دینی مدارس اور مغربی لابیاں

   
مئی ۱۹۹۶ء

روزنامہ جنگ لاہور نے ۱۴ اپریل ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں ایک جرمن اخبار میں پاکستان کے دینی مدارس کے بارے میں شائع شدہ سروے رپورٹ کے بعض مندرجات کا حوالہ دیا ہے جس میں دینی مدارس کو دہشت گردی سکھانے والے اڈے قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان دینی مدارس میں لاکھوں طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، جو رپورٹ لکھنے والے جرمن صحافی کے بقول ہوش گم کر دینے والی تعداد ہے۔

پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں دینی مدارس سے مغرب کی سیکولر لابیوں کو اصل شکایت تو یہ ہے کہ یہ مدارس اسلام کے بنیادی عقائد و احکام کے ساتھ عام مسلمانوں کا رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اور دنیا کی عام آبادی کا مذہب کے ساتھ عملی تعلق ختم کرنے کے لیے مغرب نے دو صدیاں قبل جو مہم شروع کی تھی مسلم معاشرہ میں اس کی کامیابی کی راہ میں یہ مدارس ناقابل شکست دیوار کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ پوری دنیا پر ایک نظر ڈال کر دیکھ لیجئے کہ مختلف ممالک کی آبادیاں خواہ وہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں یا یہودی، بدھ مت اور ہندو مذاہب کی پیروکار کہلاتی ہیں، سب کی سب اجتماعی زندگی سے مذہب کو لاتعلق رکھنے کا فلسفہ ذہناً اور عملاً قبول کر چکی ہیں، جسے مغرب کے لادینی فلسفہ کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن مسلم معاشرہ میں صورتحال ایسی نہیں ہے، بلکہ مغرب نواز مسلم حکومتوں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود عام مسلمانوں کا اپنے مذہب کے ساتھ نہ صرف جذباتی رشتہ قائم ہے بلکہ وہ اسلام کو اپنی عملی اور اجتماعی زندگی میں نافذ و جاری دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ ناکامی مغربی لابیوں کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے اور وہ دینی مدارس کو اس کا سب سے بڑا سبب سمجھتے ہوئے مسلم معاشرہ میں ان کے کردار کو ختم کرنے یا کم از کم غیر مؤثر بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

  • دینی مدارس کی کردار کشی کے لیے مغربی نشریاتی اداروں اور اخبارات و جرائد کا مسلسل منفی پراپیگنڈا،
  • دینی مدارس پر ریاستی کنٹرول قائم کرنے کی تجویزیں،
  • ان کے جداگانہ تشخص کو ختم کر کے ’’اجتماعی دھارے‘‘ میں ضم کر دینے کی کوشش،
  • اور ان مدارس سے تعاون کرنے والے اداروں اور شخصیات کو ہراساں اور متنفر کرنے کی کاروائیاں

اسی مہم کے مختلف پہلو ہیں۔ مغربی لابیوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں جہاد کے نام سے جو مسلح تحریکات کام کر رہی ہیں انہوں نے اسلحہ کی تربیت افغانستان میں حاصل کی ہے، اور افغانستان میں روس کے خلاف جنگ لڑنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان دینی مدارس کی تعلیم یافتہ ہے۔ اس لیے یہ مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں اور ان سے پوری دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ مگر یہ سب بہانے ہیں، ورنہ ان دینی مدارس کی ایک بڑی تعداد بلکہ غالب اکثریت میں پائے جانے والے پرسکون تعلیمی ماحول، پر اَمن فضا اور خالصتاً تعلیمی سرگرمیوں سے یہ مغربی لابیاں کس طرح بے خبر رہ سکتی ہیں؟

اس ضمن میں ہفت روزہ ’’العالم الاسلامی‘‘ مکہ مکرمہ ۱۸ مارچ ۱۹۹۶ء میں شائع شدہ اس خبر کا تذکرہ بھی شاید نا مناسب نہ ہو کہ امریکہ نے کویت کی حکومت سے ان رفاہی تنظیموں کی سخت نگرانی کا مطالبہ کیا ہے جو دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلم اداروں کی مالی امداد کرتی ہیں۔ چنانچہ کویت کے نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ نے رفاہی تنظیموں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اس امر کو یقینی بنانے کا اہتمام کریں کہ ان کی امداد کسی جگہ بھی دہشت گرد اداروں تک نہ پہنچنے پائے۔

لیکن مغربی لابیوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان مدارس کو ملنے والی رقوم میں مسلم حکومتوں یا بین الاقوامی رفاہی اداروں کا حصہ اس قدر کم ہے کہ اسے بند کر دینے سے ان مدارس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اور وہ عام مسلمان جن کے رضاکارانہ تعاون سے یہ مدارس چل رہے ہیں ان کا تعلق اور اعتماد ان مدارس کے ساتھ بدستور قائم ہے۔ اس لیے ان مدارس کے خلاف کوئی حیلہ کارگر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

اس موقع پر حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند کی فراست اور ان کی اس وصیت کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے جس میں انہوں نے مدرسہ کے لیے کوئی سرکاری امداد قبول نہ کرنے، کوئی مستقل ذریعہ آمدنی اختیار نہ کرنے اور عام لوگوں کے رضاکارانہ چندوں پر مدرسہ کے نظام کی بنیاد رکھنے کی تلقین فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر بے پایاں رحمتوں کا نزول فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter