ہے۔ قادیانیوں کے سیاسی عزائم سے آگاہی کے لیے مجاہد ختم نبوت آغا شورش کشمیریؒ کی کتاب ’’عجمی اسرائیل‘‘ کا مطالعہ ضروری ہے۔ جبکہ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اسے اس انداز میں واضح کیا تھا کہ قادیانی یہ چاہتے ہیں کہ انہیں پاکستان میں وہی حیثیت حاصل ہو جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہو سکے۔
  5. پانچواں دائرہ تاریخی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور اس کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور نئی نبوت کے نام سے الگ گروہ بنانے والوں کے حالات لوگوں کے سامنے بیان کیے جائیں تاکہ ان کا انجام ان کے سامنے واضح ہو اور وہ اس سے عبرت حاصل کر سکیں۔ اس سلسلہ میں اردو زبان میں سب سے زیادہ وقیع کام حضرت مولانا ابوالقاسم محمد رفیق دلاوریؒ نے کیا ہے جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ انہوں نے ’’ائمہ تلبیس‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں جھوٹے مدعیان نبوت کے حالات قلمبند کیے ہیں اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے اسے شائع کیا ہے۔
  6. چھٹا دائرہ خلافت کا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم نبوت کے حوالہ سے ہی خلافت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام فرماتے تھے۔ ایک نبی کے جانے کے بعد دوسرے نبی تشریف لے آتے تھے۔ میرے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے سیاسی قیادت کا فریضہ اب خلفاء سنبھالیں گے۔ اس طرح ختم نبوت اور خلافت لازم و ملزوم ہیں اس لیے کہ امت کے اجتماعی کاموں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور جانشینی کا منصب خلفاء کو عطا کیا گیا ہے۔
  7. ساتواں دائرہ نسل انسانی کو اسلام کی دعوت دینے کا ہے کیونکہ دنیا کے ہر انسان تک توحید کا پیغام، اسلام کی دعوت اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو پہنچانا پوری امت کی اجتماعی ذمہ داری بن گئی ہے۔ اور یہ بھی ختم نبوت کی وجہ سے ہے، اس لیے کہ دعوت کا کام حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا تھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہونے کی وجہ سے یہ کام امت کو منتقل ہوگیا ہے۔
  8. ختم نبوت کے حوالہ سے جدوجہد کا آٹھواں دائرہ یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب امت میں کوئی ایسی شخصیت نہیں آئے گی جو غیر مشروط اطاعت کی حقدار ہو۔ حتیٰ کہ حضرات خلفاء راشدینؓ کی شخصیات بھی معصوم نہیں بلکہ مجتہد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی بات دلیل کی بنیاد پر قبول کی جاتی تھی اور دلیل کے ساتھ اس سے اختلاف بھی ہو سکتا تھا۔ اس لیے جس طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی اور رسول ماننا جائز نہیں ہے اسی طرح کسی کو معصوم تسلیم کرنا بھی ختم نبوت کے منافی ہے۔
  9. نواں دائرہ عالمی ہے کہ قادیانیوں نے آج کے عالمی حالات میں اپنے تحفظ اور فروغ کے لیے بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کو اپنی پناہ گاہ بنا رکھا ہے۔ وہ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی آڑ میں اپنی خود ساختہ مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں اور عالمی اداروں کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں۔ اس سطح پر عالمی اداروں اور لابیوں میں قادیانی دجل و فریب کو بے نقاب کرنے اور اہل اسلام کے موقف کو واضح کرنے کے لیے کوئی منظم کام ہماری طرف سے موجود نہیں ہے۔ حالانکہ قادیانیوں کی سب سے محفوظ پناہ گاہیں بلکہ مورچے یہی بین الاقوامی ادارے اور فورم ہیں جن پر توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
  10. جبکہ اس سلسلہ میں جدوجہد کا دسواں دائرہ انہیں اسلام کی طرف واپسی کی دعوت دینے اور دعوت کا ماحول پیدا کرنے کا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں چار اشخاص (۱) مسیلمہ کذاب (۲) اسود عنسی (۳) طلیحہ اسدی اور (۴) سجاح نامی خاتون نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کے باقاعدہ گروہ بنے تھے اور انہوں نے حضرات صحابہ کرامؓ کے خلاف جنگیں لڑی تھیں۔ ان میں سے اول الذکر دونوں قتل ہوگئے تھے، جبکہ طلیحہ اسدی اور سجاح خاتون نے توبہ کرلی تھی۔ ان کی توبہ کو قبول کیا گیا تھا اور مسلم معاشرہ میں دوبارہ شامل کر لیا گیا تھا۔ طلیحہ اسدیؓ نے حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایک معرکہ میں جام شہادت نوش کیا تھا اور ان کا تذکرہ محدثین نے شہداء صحابہؓ میں کیا ہے۔ اور سجاح نے حضرت معاویہؓ کے دور میں توبہ کر کے کوفہ میں سکونت اختیار کر لی تھی اور ایک عابدہ زاہدہ خاتون کے طور پر ان کی شہرت تھی۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کا جنازہ حضرت سمرہ بن جندبؓ نے پڑھایا تھا۔

اس حوالہ سے میں ایک بات قادیانیوں سے کہا کرتا ہوں کہ انہیں مسیلمہ اور اسود کے راستہ پر بضد رہنے کی بجائے طلیحہؓ اور سجاحؒ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور غلط عقائد سے توبہ کر کے مسلم امت میں واپس آجانا چاہیے۔ جبکہ دوسری گزارش اہل اسلام سے ہے کہ قادیانیوں کے دجل و فریب کا مقابلہ اپنی جگہ لیکن انہیں اسلام کی دعوت دینا اور دعوت کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ اور یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مقابلہ کا ماحول اور نفسیات الگ ہوتی ہیں جبکہ دعوت کا ماحول اور نفسیات اس سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ یہ دونوں محاذ بہرحال ہمارے ہیں اور ہمیں ان دونوں کے لیے حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ جدوجہد کی ترجیحات طے کرنی چاہئیں۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۷ جون ۲۰۱۵ء)
2016ء سے
Flag Counter