تخصصات کے کورسز اور جدید مسائل

   
جامعۃ التخصص فی العلوم الاسلامیہ، ملتان
۲۹ اپریل ۲۰۲۴ء

(جامعۃ التخصص فی العلوم الاسلامیہ ملتان میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر افتتاحی تقریب سے آن لائن خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعۃ التخصص فی العلوم الاسلامیہ ملتان کی افتتاحی تقریب کے موقع پر جامعہ کے سربراہ حضرت مولانا امداد اللہ انور صاحب اور ان کے رفقاء کو مبارکباد دیتا ہوں اور تمام شرکاء کی خدمت میں مبارکباد عرض کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ بہت ضروری اور مبارک عمل ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ اور فضلاء کو ضروری مضامین میں تخصصات کرائے جائیں۔ یہ ہماری پرانی روایت میں ’’تکمیل‘‘ کہلاتی تھی کہ درسِ نظامی اور دورہ حدیث سے فارغ ہونے والے طلباء و علماء خاص فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے، یا کسی خاص فن میں اپنے تعلیمی خلا کو پر کرنے کے لیے مختلف ماہرین علماء کے پاس جاتے تھے، اور نحو، صَرف، میراث، قرآن مجید کی تفسیر جبکہ عموماً معقولات میں تکمیل کرتے تھے۔

معقولات میں تکمیل کے بہت سے مراکز تھے، قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر کے کئی مراکز تھے، اسی طرح صرف، نحو اور میراث میں تکمیل کے لیے بہت سے مراکز تھے، جہاں ہمارے اہلِ علم مرجع ہوا کرتے تھے۔ فارغ التحصیل علماء اور طلباء ان سے رجوع کرتے، ان کی خدمت میں رہ کر اس فن میں پچھلے خلا کو پر کرتے اور آگے پیشرفت اور ترقی کرتے تھے۔ یہ عمل ہمارے ہاں کافی عرصہ سے تکمیل کے نام سے چل رہا تھا، اب وہی تخصصات کے ادارے سے منظم ہوتا جا رہا ہے، جو بہت خوشی کی بات ہے۔

میں اس حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک تو ہمارے ہاں مختلف علوم میں تخصص ہوتا ہے۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ہمارا معیارِ تعلیم بہت کمزور ہوتا جا رہا ہے اور اکثر علوم میں فارغ التحصیل طلبہ کمزور ہی ہوتے ہیں، تو جس فن اور جس علم میں کام کرنے کا ذوق ہو اس میں بہرحال تکمیل ضروری ہے اور تخصص بھی ضروری ہے۔ میرے خیال میں پہلے تکمیل کرنی چاہیے تاکہ پچھلے خلا کو پر کیا جائے اور پھر تخصص یعنی کوئی امتیاز حاصل کیا جائے۔ یہ ہماری تعلیمی ضروریات میں سے ہے۔ دنیا کے تمام جامعات اور دینی تعلیمی نظاموں میں تخصصات کا دائرہ موجود ہے۔

پھر یہ بات بطور خاص عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں معقولات کے دائرے میں ایک عرصہ تک یونانی فلسفے کے پیدا کردہ شکوک و شبہات اور مسائل ہمارا موضوعِ بحث رہے ہیں اور بڑے بڑے معقولی مدرسین نے علماء کو اپنا فن، اپنا علم، اپنی مہارت اور اپنے تجربات منتقل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اب تناظر تھوڑا سا بدل گیا ہے۔ میں اس طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ اب سے پہلے تک جو ہمارے تہذیبی، فکری اور عقلی مسائل تھے، وہ یونانی فلسفے کے پیدا کردہ ماحول سے سامنے آئے تھے۔ یہ بھی ہماری ضرورت ہے کہ ہم اپنے ماضی سے اور اپنے علوم و فنون سے واقف رہیں، لیکن اب مغربی فلسفہ کا دور ہے، جو کہ یونانی فلسفہ سے مختلف ہے۔ یہ ہیومینٹی اور انسانی حقوق کا فلسفہ ہے اور اس کے اپنے بہت سے لوازمات ہیں۔ اس نے بھی نوجوان ذہن کو بالخصوص نوجوان علماء کو شکوک و شبہات اور ابہامات سے اسی طرح دوچار کر رکھا ہے جس طرح یونانی فلسفے نے اپنے ابتدائی دور میں کیا تھا، جس پر ہمارے بزرگوں نے جن میں خاص طور پر ہمارے علم کلام کے دونوں بڑے ائمہ امام ابو الحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدیؒ شامل ہیں، اور ان کے بعد امام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ، ابن رشدؒ اور دوسرے ائمہ نے ان علوم پر دسترس حاصل کر کے نوجوانوں کے ان شکوک و شبہات کا سامنا کیا تھا۔

میں اس موقع پر ایک طالب علمانہ رائے کے طور پر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تخصص کا ایک دائرہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ پڑھتے پڑھاتے ہیں اس میں کوتاہیاں اور کمیاں دور ہونی چاہئیں، اور کسی علم میں امتیاز حاصل ہونا چاہیے تاکہ وہ معاشرے میں کام کر سکے اور خدمت سر انجام دے سکے۔ یہ ہماری بنیادی ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تخصصات کے دائرے میں اس ضرورت کو بھی شامل کیا جانا چاہیے کہ جدید مغربی فلسفہ، ہیومینٹی کے فلسفے، ویمنزم اور فیمنزم کے فلسفے نے جو مسائل کھڑے کیے ہیں اور ہماری نوجوان نسل اکثر ان کا شکار ہے، بلکہ ہمارے نوجوان علماء کی ایک بڑی تعداد بھی ان کا شکار ہے، ہمیں ان فنون اور علوم اور ان مسائل کو بھی تخصصات کے دائرے میں لانا چاہیے۔

بہرحال جامعۃ التخصص فی العلوم الاسلامیہ، ملتان میں جو تخصص حضرت مولانا امداد اللہ انور دامت برکاتہم کی نگرانی اور سرپرستی میں جاری ہے اور اس میں پیشرفت کر رہے ہیں، یہ بڑی خوشی کی بات ہے، یہ ہماری وقت کی ضرورت ہے، میں اس پر مسرت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ تخصص کرانے والے اداروں اور شخصیات سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح یونانی فلسفے کے پیدا کردہ مسائل سے ہمارے اہلِ علم نے نمٹا تھا، اسی طرز پر مغربی فلسفہ، مغربی تہذیب اور مغربی افکار سے نمٹنے کی بھی ہمیں فکر کرنی چاہیے، کیونکہ ہماری نئی نسل کو زیادہ تر ان مسائل کا سامنا ہے۔

میں آج کی اس تقریب میں نئے سال کی آغاز پر حضرت مولانا امداد اللہ انور، ان کے تمام رفقاء، اساتذہ، طلباء، منتظمین اور معاونین کو مبارکباد دیتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں تعلیم کے میدان میں اپنے تعلیمی تقاضوں کو پورا کرنے کی اور پورا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter