حضرت عائشہؓ کی سخاوت اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی آزمائش

   
مدرسہ طیبہ، مسجد خورشید، کوروٹانہ، گوجرانوالہ
۲۲ ستمبر ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن امِ عبد اللہ کہلاتی تھیں۔ ان کے بھانجے عبد اللہ بن زبیرؓ اور عروہ بن زبیرؓ حضرت اسماءؓ کے بیٹے تھے لیکن حضرت عائشہؓ کی گود میں ہی پلے تھے اور پرورش پائی تھی۔ خالہ ماں ہی ہوتی ہے، تو عبد اللہ بن زبیرؓ کی نسبت سے امِ عبد اللہ کہلاتی تھیں۔ ساری زندگی ماں بیٹے کی طرح رہے لیکن ایک دفعہ ماں بیٹے میں جھگڑا ہو گیا، وہ جھگڑا بیان کرنا چاہتا ہوں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللہ پاک بہت نوازتے تھے، بڑی دولت آتی تھی، دل بھی بہت بڑا تھا۔ عام طور پر یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوتیں، دولت ہوتی ہے تو دل نہیں ہوتا، دل ہوتا ہے تو دولت نہیں ہوتی۔ یہ دو چیزیں بہت کم لوگوں میں اکٹھی ہوتی ہے کہ جتنی دولت ہے اتنا دل بھی ہو۔ حضرت عائشہؓ کا دل بہت بڑا تھا، جو چیز آتی تھی بانٹ دیتی تھیں، بہت کچھ آتا تھا ان کے پاس لیکن تقسیم کر دیتی تھیں۔

حضرت عائشہؓ کی ایک کی خادمہ اور شاگرد تھیں عمرہ بنت عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہا، وہ حضرت عائشہؓ کی کیفیت یہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ رمضان میں ایک لاکھ درہم کسی نے ہدیہ بھیجا، یہ صدقہ خیرات نہیں تھا۔ عمرہؓ کہتی ہیں کہ ہم گھر میں تین چار لوگ تھے، عروہؓ تھا، میں تھیؓ، ایک عائشہ لڑکی اور تھی، صبح سے شام تک ہماری ڈیوٹی لگ گئی کہ فلاں یتیم کے گھر دے کر آؤ، فلاں بیوہ کے گھر دے کر آؤ، فلاں مجاہد کے گھر دے کر آؤ۔ سارا دن ہم بانٹے رہے بانٹے رہے اور عصر تک سب ختم ہو گیا۔

عمرہؓ کہتی ہیں کہ ہم چار پانچ بچے بانٹنے میں لگے رہے، یتیم کے گھر میں، مجاہد کے گھر میں، کسی شہید کے گھر میں، کسی ضرورتمند کے گھر میں، تھال بھر بھر کر دے رہے ہیں، حتیٰ کہ عصر تک سب ختم ہو گیا۔ کہتی ہیں کہ گھر کا نظام میرے حوالے تھا، ہانڈی روٹی وغیرہ۔ عصر کے بعد میں نے دیکھا کہ اپنے گھر کے لوگوں کے روزہ کھولنے کے لیے گھر میں کوئی شے نہیں تھی۔ میں نے اماں جی سے کہا کہ روزہ کھولنے کے لیے کوئی شے نہیں ہے، تو اماں جی نے ڈانٹا کہ پہلے بتانا تھا، وہ پیسے تو میرے ہی تھے، کچھ درہم روک لیتے اور کھجوریں منگوا لیتے۔ اب میرے پاس کچھ نہیں ہے، پانی سے روزہ کھولو۔ عمرہؓ کہتی ہیں کہ شام کو ہم سب نے پانی سے روزہ کھولا۔

