اس بار برطانیہ اور امریکا کے لیے سفر کرتے ہوئے ایک رات کراچی میں گزاری۔ حسبِ معمول جامعہ انوار القرآن نارتھ کراچی میں حاضری ہوئی۔ مولانا فداء الرحمٰن درخواستی موجود نہیں تھے، ان کے فرزند مولانا رشید احمد درخواستی نے ایئر پورٹ سے وصول کیا اور جامعہ انوار القرآن میں لے آئے۔ جامعۃ الرشید کراچی کے حضرات کو میرے اس پروگرام کا علم تھا، انہوں نے کراچی آنے سے پہلے ہی فون پر فرما دیا کہ رات آپ ہمارے ساتھ گزاریں گے، میں نے ہاں کر دی۔ چنانچہ جامعہ انوار القرآن میں پہنچتے ہی ان کے نمائندے آ گئے اور ہم چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر عشاء سے قبل جامعۃ الرشید جا پہنچے۔ یہ ادارہ جس انداز سے کام کر رہا ہے، وہ میرے پرانے خوابوں کی تعبیر ہے۔ فکری و علمی میدان میں ادارے کی پیش رفت دیکھ کر دلی خوشی ہوتی ہے، البتہ ”فائیو اسٹار معیار“ دل میں کھٹکتا رہتا ہے، مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ یاد کر کے چپ ہو رہتا ہوں۔
امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو امتیازی لباس پہننے، امتیازی کھانا کھانے، امتیازی سواری اختیار کرنے اور امتیازی رہائش اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع کر رکھا تھا اور وہ اس حکم کی خلاف ورزی پر اپنے عمّال کو سزا بھی دیا کرتے تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے گورنر تھے، ان کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی کہ وہ عمدہ لباس زیب تن کر کے باقاعدہ تخت بچھا کر دربار لگاتے ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فراست پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اعتماد تھا، اس لیے کوئی قدم اٹھانے کی بجائے صورتحال کو خود ملاحظہ کرنے کا فیصلہ کیا اور شام کا دورہ رکھ لیا۔ وہاں پہنچے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دربار کا کروفر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انتہائی عمدہ چغہ پہنے تخت پر بیٹھے ہیں اور بادشاہوں کی طرح درباری امور سرانجام دے رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھتے ہی کہا کہ معاویہ! یہ کیا ہے؟ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب میں اپنا چغہ اٹھا کر کہا کہ ”میرا اندر کا لباس وہی سادہ اور عام سا ہے۔ یہ ہیئت میں نے اس لیے اختیار کر رکھی ہے کہ عالمِ اسلام کی سرحد پر بیٹھا ہوں، سرحد کی دوسری جانب رومی ہیں، جن کے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اور چونکہ وہ اسی طرز کے عادی ہیں اور اسی سے مرعوب ہوتے ہیں، اس لیے میں جان بوجھ کر ایسا کرتا ہوں تاکہ ان پر مسلمانوں کا رعب قائم رہے، ورنہ میرا عام لباس اور طرزِ زندگی عام مسلمانوں جیسا ہی ہے۔“ تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور اس کے بعد کوئی بات نہیں کی۔
میرا حال یہ ہے کہ ان معاملات میں حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور حضرت مولانا محمد علی جالندھری کے ذوق کا آدمی ہوں۔ سب امور میں ان کی پیروی نہ کر سکوں، تب بھی طرز انہی کا اچھا لگتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ سہل پسندی اور تکلفات سے طبیعت اِبا کرتی ہے، مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے طرز عمل پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خاموشی کا واقعہ یاد کر کے انہی کی پیروی میں خاموش ہو جاتا ہوں۔
جامعۃ الرشید نے عصر حاضر کے تقاضوں اور ضروریات کی طرف علمائے کرام کو متوجہ کرنے اور ان کی روشنی میں نئی کھیپ تیار کرنے کے لیے جو کام شروع کر رکھا ہے، وہ یقیناً دلی خوشی کا باعث بنتا ہے اور بے ساختہ دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو اپنے مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار کریں۔ آمین یا رب العالمین۔ جامعہ کے اساتذہ کے ساتھ فجر کی نماز کے بعد طویل نشست ہوئی جس میں ملک کی عمومی صورتحال اور دینی جدوجہد کے علاوہ نوجوان علماء کی ذہنی، فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت کے حوالے سے بہت سے امور زیر بحث آئے اور باہمی تبادلہ خیالات ہوا جبکہ رات عشاء کے بعد جامعۃ الرشید کے خصوصی تربیتی کورس میں شریک نوجوان علمائے کرام سے کچھ گزارش کرنے کے لیے کہا گیا جس پر میں نے ایک نکتہ پر ان کے سامنے کچھ معروضات پیش کیں، ان کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
