دینی جدوجہد کی موجودہ صورتحال اور چند ضروری تقاضے

   
تاریخ : 
۱۸ مئی ۲۰۲۱ء

(۱۶ مئی ۲۰۲۱ء کو جامعہ مدنیۃ العلم کھرانہ موڑ سیالکوٹ میں علماء کرام کی ’’علاقائی عید ملن پارٹی‘‘ سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا قاری امتیاز احمد کا شکرگزار ہوں کہ عید کے موقع پر علاقہ کے علماء کرام اور اپنے جامعہ کے فضلاء کا اجتماع کرتے ہیں اور مجھے بھی یاد کر لیتے ہیں، دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے، جامعہ کی تعلیمی پیشرفت سے آگاہی اور علاقہ کے حالات معلوم ہو جاتے ہیں۔ میرے نزدیک اس قسم کے اجتماعات کی بہت ضرورت و افادیت ہے اور میں ہر علاقہ کے دوستوں سے عرض کرتا رہتا ہوں کہ علاقہ کے علماء کرام کے درمیان اس درجہ کا میل جول ضرور ہونا چاہیے کہ سال میں دو تین دفعہ وہ مل بیٹھیں، خواہ اور کوئی کام نہ بھی کریں صرف چائے یا کھانے یا کسی اور بہانے اکٹھے بیٹھے نظر آجائیں تو اس کی بھی خاصی افادیت ہوتی ہے، لوگوں کے ذہن میں رہتا ہے کہ علاقہ کے علماء آپس میں جوڑ رکھتے ہیں اور بوقت ضرورت جمع ہو سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے حالات کا پتہ چلتا رہتا ہے اور مسائل و مشکلات میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کی کوئی صورت بن جاتی ہے، بہرحال مجھے مولانا قاری امتیاز صاحب کا یہ ذوق اچھا لگا ہے اور میں اس پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ اس موقع پر آپ حضرات یقیناً مجھ سے حالات حاضرہ اور پیش آمدہ مسائل پر گفتگو کا تقاضہ رکھتے ہوں گے جو آپ کا حق ہے مگر دو تین اہم ترین موضوعات پر ہی مختصرًا کچھ عرض کر سکوں گا۔

پہلی بات یہ ہے کہ رمضان المبارک کرونا کے ماحول میں تو گزرا ہی ہے مگر آخری دنوں میں مسجد اقصٰی اور مظلوم فلسطینیوں کی صورتحال نے سب کو مضطرب اور بے چین کر دیا ہے اور دنیا کا ہر مسلمان اس پر دل گرفتہ ہے۔ بیت المقدس ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے بھی برکت و رحمت کے حوالہ سے کیا ہے اور بیت اللہ شریف اور مسجد نبویؐ کے بعد ہمارے لیے سب سے مقدس اور محترم جگہ ہے، جس طرح ہم حرمین شریفین کی توہین برداشت نہیں کر پاتے اسی طرح مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی بے حرمتی بھی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ اسرائیل کی وحشیانہ کاروائیاں کرب و اضطراب میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہیں، جبکہ عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے پروائی اور عدم توجہ جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ آج اس سلسلہ میں ترکی کے صدر جناب طیب اردوان نے جو جرأتمندانہ بیان دیا ہے اس سے دل کو کچھ حوصلہ ہوا ہے اور ڈھارس بندھی ہے۔ ترک صدر کا بیت المقدس کے حوالہ سے گزشتہ روز کا اعلان پوری ملت اسلامیہ کے دل کی آواز ہے اور مسلم امہ اپنے حکمرانوں سے اسی لہجہ میں بات سننا چاہتی ہے۔ میری تمام مسلم حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ طیب اردوان کے موقف کی حمایت کریں بلکہ اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی سربراہی اجلاس بلا کر مسجد اقصیٰ کی حرمت کے تحفظ، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام، اور فلسطین کی آزادی کے لیے دوٹوک لائحہ عمل کا اعلان کریں۔

دوسرا مسئلہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا ہے جو ہمارے ایمان و عقیدہ کا مسئلہ ہے اور امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے جس پر مسلم حکمرانوں کو مضبوط موقف اختیار کرنا ہو گا۔ ہمارا سادہ سا مطالبہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی بے حرمتی کو بین الاقوامی سطح پر قابل سزا جرم تسلیم کیا جائے اور فرانس میں سرکاری سطح پر شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر باضابطہ سرکاری احتجاج کیا جائے۔ یہ ایک جائز مطالبہ ہے کہ فرانس کے سفیر کو احتجاج کے طور پر واپس بھیجا جائے کیونکہ غیر ملکی سفیروں کو واپس بھیجنا اور اپنے سفیروں کو دوسرے ملکوں سے واپس بلانا احتجاج کا معروف سفارتی طریقہ ہے اور دنیا بھر میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے مرعوبیت کے باعث اسے خواہ مخواہ گورکھ دھندہ بنا دیا ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان کے اس اعلان کا ہم نے خیرمقدم کیا ہے کہ اس مسئلہ پر یورپی یونین سے بات کی جائے گی۔ یہ بات درست ہے مگر بات کون کرے گا؟ ہمارے سفارتی کارندوں کو نہ اس مسئلہ کی اہمیت کا علم ہے اور نہ ہی امت مسلمہ کے جذبات کا صحیح طور پر احساس ہے، اس لیے ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ پر مغرب سے بات چیت کے لیے محض سفارتی عملہ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، ماضی کا تجربہ ہمارے سامنے ہے کہ جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن میں جب ۱۹۸۵ء کے دوران قادیانیوں کی طرف سے درخواست پیش کی گئی تو پاکستان کی طرف سے اس کے جواب میں جنیوا میں اس وقت کے پاکستانی سفیر منصور احمد پیش ہوئے جو خود قادیانی تھے، اس لیے ہیومن رائٹس کمیشن نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دے دیا جو اب تک ہمارے خلاف عالمی اداروں میں استعمال ہو رہا ہے۔ جبکہ جنوبی افریقہ کی سپریم کورٹ میں قادیانیوں ہی کے مسئلہ پر کیس کا سامنا ہوا تو حکومت پاکستان کی طرف سے اکابر علماء کرام اور قانون دانوں کا وفد بھیجا گیا جنہوں نے مسئلہ کی صحیح پوزیشن پیش کی اور وہ کیس مسلمانوں نے جیت لیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ عالمی اداروں میں ہمارے دینی، تہذیبی اور نظریاتی معاملات میں وہ لوگ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں جو نہ تو مسئلہ کی صحیح نوعیت سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے دستوری اور نظریاتی تقاضوں کا ادراک رکھتے ہیں۔

اس لیے ہماری گزارش ہے کہ بین الاقوامی اداروں میں عقیدہ و ثقافت بالخصوص ختم نبوت و ناموس رسالت کے مسائل پر پاکستان کی نمائندگی کے لیے ان ماہرین کو بھیجا جائے جو کم از کم دستور پاکستان کے اسلامی تقاضوں سے کماحقہ آگاہ ہیں اور ان کے ساتھ کمٹمنٹ بھی رکھتے ہیں۔

تیسرا اہم مسئلہ اوقاف کے نئے قوانین کا ہے جن کے ذریعے ملک کی ہر مسجد اور مدرسہ کو IMF اور FATF کی نگرانی میں دے دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال ہمارے لیے کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے اور ہم نے واضح کہہ دیا ہے کہ حکومت کو یہ قوانین واپس لینا ہوں گے کیونکہ ہم اپنے مذہبی معاملات میں کسی عالمی ادارہ کی مداخلت قبول نہیں کر سکتے، یہ مداخلت فی الدین اور ہمارے مسلمہ مذہبی اور شہری حقوق سے متصادم ہے۔ اس سلسلہ میں ملک بھر کے علماء کرام سے میری گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی خودمختاری، مسجد و مدرسہ کی آزادی، اور دینی ماحول کا تسلسل باقی رکھنے کے لیے سنجیدہ ہو جائیں۔ انہیں بہرصورت تحریک پاکستان اور تحریک ختم نبوت طرز کی عوامی جدوجہد کرنا ہو گی اور صرف علماء کرام اور دینی حلقے نہیں بلکہ وکلاء، تاجر برادری، صحافیوں اور دیگر طبقات کو بھی ہر سطح پر اس میں شریک کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر پاکستان کے داخلی معاملات بالخصوص مذہبی امور میں بیرونی مداخلت کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ میں اس موقع پر یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم یہ جدوجہد ضرور منظم کریں گے مگر تشدد اور قانون شکنی کا راستہ اختیار نہیں کریں گے البتہ دستور و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پر امن جدوجہد کا جو راستہ بھی ملا اس سے گریز نہیں کریں گے اور اپنے دین و عقیدہ کے تحفظ اور ملک کے داخلی معاملات اور مذہبی امور میں غیر ملکی مداخلت کی روک تھام کے لیے ان شاء اللہ تعالیٰ کسی قربانی سے گریز نہیں کریں گے۔

اس کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے خیال میں اوقاف قوانین کے سنگین مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے لیے دینی مدارس کے نئے وفاقوں کی بات چھیڑی گئی ہے، اس لیے یہ کہنا ضروری ہو گیا ہے کہ دینی مدارس کے مسلمہ وفاقوں کا نظام سبوتاژ کرنے کی ہر کوشش کا مقابلہ کیا جائے گا۔ مختلف تعلیمی بورڈز کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر یہ کام دینی مدارس کے مسلمہ وفاقوں کے ساتھ مشاورت اور اعتماد کے ماحول میں ہو گا تو قابل قبول ہو گا، ورنہ مسلمہ وفاقوں کو بکھیرنے اور فرقہ وارانہ در فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیاد پر نئے نئے وفاق کسی صورت حال میں قبول نہیں کیے جائیں گے۔ میں یہ بات دوٹوک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو نیا وفاق بھی پہلے سے موجود مسلمہ وفاقوں کو سبوتاژ کرنے کا ایجنڈا لے کر سامنے آیا تو اسے دینی حلقوں کا کسی صورت میں اعتماد حاصل نہیں ہو گا، اس لیے ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ساتھ طے شدہ معاملات کو آگے بڑھایا جائے اور ماضی میں ناکام ہونے والے تجربات بار بار دہرا کر قوم کے وسائل اور وقت ضائع نہ کیا جائے۔

بہرحال میں نے کچھ مسائل کا ذکر کیا ہے جس پر ملک بھر کے علماء کرام کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے اور اپنی صفوں میں اتحاد اور باہمی تعاون کی فضا قائم رکھتے ہوئے پاکستان کی اسلامی شناخت اور پاکستانی قوم کی مذہبی آزادی اور شہری حقوق کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter