جہادی تحریکات کے نوجوانوں سے چند گزارشات

   
۱۹ و ۲۰ جون ۲۰۰۰ء

گزشتہ ماہ کے دوران گوجرانوالہ میں حرکۃ الجہاد الاسلامی، باغ آزاد کشمیر میں جیش محمدؐ اور پسرور ضلع سیالکوٹ میں حرکۃ المجاہدین کے چند پروگراموں میں شرکت اور مجاہد نوجوانوں سے گفتگو کا موقع ملا، ان سے جہاد اور جہادی تحریکات کے حوالہ سے جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ ایک بلند مرتبہ راہنما اور مفکر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، انہوں نے آزادیٔ ہند کی خاطر زندگی کا ایک بڑا حصہ جلاوطنی میں گزارا اور تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے سرگرم کردار ادا کیا۔ ان کے رفقاء میں ایک نام مولانا منصور انصاریؓ کا بھی آتا ہے جو ان کے انتہائی قریبی ساتھی تھے اور جب ایک مرحلہ میں برلن میں پروفیسر برکت اللہ بھوپالیؒ کی سربراہی میں ’’آزاد ہند گورنمنٹ‘‘ کے نام سے جلاوطن حکومت کی بنیاد رکھی گئی اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو اس کا وزیرخارجہ مقرر کیا گیا تو ان کی نیابت کے طور پر مولانا منصور انصاریؒ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ میں نے اپنے طالب علمی کے دور میں ان کے دو رسالے دیکھے تھے جو فارسی میں تھے اور ان میں دنیا کے مختلف نظام ہائے حکومت اور اسلامی ریاست کے دستوری خاکے پر بحث کی گئی تھی۔

جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے ان میں سے ایک رسالہ میں مولانا منصور انصاریؒ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول اور حضرت امام مہدیؒ کے ظہور کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان دو بزرگوں کی تشریف آوری سے قبل دنیا میں دو کام عملاً مکمل ہو چکے ہوں گے۔ ایک یہ کہ پوری دنیائے اسلام میں عالمی سطح پر بنیادی دینی تربیت یعنی نماز، روزہ اور دیگر احکام اسلامی اور دینی اخلاق کے حوالہ سے ایک تربیت یافتہ جماعت وجود میں آچکی ہوگی۔ اور دوسرا یہ کہ جہاد کی تیاری اور ٹریننگ کے شعبہ میں بھی عالمی طور پر ایسی جماعت تیار ہو چکی ہو گی کہ دونوں بزرگ اسے لے کر عالمی استعمار اور یہودیت کے مقابلہ میں صف آرا ہو سکیں گے کیونکہ نزول اور ظہور کے بعد اتنا وقت نہیں ملے گا کہ وہ افراد جمع کریں، انہیں جماعت کی شکل دیں، ان کی تربیت کا اہتمام کریں اور ان کو معاشرتی انقلاب اور عسکری محاذ آرائی کے لیے تیار کریں۔ یہ دونوں کام ہو چکے ہوں گے اور دونوں بزرگ تشریف لا کر ان دونوں جماعتوں کی قیادت سنبھالتے ہوئے میدان جنگ میں کود پڑیں گے۔ مجھے اب پوری عبارت یاد نہیں ہے مگر بنیادی خیال مولانا انصاریؒ کا یہی ہے جسے میں نے اپنے الفاظ میں پیش کر دیا ہے اور اگر مولانا انصاریؒ یہ بات نہ لکھتے تو بھی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول اور حضرت امام مہدیؒ کے ظہور کے بارے میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات قرین قیاس لگتی ہے۔