ہم آج کل عام طور پر جب یہ بات بڑی اہمیت اور اصرار کے ساتھ کہتے ہیں کہ آج کے دور میں دین کی دعوت اور دین کے احکام و قوانین لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے آج کے حالات و ضروریات، لوگوں کی نفسیات اور گفتگو کے جدید اسلوب کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور موجودہ عالمی صورتحال کو سامنے رکھ کر دین کی بات کرنی چاہیے، تو اس سے بعض حلقے یہ نتیجہ اخذ کرنے لگتے ہیں کہ شاید ہم حالات زمانہ کی رعایت سے دین کے احکام و مسائل میں لچک پیدا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ میں آج کی نشست میں اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دین کی دعوت اور دینی احکام کی تشریح و تعبیر میں زمانے کے حالات کی رعایت کا مطلب احکام و ضوابط میں لچک نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دین کے جو احکام غیر متبدل ہیں اور جن میں لچک اور تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے، ان میں مسئلہ تو وہی بیان کریں جو ہے، اس میں کوئی لچک نہ ہو، لیکن گفتگو کا طرز اور اسلوب وہ اختیار کریں جو مخاطب کے لیے فہم اور انس کا باعث بنے اور اس سے دین سے اس کی دوری میں اضافہ نہ ہو۔ کیونکہ بسا اوقات مسئلہ کی بجائے اس کا طرز بیان مخاطب کے لیے وحشت کا باعث بن جاتا ہے، اس کا لحاظ رکھنا بہرحال ضروری ہے اور اس کے لیے میں دو واقعات آپ کے سامنے عرض کرنا چاہتا ہوں۔
آکسفورڈ میں ہمارے ایک فاضل دوست پروفیسر ڈاکٹر فرحان احمد نظامی ہیں جو برصغیر کے نامور محقق اور دانشور ڈاکٹر خلیق احمد نظامیؒ کے فرزند ہیں اور آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار انہیں یورپ کی کسی یونیورسٹی کی طرف سے دعوت ملی کہ وہ سود کے بارے میں اسلام کے موقف پر اس یونیورسٹی میں لیکچر دیں، انہوں نے دعوت قبول کر لی مگر اس سوچ میں پڑ گئے کہ وہ ان کے سامنے سود کے بارے میں اسلام کے موقف کے حوالے سے کیا مواد پیش کریں گے اور کیسے بات کریں گے؟ کیونکہ قرآن کریم، احادیث نبویہ، ائمہ کرام کے اقوال اور مسلم اسکالرز کی تشریحات کے حوالے دینے سے ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا جبکہ ہمارے ہاں اسلام کے موقف پر یہی حوالے مستند ہیں اور ہم جب بھی کسی مسئلے پر بات کرتے ہیں تو انہی حوالوں سے بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نظامی کہتے ہیں کہ میں نے کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ میں اس ترتیب سے بات نہیں کروں گا۔ چنانچہ میں نے سود کے اس پہلو پر کہ اس نے دنیا کی معیشت کو مجموعی طور پر کیا نقصانات دیے ہیں اور انسانی سوسائٹی میں دولت کی غلط تقسیم میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ جدید ریسرچ کو اسٹڈی کیا اور آج کے عالمی ماہرین معیشت کے حوالوں سے یہ بات اپنے مقالہ میں واضح کی کہ سود نے مجموعی طور پر انسانی سوسائٹی اور عالمی معیشت کو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچایا ہے۔ اسی کے نتیجے میں دنیا میں غربت اور امارت کا فرق بڑھتا جا رہا ہے اور عالمی وسائل پر چند اقوام و ممالک کی اجارہ داری مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔ اور یہ بات جس تک دنیا تحقیق اور ریسرچ کے بعد آج پہنچی ہے، قرآن کریم نے چودہ سو برس پہلے واضح کر دی تھی کہ سود انسانی سوسائٹی کو فائدہ کی بجائے نقصان سے ہمکنار کرتا ہے اور یہی اس کے بارے میں اسلام کا موقف ہے۔
ڈاکٹر نظامی کا کہنا ہے کہ اس اسلوب سے وہ نہ صرف مغرب کے دانشوروں کو اپنا موقف سمجھانے میں کامیاب ہوئے بلکہ خود انہیں بھی اطمینان ہوا کہ انہوں نے اسلام کا موقف صحیح انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
دوسرا واقعہ خود میرا ذاتی ہے کہ ایک لبرل بلکہ سوشلسٹ دانشور سے اسلامی حدود و تعزیرات کے بارے میں بات ہو رہی تھی کہ انہوں نے مجھ سے ہاتھ کاٹنے اور سنگسار کرنے کی افادیت کے بارے میں سوال کر دیا۔ اس کا ایک جواب روایتی تھا کہ میں اس کے سامنے قرآن کریم کی آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھتا، اور اسے ان کے انکار اور توہین کے نتائج سے ڈرا کر خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا۔ مگر اس کا اسے کوئی فائدہ نہ ہوتا اس لیے میں نے دوسرا طرز اختیار کیا۔ انہی دنوں ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نیویارک میں گزشتہ ایک سال کے دوران ڈکیتی کی نوے ہزار وارداتیں پولیس کے ریکارڈ پر ہیں۔ میں نے ان صاحب کو اس خبر کا حوالہ دیا اور سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ دنیا کے ایک بین الاقوامی شہر نیویارک میں ایک سال کے دوران ڈکیتی کی نوے ہزار وارداتیں ہوئی ہیں، جبکہ دوسرے بین الاقوامی شہر مکہ مکرمہ میں پورے سال کے دوران صرف نو وارداتیں بھی ڈکیتی کی نہیں دکھائی جا سکتیں؟ وہ صاحب خاموش رہے تو میں نے عرض کیا کہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور ڈاکو کا پاؤں بھی ساتھ ہی کٹتا ہے اور قانون محض نمائش کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں امن قائم ہو۔ اس لیے جو قانون سوسائٹی کو قتل و غارت اور چوری ڈکیتی سے نجات نہ دلا سکے اس کا آخر فائدہ ہی کیا ہے؟ طرز بیان میں یہ تبدیلی مسئلہ میں لچک کے لیے نہیں بلکہ مخاطب کو سمجھانے اور مطمئن کرنے کی غرض سے اختیار کی گئی جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی سامنے آیا اور وہ صاحب اس پہلو سے سوچنے پر تیار ہوگئے۔