یہ تھی حضرت عائشہؓ کی کیفیت کہ جو آیا بانٹ دیا۔ ایک دن عبد اللہؓ کہنے لگے کہ میں اماں کا ہاتھ روکوں گا۔ بیٹا آگیا موج میں کہ سارا کچھ بانٹ دیتی ہیں، بچے گھر میں بھوکے رہتے ہیں، میں اماں کا ہاتھ روکوں گا۔ حضرت عائشہؓ کو پتہ چلا تو فرمایا اچھا! میرا بھی کوئی ہاتھ روکنے والا ہے؟ اللہ دیتا ہے اور میں اللہ کے بندوں کو دیتی ہوں، یہ کون ہوتا ہے میرا ہاتھ روکنے والا؟ خدا کی قسم آج کے بعد عبد اللہؓ سے بات نہیں کروں گی، اسے کہو اس گھر کے اندر نہ آئے، میں اس سے کوئی کلام نہیں کروں گی۔ اماں آگئیں غصے میں۔

اب عبد اللہؓ کو اپنی مصیبت پڑ گئی کہ ہاتھ روکتے روکتے خود رک گئے، اور سفارشیں تلاش کرتے پھر رہے ہیں کہ اماں جی کو منا لوں، اماں جیسے معافی لے لوں۔ اب لوگ آ رہے ہیں اور منتیں کر رہے ہیں لیکن نہیں مان رہیں۔ کسی نے عبد اللہؓ سے کہا کہ ایک ہی صورت ہے کہ حضرت آمنہؓ کے خاندان کا کوئی بوڑھا آدمی آجائے گا تو اس کو وہ ناں نہیں کریں گی۔ بنو نجار حضورؐ کے ننھیال تھے۔ اس خاندان کا کوئی بابا آ جائے تو اماں جی اس کو ناں نہیں کریں گی، باقی کسی کی نہیں مانیں گی۔ وہ تلاش کر کے دو بزرگ لے آئے۔ مسور بن مخرمہؓ اور عبد الرحمٰن بن اسودؓ۔ اب بابے تو بابے ہوتے ہیں۔ عبد اللہؓ کو منع کیا ہوا تھا کہ گھر میں قدم نہیں رکھنا۔ وہ آ کر باہر کھڑے ہوئے، بتایا کہ اماں جی میں عبد الرحمٰن ہوں۔ فرمایا، اندر آجائیں۔ کہا، میرے ساتھ مسور بھی ہے۔ فرمایا، آجائیں۔ کہا، ایک آدمی اور بھی ہے۔ فرمایا، آجائیں۔ اس طرح وہ عبد اللہؓ کو ساتھ اندر لے گئے۔

حضرت عائشہؓ کے آگے پردہ لٹکا ہوتا تھا اور وہ اس کے پیچھے بیٹھی ہوتی تھیں، سامنے آ کر لوگ بیٹھتے تھے اور بات کرتے تھے۔ اب یہ لوگ آ کر پردے کے سامنے بیٹھے گئے اور حضرت عائشہؓ اندر ہیں۔ انہوں نے عبد اللہؓ سے کہا کہ ہم باتیں کرتے ہوئے جب یہ بات کریں گے، تم تو بھانجے ہو، کپڑا اٹھا کر اندر چلے جانا اور قدموں میں پڑ جانا۔ انہوں نے یہ پلاننگ کی اور بات شروع کی، جب یہ بات کی تو عبد اللہ اٹھے اور کپڑا اٹھایا اور اندر چلے گئے، اماں جی خدا کا واسطہ ہے معاف کر دیں، خدا کا واسطہ معاف کر دیں۔ اس طرح بابوں نے معافی لے کر دی عبد اللہ بن زبیرؓ کو۔ اماں جی کہتی ہیں کہ اس نے جو بات کہی ہے، مجھے اُن باتوں سے اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جب مجھ پر الزام لگایا گیا تھا، اس کی بات نے مجھے زیادہ تکلیف دی ہے۔

جب قسم توڑیں تو اس کا کفارہ ہوتا ہے اور کفارے میں پہلا نمبر غلام آزاد کرنے کا ہے۔ انہیں پھر خیال آیا کہ میں نے بہت بڑی قسم اٹھا لی تھی جو مجھے اٹھانی نہیں چاہیے تھی، چنانچہ چالیس غلام خرید کر آزاد کیے ایک قسم کے کفارے میں کہ بڑی غلطی کا کفارہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ میں نے یہ بات بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ دولت دے تو دل بھی دے، اور دل دے تو دولت بھی دے۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمد۔

2016ء سے
Flag Counter