یہ بات پڑھنے کے بعد ایک عرصہ تک میں اس شش و پنج میں رہا کہ یہ دو جماعتیں کونسی ہو سکتی ہیں؟ پہلی جماعت کے بارے میں تو یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ہو سکتا ہے یہ تبلیغی جماعت ہو اس لیے کہ اس کا دائرہ پوری دنیا تک وسیع ہو رہا ہے اور اس میں مختلف اقوام و ممالک اور ہر رنگ و نسل کے لوگوں کی مسلسل شمولیت جاری ہے، نیز اس کا بنیادی کام ایک مسلمان کی دینی و اخلاقی تربیت اور اسے مسجد کے ساتھ جوڑ کر دین کے بنیادی اعمال پر لانا ہے۔ اس لیے اس جماعت کی محنت اسی نہج پر محسوس ہوتی ہے جس کا اوپر تذکرہ ہو چکا ہے۔ لیکن جہادی تربیت اور عسکری ٹریننگ والی جماعت کونسی ہے؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی اور آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک ذہن اس الجھن کا حل تلاش کرنے میں لگا رہا۔ کبھی کبھار مسلم ممالک کی مسلح افواج کا تصور ذہن میں آتا مگر ذہن اسے فورًا جھٹک دیتا کہ ان افواج کی تربیت اور ذہن سازی اس ماحول میں نہیں ہوئی کہ وہ دین کے کسی کام آسکیں بلکہ ان میں سے کوئی فوج خود کو اپنے ملک کے دینی حلقے کے خلاف استعمال ہونے سے بچالے اور وقت آنے پر حضرت عیسٰیؑ اور حضرت امام مہدیؒ کی جہادی افواج کے خلاف صف آرا ہونے سے باز رہ جائے تو اسلام اور ملت اسلامیہ پر یہی اس کا سب سے بڑا احسان ہوگا۔ لیکن کسی مسلم ملک کی موجودہ فوج سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ دین کے حوالہ سے مسلمانوں کے کسی کام آئے گی اور اسلام کا پرچم بلند کر کے عالمی استعمار اور یہودیت کے خلاف صف آرا ہوگی۔ بہرحال ذہن اس الجھن میں تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جہاد افغانستان کا پرچم بلند ہوا اور روسی استعمار کے خلاف یہ دس سالہ جہاد پوری دنیا کے مجاہد نوجوانوں کا ٹریننگ سنٹر بن گیا اور آج صرف پندرہ بیس سال کے بعد میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ جہاد کا عمل پوری دنیا میں پھیل گیا ہے اور دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں جہاد کے نعرے نہ گونج رہے ہوں اور جہاد کے دینی جذبہ سے سرشار ہزاروں نوجوانوں کا دل عالم کفر سے پنجہ آزمائی کے لیے نہ مچل رہا ہو۔

بوسنیا، کوسوو، فلسطین، کشمیر، چیچنیا، صومالیہ، اری ٹیریا، اراکان، مورو، انڈونیشیا اور دیگر علاقوں میں جہاد کا جو عمل سامنے آچکا ہے اس نے کفر کی آنکھیں کھول دی ہیں اور میری ذہنی الجھن بھی حل کر دی ہے کہ دنیائے اسلام میں عالمی سطح پر جہادی تربیت اور عسکری ٹریننگ سے بہرہ ور ایک عالمی فوج وجود میں آچکی ہے جو حضرت عیسٰیؑ کے نزول اور امام مہدیؒ کے ظہور کے ساتھ ان کے پرچم تلے متحد ہو کر عالمی کفر اور اس کے یہودی قائدین کے خلاف صف آرا ہو کر معرکۂ کارزار گرم کر سکتی ہے۔ اس لیے میں اپنے وجدان اور تاریخی مطالعہ کی بنیاد پر عالمی تبلیغی جماعت اور دنیائے اسلام کی جہادی تحریکات کو وہی دو جماعتیں سمجھتا ہوں جن کا تذکرہ مولانا منصور انصاریؒ نے کیا تھا۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ ایک جماعت کا شعبہ سول ہے اور دوسری جماعت کا میدان عسکری ہے لیکن دونوں کا رخ اور جہت ایک ہی ہے۔ اس لیے میں مجاہد نوجوانوں سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنا عزم بلند رکھیں اور خود کو اس عالمی اسلامی فوج میں شمولیت کے جذبہ کے ساتھ تیار کریں جس کی قیادت حضرت عیسٰیؑ اور حضرت امام مہدیؒ نے کرنی ہے اور دنیا میں ایک بار پھر خلافت اسلامیہ کا احیا کرنا ہے۔ یہ کشمیر، چیچنیا، فلسطین، اراکان اور مورو کے معرکے درمیانی مرحلے ہیں اور ٹریننگ اسکیمیں ہیں جو تکوینی طور پر جاری ہیں۔ اصل معرکہ ابھی آگے آنے والا ہے جو عالمی ہوگا، فیصلہ کن ہوگا اور آخری ہوگا اور ہر جہادی تحریک کے ہر کارکن کو اس کے لیے ذہنی اور عملی طور پر پوری طرح تیار رہنا چاہیے۔

