خلیج عرب میں امریکہ کی نئی مہم

   
تاریخ : 
۱۰ مارچ ۲۰۰۱ء

امریکہ بہادر آج کل پھر اس کوشش میں ہے کہ خلیج میں کسی بہانے عراق کو اشتعال دلا کر اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد کرا دی جائے جس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی افواج کو وہاں مزید کچھ عرصہ تک موجود رکھنے کی راہ ہموار کی جا سکے اور عربوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ خلیج میں بعض عرب ممالک کے تحفظ و دفاع کے لیے امریکی افواج کی موجودگی کی مدت کی توسیع قبول کر لیں اور اس معاہدہ کی ازسرنو تجدید کر دیں جس کے تحت امریکہ اور اس کے حواریوں کی مسلح افواج خلیج میں براجمان ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ کولن پاؤل ان دنوں عرب ممالک کے دورے پر ہیں اور انہوں نے ایک بیان میں پریشان کویتی عوام کو یقین دلایا ہے کہ حالیہ دھمکیوں کے باوجود عراق ان کے ممالک پر دوبارہ کبھی قبضہ نہیں کرے گا۔ وائس آف امریکہ کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ کویت کے دوست موجود ہیں جبکہ عراقی صدر صدام حسین کے پاس لفاظی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

عراق نے کویت پر دوبارہ قبضے کی کوئی دھمکی دی ہے یا نہیں، ہماری نظر سے ایسی کوئی دھمکی نہیں گزری، تاہم امریکہ کی پوری خواہش اور کوشش ہے کہ عراق اس قسم کی کوئی دھمکی دے بلکہ عملاً بھی کچھ کر گزرے تاکہ وہ سعودی عرب اور خلیج کے دیگر ممالک کو ایک بار پھر عراق کا ہوا دکھا کر امریکی فوجوں کی مزید موجودگی پر آمادہ کر سکے۔ اس مقصد کے لیے عراق پر فضائی حملے کیے گئے اور مزید حملوں کی تیاری کی جا رہی ہے جس کا مقصد اسے اشتعال دلانے اور کسی الٹی سیدھی حرکت پر مجبور کر دینے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ مگر دوسری طرف سعودی فرمانروا شاہ فہد نے عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے فضائی حملوں کی حمایت سے انکار کر دیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل مشرق وسطیٰ میں اپنے سب سے قریبی اتحادی سعودی عرب کو بھی عراق کے خلاف حملوں کے حق میں قائل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے خادم حرمین شریفین شاہ فہد سے ملاقات کی، اس موقع پر سعودی وزیرخارجہ نے ایک بار پھر اپنے ملک کے اس عزم کو دہرایا کہ سعودی عرب عراق پر امریکی و برطانوی حملوں کی حمایت نہیں کرے گا۔

اس سے قبل جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا تھا اور اس کی آڑ میں امریکہ نے سعودی عرب اور خلیج کے دیگر ممالک کو ان کے دفاع و تحفظ کا یقین دلا کر اپنی فوجیں اتاری تھیں اس وقت بھی اسی طرح کا ڈرامہ اسٹیج کیا گیا تھا کہ:

  • عراق اور کویت میں کشیدگی کو نمایاں کیا گیا،
  • عراق کو مختلف طریقوں سے کویت پر قبضہ کے لیے ابھارا گیا اور اسے درپردہ ایسی صورت میں عدم مداخلت کا یقین دلایا گیا،
  • اور عراق کی پیٹھ تھپتھپا کر پڑوسی ممالک کے سامنے عراق کی فوجی قوت اور جارحانہ عزائم کا ہوا کھڑا کر دیا گیا۔

جس کے نتیجے میں وہ اپنے تحفظ کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلح افواج کو خلیج میں قبول کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اور کویت پر عراق کا قبضە ختم ہوئے کئی برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک یہ فوجیں بدستور موجود ہیں بلکہ کسی نہ کسی بہانے ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

خلیج میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی مسلح افواج کی موجودگی کی اصل وجہ تیل کے چشموں کو کنٹرول میں رکھنا، اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ عرب ممالک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اسلامی تحریکات اور جہادی تنظیموں کا راستہ روکنا ہے جو نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں بلکہ خلیج کے ممالک میں ایسی اسلامی اور عوامی حکومتوں کے قیام کا باعث بھی بن سکتی ہیں جو اس خطہ میں امریکہ کے استعماری عزائم اور سامراجی مفادات کے لیے رکاوٹ ہوں گی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ خود عربوں کو آپس میں الجھا کر اور ایک دوسرے سے عدم تحفظ کا احساس دلا کر انہیں تحفظ اور دفاع کی چھتری مہیا کرنے کے نام پر خلیج میں اپنی فوجیں بٹھا دی جائیں۔ چنانچہ اب تک یہی ہوا ہے اور اب جبکہ پہلے معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے تو اس معاہدہ کی تجدید کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور اس کے لیے اسی طرح کی فضا پھر سے قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ عراق کسی نہ کسی طرح کویت کے خلاف نئی جارحیت کا ارتکاب کرے اور کویت، سعودی عرب اور دیگر پڑوسی ممالک سے ایک بار پھر خلیج میں امریکی افواج کی مزید موجودگی کے معاہدے پر انگوٹھا لگوا لیا جائے۔

ہمارے نزدیک ماضی میں بھی عراق اور سعودی عرب سمیت خلیج کے تمام ممالک شَعوری یا غیر شعوری طور پر کسی نہ کسی طرح اس گیم کا حصہ بنے ہیں اور اب پھر اس ڈرامے کے دہرائے جانے کے امکانات موجود ہیں۔ تاہم اس حوالے سے امید کی ایک کرن یہ دکھائی دے رہی ہے کہ خلیج میں امریکی افواج کی جگہ پاکستانی فوج کے مسلح دستوں کو ان ممالک کے تحفظ و دفاع کے لیے تعینات کرنے کی تجاویز بھی اعلیٰ حلقوں میں زیر غور ہیں اور بعض عرب حکمران اس میں خاصے سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ بلکہ ہماری معلومات کے مطابق پاکستان کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف اس وقت سعودی عرب کے دورے پر اسی مقصد کے لیے گئے ہیں اور وہ سعودی عرب کے شاہ فہد اور دیگر حکمرانوں سے جو مذاکرات کر رہے ہیں ان کے ایجنڈے کا ایک اہم حصہ یہی نکتہ ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہمارے خیال میں یہ بہت اچھی بات ہوگی اور اس سے نہ صرف عرب ممالک کے باہمی تحفظ و دفاع کا خلا پر ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے بھی نیک نامی سمیت دیگر بڑے فوائد کے راستے کھل جائیں گے۔

لیکن ہمیں شبہ ہے کہ پاکستان کے داخلی سیاسی حالات بالخصوص میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ سعودی شاہی خاندان کی جو دلچسپی ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اس کے پس منظر سے پاکستان کو اتنا بڑا کردار اور مفاد فراہم کرنے کے عوض سعودی حکمران جنرل پرویز مشرف سے جو تقاضا کر سکتے ہیں اس کو پورا کرنا شاید جنرل پرویز مشرف کے بس میں نہ ہو اور وہ اپنی زیرقیادت فوج کو اتنا بڑا اعزاز دلوانے کے لیے اتنی بڑی قیمت شاید ادا نہ کر پائیں، جبکہ اس کے علاوہ یہ ساری گیم امریکہ اور اس کے حواریوں بالخصوص اسرائیل کے لیے بھی کسی صورت قابل قبول نہ ہوگی،اس لیے پاکستان کے ساتھ خلیجی ممالک کی یہ مجوزہ اور مبینہ ڈیل امریکی سازشوں کے پل صراط سے بھی شاید کامیابی کے ساتھ گزر نہ پائے۔ مگر ان تمام تر خدشات کے باوجود ہم امید رکھتے ہیں کہ خلیج کے ممالک ماضی کے تلخ تجربہ کو دوبارہ نہیں دہرائیں گے اور امریکہ ایک بار پھر ان سب کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کر کے ان کے کندھوں بلکہ سینوں پر مسلسل سوار رہنے کی خواہش پوری نہیں کر پائے گا۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہمارے عرب بھائی امریکی سنگینوں کے سائے سے نجات حاصل کر کے آزادی اور خودمختاری کی منزل سے ہمکنار ہو جائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter