صائمہ کیس کا فیصلہ

   
اپریل ۱۹۹۷ء

جسٹس احسان الحق چوہدری، جسٹس ملک محمد قیوم، اور جسٹس خلیل الرحمان رمدے پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے گزشتہ گیارہ ماہ سے زیرسماعت شہرہ آفاق ’’صائمہ کیس‘‘ کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ جس کے مطابق دو ججوں کے اکثریتی فیصلہ کی رو سے والدین کی مرضی کے خلاف صائمہ کے نکاح کو درست قرار دیتے ہوئے اسے اپنے خاوند ارشد کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جبکہ اول الذکر جج نے فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے۔

صائمہ کا تعلق لاہور کے معروف خاندان روپڑی فیملی سے ہے، اس کے والدین نے اس کی منگنی ڈاکٹر داؤد نامی ایک نوجوان سے کی لیکن وہ گھر سے فرار ہو کر انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کے پاس ہنچ گئی۔ عاصمہ جہانگیر نے اسے اپنے ادارے ’’دستک‘‘ میں پناہ دی، وہیں ارشد نامی ایک نوجوان سے صائمہ کا نکاح کر دیا گیا۔ صائمہ کے والد حافظ عبد الوحید روپڑی نے اس کارروائی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا، اور عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ نے نہ صرف صائمہ کی طرف سے اس کیس کی پیروی کی بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور لابیوں کے ذریعے اسے عالمی ذرائع ابلاغ کا دل پسند موضوع بنا دیا، جس سے ’’صائمہ کیس‘‘ کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔

عدالتِ عالیہ میں اس کیس کے حوالہ سے بنیادی طور پر یہ نکتہ زیر بحث رہا کہ کیا عاقلہ بالغہ لڑکی ولی کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کر سکتی ہے؟ اخبارات میں اس موضوع پر بحث چلی تو روایتی انداز میں حنفی اور اہلحدیث مکاتب فکر آمنے سامنے آ گئے۔ ایک طرف سے بعض اہلحدیث علماء نے شد و مد سے یہ کہنا شروع کیا کہ ولی کی اجازت کے بغیر سرے سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ دوسری طرف بعض حنفی علماء نے اس پر زور دیا کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے عاقلہ بالغہ لڑکی کی رائے اور رضا کو نکاح کے لیے ضروری قرار دیا ہے، اس لیے صائمہ نے اپنی مرضی سے جو نکاح کیا ہے وہ درست ہے۔

راقم الحروف نے دونوں طرف کے بزرگوں سے ملاقات کر کے یہ عرض کیا کہ یہ مسئلہ حنفی اور اہلحدیث اختلاف کا نہیں بلکہ ہمارے خاندانی نظام کے خلاف مغربی ثقافت کی یلغار کا ہے۔ جس کا مقصد عورت کی آزادی کے نام پر مغرب کی مادر پدر آزاد ثقافت کو ہم پر مسلط کرنا ہے۔ اس لیے اسے باہمی اختلاف کے حوالے سے نہ دیکھا جائے بلکہ مغربی ثقافت کے مقابلہ کے لیے مشترکہ موقف اختیار کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی راقم الحروف نے ’’صائمہ کیس‘‘ کی سماعت کرنے والے لاہور ہائی کورٹ کے جج صاحبان کے نام ایک عریضہ لکھا جس میں یہ عرض کیا کہ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے ’’فیض الباری‘‘ میں اس مسئلہ پر مذاہب کی جو تفصیل بیان کی ہے اس کے مطابق حضرت امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے کہ عاقلہ بالغہ مسلمان لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا، لیکن لڑکی کے لیے بھی والدین کی عزت اور ’’کفو‘‘ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اور اس طرح حضرت امام ابوحنیفہؒ کی رائے اس مسئلہ میں ’’اجتماعِ رضائین‘‘ (ایک حد تک) ضروری ہے۔ یعنی ولی لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کر سکتا، اور لڑکی ولی کی رضا کو ملحوظ رکھنے کی پابند ہے۔

اس پر جامعہ اشرفیہ لاہور میں دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کا ایک اجلاس ہوا جس میں انہوں نے راقم الحروف کے مکتوب سے اتفاق کرتے ہوئے اسے اپنا مشترکہ موقف قرار دیا اور اس کی لاہور ہائی کورٹ کو باضابطہ اطلاع کر دی۔ لیکن اس کے بعد عملاً کچھ نہ ہو سکا اور علماء کی طرف سے اپنے اس موقف کی عدالتی پیروی کے لیے جو کچھ ہونا چاہیے تھا اس کا اہتمام نہ ہو سکا۔

اب اس کیس کا فیصلہ سامنے آ چکا ہے اور صائمہ کے والد حافظ عبد الوحید روپڑی نے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب سجاد علی شاہ نے اعلان کیا ہے کہ اس قسم کے تمام کیس اکٹھے کر کے ان کی یکجا سماعت کی جائے گی اور اس کے لیے سپریم کورٹ کا فل بنچ تشکیل دیا جائے گا۔

’’صائمہ کیس‘‘ کے علاوہ اس نوعیت کے بعض دیگر کیس بھی سپریم کورٹ تک پہنچے ہیں جن میں مختلف جج صاحبان نے الگ الگ اور متضاد فیصلے دیے ہیں۔ اور اس طرح یہ مسئلہ کہ کوئی لڑکی گھر سے فرار ہو کر اپنے طور پر رشتہ تلاش کر کے یا دوستانہ لگا کر کسی لڑکے سے نکاح کر لے تو ہمارا عدالتی نظام اسے جواز کی سند فراہم کرتا ہے یا نہیں، اب سپریم کورٹ کے فل بنچ میں پیش ہو گا اور اس سلسلہ میں آخری عدالتی معرکہ چند روز تک شروع ہو جائے گا۔

ہم اس مرحلہ میں ملک کے دینی حلقوں سے دو گزارشات کرنا چاہتے ہیں:

  1. ایک یہ کہ اس مسئلہ کو فقہی اختلافات کے حوالے سے نہیں بلکہ ویسٹرن سولائزیشن کی ثقافتی یلغار کے پس منظر میں دیکھا جائے اور مشترکہ موقف اختیار کیا جائے۔
  2. اور دوسری گزارش یہ ہے کہ صرف موقف پیش کر دینے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ عدالتِ عظمیٰ میں اپنے موقف کی پیروی اور اس کے حق میں ملک بھر میں رائے عامہ کو منظم و بیدار کرنے کے تقاضے بھی پورے کیے جائیں، کیونکہ اس کے بغیر اس ثقافتی جنگ میں مغرب کی یلغار کو روکنا شاید ممکن نہ رہے گا، اور ہم اس سلسلہ میں اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر پائیں گے۔
   
2016ء سے
Flag Counter