جہادی تحریکات کے نوجوانوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ یہ جہادی تحریکات جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں جہاد افغانستان کے ثمرات ہیں اور افغان علماء اور مجاہدین کی عظیم خدمات کا نتیجہ ہیں۔ جبکہ جہاد افغانستان کے ثمرات صرف مسلمانوں اور مجاہدین تک محدود نہیں رہے بلکہ دنیا بھر نے ان ثمرات کو سمیٹا ہے:

  • آج امریکہ روسی استعمار کی شکست کے بعد جو عالمی فاتح کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے یہ افغانستان کے غیور عوام کے جذبۂ حریت اور قربانیوں کا ثمر ہے ورنہ امریکہ ان نتائج کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
  • یورپ کے ممالک متحد ہو رہے ہیں اور ریاستہائے متحدہ یورپ کا ایجنڈا آگے بڑھ رہا ہے تو یہ افغان مجاہدین کی جدوجہد کا صدقہ ہے ورنہ یورپی ممالک اس اتحاد کا خیال بھی ذہن میں نہیں لا سکتے تھے۔
  • جرمنی ایک بار پھر متحد ہوگیا ہے اور دیوار برلن ٹوٹ گئی ہے تو یہ افغان عوام کی عظیم قربانیوں کا ثمرہ ہے ورنہ جرمنی کے دونوں حصے کبھی خواب میں بھی متحد ہونے کی بات اپنے ذہنوں میں نہیں لا سکتے تھے۔
  • وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کو آزادی ملی ہے اور بالٹیک خطہ کی مسیحی ریاستیں آزادی سے ہمکنار ہوئی ہیں۔ یہ افغان عوام کے خون کا صدقہ ہے ورنہ ان ممالک کے عوام تو آزادی کے تصور تک سے بے بہرہ ہو چکے تھے۔
  • پاکستان کی ہزاروں کلو میٹر لمبی شمال مغربی سرحد محفوظ ہو گئی ہے اور پاکستان اپنے روایتی حریف بھارت کے مقابلہ میں بہتر پوزیشن میں آگیا ہے تو یہ بھی جہاد افغانستان کی برکات ہیں۔

لیکن تاریخ کی ستم ظریفی کا یہ کتنا خوفناک منظر ہے کہ جن اقوام و ممالک نے افغان عوام کی قربانیوں کے ثمرات سمیٹے ہیں اور لاکھوں افغان مجاہدین کے خون کے صدقے آزادی اور وحدت کے ادھورے خوابوں کی تعبیر حاصل کی ہے آج وہی سب مل کر افغانستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور افغان عوام کو اس جہاد کے منطقی اور نظریاتی ثمرات سے محروم کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ میرے خیال میں چشم فلک نے اس سے قبل پوری تاریخ میں احسان فراموشی کا اس سے المناک منظر نہیں دیکھا ہوگا اور تاریخ عالم اپنی ابتدا سے اب تک بے وفائی اور خود غرضی کی اس سے بڑی کوئی مثال پیش کرنے سے یقیناً قاصر رہے گی۔ مگر یہ موجودہ کافر اور منافق اقوام کا طرز عمل ہے اور ان دو طبقوں سے اسی قسم کے طرز عمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔

البتہ جہادی عمل سے وابستہ نوجوانوں اور جہادی تحریکات کے قائدین کی یہ دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قسم کے طرزعمل سے گریز کریں اور جہاد کے دینی جذبہ اور عمل کے دنیا بھر میں پھیلنے کے اصل سرچشمہ اور منبع کے طور پر افغانستان کو نظرانداز نہ کریں بلکہ جہاد افغانستان کے منطقی اور نظریاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے اپنے دائرہ میں تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں۔ جہاد افغانستان کی منطقی اور نظریاتی منزل یہ ہے کہ وہاں کمیونسٹ دور سے چلا آنے والا نظام مکمل طور پر ختم ہو اور پورے افغانستان میں اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں آئے۔ اور اب تک کے حالات کا اتار چڑھاؤ شہادت دیتا ہے کہ اس منزل تک مثبت اور سنجیدہ پیش رفت صرف اور صرف طالبان نے کی ہے اور وہ نہ صرف اس مشن اور ہدف کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہیں بلکہ عالمی دباؤ اور داخلی مشکلات و مصائب کے باوجود اپنے اس پروگرام میں کسی قسم کی لچک پیدا کرنے کے روادار نہیں ہیں۔

مجاہدین سے ایک گزارش یہ ہے کہ اس فطری اصول کو یاد رکھیں کہ جب کام میں پھیلاؤ ہوتا ہے تو تقسیم بھی ہوتی ہے۔ کنبے بڑے ہوتے ہیں تو بٹ جاتے ہیں، ایک کنبہ کئی کنبوں میں تقسیم ہو جاتا ہے، الگ الگ مکانات میں بسنے لگتے ہیں بلکہ ایک ہی مکان کے اندر کئی دیواریں کھینچ دی جاتی ہیں، بھائی بھائی سے اور بیٹا باپ سے الگ ہو جاتا ہے، اور مزاجوں کا اختلاف ماں اور بیٹی کو ایک جگہ اکٹھے نہیں رہنے دیتا۔ اس لیے تقسیم میں کوئی برائی نہیں ہے، یہ فطری بات ہے، البتہ تقسیم کے بعد رشتوں کا تعلق ضرور قائم رہنا چاہیے اور باہمی تعلقات کار میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے۔ بیٹے نے باپ سے الگ ہو کر نیا گھر بسا لیا ہے مگر دونوں میں باپ بیٹے کا رشتہ قائم ہے اور شفقت و احترام کے تعلقات موجود ہیں تو تقسیم سے کسی کا کچھ نہیں بگڑا بلکہ محبت کے دائرے میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ دو بھائی اکٹھے نہیں رہ سکے اور الگ الگ مکان میں چلے گئے ہیں مگر اس کے بعد دونوں بھائیوں میں بھائی چارہ موجود ہے اور چھوٹے بڑے کا فرق قائم ہے تو الگ الگ ہونے کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اس لیے مختلف جہادی تحریکات کے نوجوانوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ الگ الگ جہادی گروپوں سے نہ گبھرائیں البتہ آپس میں تعلقات کار قائم رکھیں، ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کی کمزوریوں پر پردہ ڈالیں اور ایک دوسرے کی خوبیوں سے استفادہ کریں۔

اجتماعی زندگی کا اصول ہی یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کی خوبیوں کو یکجا کر کے قوت بنا دیا جائے ورنہ ساری خوبیاں کسی ایک انسان میں اکٹھی نہیں ملیں گی۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے پاس ایک بار کسی مسجد کے منتظمین آئے کہ ہمیں خطیب مہیا کر دیں اور اس کے ساتھ ہی خطیب کے اوصاف گننا شروع کر دیے۔ جب پانچ چھ صفات گن چکے تو شاہ جیؒ نے کہا کہ بس بس! میری ساری زندگی کی لڑائی یہی ہے کہ اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا مگر تم مجھ سے نبی کا تقاضا کر رہے ہو۔ کیونکہ جتنے اوصاف تم نے گنے ہیں یہ کسی نبی میں ہی اکٹھے ہو سکتے ہیں اور یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اللہ کے بندو! کسی شخص میں دو خوبیاں ہوں گی تو دو خامیاں بھی ہوں گی، اس لیے سب کو قبول کرنا ہوگا۔ چنانچہ مجاہدین سے میری گزارش بھی یہی ہے کہ ایک دوسرے میں کمزوریاں تلاش نہ کرو اور ایک دوسرے کے عیوب نہ اچھالو بلکہ اچھائیاں تلاش کر کے ان سے استفادہ کرو اور اگر کوئی کمزوری نظر آئے تو اس پر پردہ ڈالو اور خاموشی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرو کیونکہ جماعتیں اسی طرح اپنے مقاصد میں آگے بڑھتی ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter