ایک قومی اخبار نے ۵ دسمبر کو یہ خبر شائع کی ہے کہ روس کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن اسمبلی دمتری سویولوو نے ایک قانون منظوری کے لیے پیش کیا ہے کہ روس میں بغیر سود اسلامی بینکاری کی اجازت دی جائے۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے دمتری سویولوو اسمبلی میں ایک اور مسودہ قانون بھی پیش کر چکے ہیں جس میں اسلامی اصول کی بنیاد پر لیزنگ میں رکاوٹ ڈالے جانے کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
غیر سودی بینکاری جسے عام طور پر اسلامی بینکاری سے تعبیر کیا جاتا ہے، اب دنیا بھر میں نہ صرف توجہ حاصل کر رہی ہے بلکہ اس کی افادیت و ضرورت کو تسلیم کرنے کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ یقیناً اسلام اور آسمانی تعلیمات کی حقانیت کا اظہار ہے اور اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ انسانی معاشرہ آسمانی تعلیمات سے روگردانی کے نتائج بھگت کر اب وحی الٰہی اور فطرت سلیمہ کی طرف واپسی کے راستے تلاش کرنے لگا ہے۔
سود ایک ایسی معاشی اور معاشرتی بیماری ہے جسے قرآن کریم بلکہ اس سے قبل کی آسمانی کتابوں بالخصوص توراۃ میں بھی نحوست، بے برکتی اور لعنت کے اسباب میں شمار کیا گیا ہے اور قرآن کریم نے بنی اسرائیل سے خدا کی ناراضگی اور ان کے بالآخر ملعون ہونے کے اسباب میں کہا ہے کہ واخذھم الربٰوا وقد نہوا عنہ ان کا سود کا لین دین اختیار کر لینا بھی ان پر اللہ تعالیٰ کے غضب کا باعث بنا تھا۔ قرآن کریم نے تجارت اور سود کو ایک دوسرے سے الگ معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ واحل اللّٰہ البیع وحرم الربٰوا اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ یمحق اللّٰہ الربٰوا ویربی الصدقات اللہ تعالیٰ سود کی رقم کو بے برکت بنا دیتا ہے اور صدقہ میں برکت و اضافہ فرماتا ہے۔
چنانچہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان کرتے ہوئے ہر قسم کے سود کی صراحتاً ممانعت فرما دی اور اسلامی ریاست سے سود کا بالکل خاتمہ کر دیا۔ حتیٰ کہ نجران کی مسیحی آبادی کو اسلامی ریاست کا حصہ بناتے ہوئے جو معاہدہ ہوا اس میں واضح طور پر کہہ دیا گیا کہ وہ بھی سودی لین دین نہیں کریں گے۔ اور اگر ان کے کسی ذمہ دار شخص نے سودی کاروبار کیا تو ان کے ساتھ شہریت کا یہ معاہدہ ختم ہو جائے گا۔ اس طرح سودی لین دین سے مکمل احتراز کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اسلامی ریاست کے تمام باشندوں کے لیے قطعی طور پر ممنوع قرار دے دیا جس سے اسلامی دنیا اور جزیرۃ العرب کا معاشی نظام اور معاشرتی ماحول سود کی لعنت سے پاک ہوگیا۔ سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ طائف کے قبیلہ بنو ثقیف کا وفد جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے قبیلہ کی طرف سے اسلام قبول کرنے کے لیے مدینہ منورہ حاضر ہوا تو انہوں نے مسلمان ہونے کے لیے چند شرائط پیش کیں جن میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ چونکہ دوسرے قبائل اور قوموں کے ساتھ ان کے تجارتی معاملات سود کی بنیاد پر چلتے ہیں اور سود کی ممانعت سے ان کی بین الاقوامی تجارت متاثر ہوگی اس لیے وہ سود کا لین دین ترک نہیں کر سکیں گے۔ مگر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرائط قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بنو ثقیف کو اسلام قبول کرنے کے لیے ان شرائط سے دستبردار ہونا پڑا۔
دنیا میں جب تک اسلامی احکام و قوانین کی عملداری رہی اور خلافت یا سلطنت کے عنوان سے مسلم حکومتیں دنیا کے مختلف علاقوں میں برسراقتدار رہیں ان سب میں سود کا لین دین ممنوع رہا۔ اور مسلمانوں نے اجتماعی طور پر احکام خداوندی پر عملدرآمد کا ماحول قائم رکھا۔ مسلم معاشروں میں سود اس دور میں آیا جب وہ مغرب کے بہت سے استعماری ممالک کے تسلط کی وجہ سے ان کی کالونیاں اور نو آبادیاں بن گئے۔ اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے سود کی بنیاد پر ایک نیا معاشی نظام ترتیب دے کر اسے استعماری غلبہ کے ذریعہ دنیا بھر میں رائج کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے باقی دنیا کی طرح مسلم ممالک اور معاشرے بھی سود کی لعنت میں جکڑے گئے۔ اور سود، سٹہ اور جوئے سے پاک فطری معاشی سسٹم دنیا میں ایک خواب بن کر رہ گیا، جبکہ اس دوران سودی نظام نے پوری دنیا کو تباہ کن معاشی ناہمواری سے دوچار کیا اور انسانی معیشت کو استحصال اور مفاد پرستی کے جال میں جکڑ کر انسانی معاشرہ کو لاینحل مشکلات کی دلدل میں پھنسا دیا، اس کا احساس اب آہستہ آہستہ اجاگر ہو رہا ہے۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے قیام پاکستان کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر سودی معیشت کی انہی تباہ کاریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وطن عزیز پاکستان کے معاشی نظام کو مغرب کے اصولوں پر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر استوار دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں قائد اعظمؒ کی خواہش اور ہدایت کے باوجود ابھی تک سودی نظام مسلط ہے اور باشندگان پاکستان کی مشکلات اور پریشانیوں میں مسلسل اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ:
- دستور پاکستان میں اس بات کی واضح ہدایت موجود ہے کہ حکومت جلد از جلد سودی نظام کے خاتمہ کا اہتمام کرے۔
- بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی یہ خواہش ہنوز تشنۂ تکمیل ہے کہ پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار کیا جائے۔
- اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے کرائے جانے والے عوامی سروے میں ملک کے اٹھانوے فی صد باشندے سودی نظام کے خاتمہ کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔
- اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا شریعت ایپلٹ بنچ ملک کے بینکاری نظام کو سود پر مبنی قرار دے کر سودی قوانین کے مکمل خاتمہ کا فیصلہ دے چکے ہیں۔
- عالمی سطح پر سودی نظام کی معاشی اور معاشرتی تباہ کاریوں کا اعتراف کرتے ہوئے غیر سودی بینکاری کو سرمایہ کاری کے لیے زیادہ محفوظ اور نفع بخش ذریعہ تسلیم کیا جا رہا ہے اور اس بنیاد پر بڑے بڑے عالمی بینکوں میں غیر سودی کاؤنٹر مسلسل کھولے جا رہے ہیں۔
- سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ معاشی ماہرین کی کمیٹی یہ سفارش کر چکی ہے کہ دنیا کو معاشی ناہمواری اور استحصال سے نجات دلانے کے لیے قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصولوں (غیر سودی بینکاری) کو اختیار کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
- برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون لندن کو غیر سودی بینکاری کا مرکز بنانے کے لیے مسلسل سرگرم عمل نظر آرہے ہیں۔
- اور اب روسی پارلیمنٹ میں بھی غیر سودی بینکاری کے لیے مذکورہ بالا مسودہ قانون پیش کر دیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کے پاس اب غیر سودی معیشت کو اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا۔
اس پس منظر میں حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ لیت و لعل اور ٹال مٹول کی پالیسی ترک کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات، عوامی خواہشات اور دستوری تقاضوں کے مطابق ملک کو سودی نظام کی لعنت سے نجات دلانے کے لیے فی الفور عملی اقدامات کا آغاز کرے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں رائے عامہ کو بیدار کرنے اور سول سوسائٹی کو متحرک کرنے کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور راہ نماؤں پر مشتمل مشترکہ فورم ’’تحریک انسداد سود پاکستان‘‘ کے نام سے قائم ہے جس کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر کے طور پر ذمہ داری راقم الحروف کے سپرد ہے ۔ اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی تعلیمات، معاشی انصاف اور معاشرتی عدل کے تقاضوں پر یقین رکھنے والے تمام طبقات، حلقوں اور جماعتوں کو اس طرف توجہ دلائی جائے تاکہ ہم سب مل جل کر قوم کو اسلامی احکام اور قائد اعظمؒ کی خواہش کے مطابق قوم کو ایک منصفانہ نظام فراہم کرنے کی راہ ہموار کر سکیں۔