تحریک ریشمی رومال میں گوجرانوالہ کا حصہ

   
۱۸ دسمبر ۲۰۱۱ء

کچھ عرصہ قبل لاہور میں شیخ الہند اکادمی کے نام سے ایک علمی و فکری فورم قائم ہوا تھا جس کا مقصد تحریک آزادیٔ ہند کے عظیم راہنما شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی خدمات، تعلیمات اور جدوجہد سے نئی نسل کو متعارف کروانا اور دور حاضر کے ملی و قومی مسائل میں شیخ الہندؒ کے افکار و تعلیمات سے راہنمائی کے پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ راقم الحروف بھی اس فورم کی مجلس مشاورت میں شامل ہے۔ شیخ الہند اکادمی نے ۱۴۳۳ھ کے سال کو حضرت شیخ الہندؒ کے سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے اور طے کیا ہے کہ اس سال ملک کے مختلف حصوں میں حضرت شیخ الہندؒ کے حوالہ سے سیمینار منعقد کیے جائیں گے۔ جن کا آغاز ۲۰ دسمبر منگل کو لاہور میں شیخ الہند سیمینار کے انعقاد کے ساتھ کیا جا رہا ہے جو صبح دس بجے منعقد ہوگا اور اس میں مولانا سلیم اللہ خان، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا فضل الرحمان سمیت بہت سے علمائے کرام اور اہل دانش حضرت شیخ الہندؒ کے افکار و تعلیمات اور حیات و خدمات کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کریں گے۔ راقم الحروف بھی اس سیمینار میں کسی ایک پہلو پر گفتگو کی سعادت حاصل کرے گا مگر اس کے ساتھ میں نے پروگرام بنایا ہے کہ اس کالم کے ذریعے سال کے دوران مختلف حوالوں سے وقتاً فوقتاً اس سلسلہ میں گزارشات پیش کرتا رہوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اس کا آغاز اپنے گھر سے کر رہا ہوں کہ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی عظیم تحریک جسے تحریک ریشمی رومال، تحریک شیخ الہندؒ، یا ریشمی خطوط سازش کیس کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں گوجرانوالہ کا کیا حصہ تھا؟ اس تحریک کے بارے میں برطانوی سی آئی ڈی کی رپورٹوں کو حضرت مولانا سید محمد میاںؒ نے ’’تحریک شیخ الہند‘‘ کے نام سے مرتب کر کے شائع کیا تھا جو اب بھی لائبریریوں اور مکتبوں میں دستیاب ہے۔ میں نے اس میں تحریک کے ذیلی مراکز میں گوجرانوالہ کے گاؤں ’’قاضی کوٹ‘‘ کا نام پڑھا تھا اور تب سے اس تلاش میں تھا کہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کروں مگر کہیں سے تفصیلات دستیاب نہیں ہو رہی تھیں۔ علاقہ کے بہت سے دوستوں سے معلوم کرنا چاہا مگر اس کے سوا کچھ پتہ نہ چلا کہ اس گاؤں کے کچھ لوگوں نے کسی زمانے میں تحریک آزادی میں کچھ کردار ادا کیا تھا مگر اس خاندان کے لوگ یہاں سے چلے گئے تھے اس لیے اس کے بعد کا کچھ علم نہیں ہے۔ چند روز قبل الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے رفیق محترم ڈاکٹر محمد اکرم ورک کے ہاتھ میں گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرانوالہ کے جریدے ’’مہک‘‘ کا ایک ضخیم نمبر دیکھا جو ۱۹۸۲ء میں گوجرانوالہ کی تاریخ کے بارے میں شائع ہوا تھا، ان سے یہ نمبر تھوڑی دیر کے لیے لے کر ورق گردانی شروع کی تو فہرست میں ’’کوٹ قاضی بم کیس‘‘ کے عنوان پر نظر رک گئی اور تحریک ریشمی رومال کے واقعات میں کوٹ قاضی کا ذکر ذہن میں تازہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ اس علاقے کے ایک مجاہدِ آزادی محمد حسین کے تذکرے میں ایک مضمون شمارہ میں شامل ہے۔ یہ دونوں مضمون پڑھ کر مجھے اس سوال کا جواب مل گیا جس کا میں کم و بیش گزشتہ ربع صدی سے متلاشی تھا۔ ان دونوں مضمونوں کی فوٹو کاپی میرے سامنے ہے اور ان کی مدد سے قارئین کو تحریک ریشمی رومال میں گوجرانوالہ کے کردار سے متعارف کرانے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔

تحریک شیخ الہند کے تذکروں میں وزیر آباد کے ایک بزرگ مولوی فضل الٰہی وزیرآبادی کا ذکر ملتا ہے جو اہل حدیث عالم دین تھے اور اس تحریک کی پاداش میں برطانوی حکومت نے بغاوت کے الزام میں جو مقدمہ قائم کیا تھا اس کے ملزموں میں ان کا نام موجود ہے، وہ تحریک ریشمی رومال کی ناکامی کے بعد بھی قبائلی مجاہدین کے ساتھ ایک عرصہ تک جہاد کی مختلف سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ گوجرانوالہ سے حافظ آباد کی طرف جاتے ہوئے چند میل کے فاصلے پر ’’کوٹ قاضی‘‘ کا اسٹاپ ہے جس سے تھوڑا دور کوٹ قاضی گاؤں واقع ہے۔ وہاں اب مین روڈ پر جامعہ نعمانیہ کے نام سے ایک مدرسہ ہے جس کے بانی و منتظم مولانا محمد ناصر جامعہ اسلامیہ فیصل آباد کے فاضل و تربیت یافتہ ہیں اور بڑے ذوق و محنت کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ کوٹ قاضی کا پہلا نام شہزاد پور بتایا جاتا ہے جسے قاضی خاندان کے وہاں آباد ہونے اور تحریک آزادی میں ان کے کردار کے باعث ’’قاضی کوٹ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ اس خاندان کے ایک بزرگ قاضی نظام الدین کا ہزارہ کے ایک بزرگ سید امیر حیدر شاہ آف خان پور ہزارہ سے تعلق ہوگیا جو تحریک آزادی کے سرگرم کارکنوں میں سے تھے۔ ان کے زیر اثر یہ آزادی کی جدوجہد سے متعلق ہوگئے اور اسی خاندان کے قاضی عبد الرؤف اور قاضی عبید اللہ نے بھی تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ان کی سرگرمیوں کا دور ۱۹۰۳ء سے ۱۹۲۰ء تک کا عرصہ بیان کیا جاتا ہے۔ ان کا رابطہ مولوی فضل الٰہی وزیرآبادی سے ہوا۔ قبائلی علاقے میں مجاہدین کے مرکز سے تحریک ریشمی رومال کے منصوبے کے مطابق استعمال کے لیے اسلحے کی بھاری مقدار پنجاب بھجوائی گئی جسے مولوی فضل الٰہی کی تجویز پر کوٹ قاضی میں زیر زمین دفنایا گیا تاکہ بوقت ضرور نکال لیا جائے۔ اس سارے عمل میں جو لوگ شریک تھے ان میں مولوی فضل الٰہی، قاضی عبید اللہ اور قاضی عبد الرؤف کے علاوہ مولوی محمد بشیر، مولوی محمد یوسف، محمد حسین عرف محمد عمر، سلمان عرف ایوب، غلام محمد عرف محمد اور احمد عرف خان بہادر کے نام بھی ان تذکروں میں موجود ہیں۔ ان میں سے احمد عرف خان بہادر کو کسی شبہے میں پولیس نے گرفتار کر لیا، تشدد کے ذریعے اس سے معلومات حاصل کر کے چھاپہ مارا، اسلحہ برآمد کر لیا اور تمام متعلقہ لوگوں کو گرفتار کرلیا۔ البتہ مولوی فضل الٰہی بروقت علم ہوجانے پر قبائلی علاقہ میں چلے گئے اور گرفتار نہ ہو سکے۔

یہ بغاوت کا کیس تھا جسے ابتدائی تفتیش کے بعد ۱۹۲۰ء میں خان غلام حسن خان مجسٹریٹ درجہ اول گوجرانوالہ کی عدالت میں باقاعدہ سماعت کے لیے پیش کیا گیا، استغاثہ کی طرف سے کیس میں بیان دیتے ہوئے انسپکٹر سی آئی ڈی میر افضل امام نے عدالت کو بتایا کہ یہ مقدمہ ایک بڑی اور وسیع سازش کا جزو ہے جس میں بہت سے اصحاب شامل ہیں مثلاً امیر امان اللہ خان (فرمانروائے افغانستان)، جنرل نادر خان (افغانستان)، مولوی عبد الرحیم عرف محمد بشیر، مولانا عبید اللہ سندھی، مولوی یعقوب، عبد الصمد عرف پیر محمد، ذوالقرنین عرف کرم الٰہی، مولانا احمد علی امیر جماعت مجاہدین، نعمت اللہ وغیرہ۔

ملزمان کی طرف سے شیخ دین محمد بطور وکیل پیش ہوئے جو بعد میں سندھ کے گورنر کے منصب پر فائز رہے۔ خان غلام حسن خان نے مقدمہ کی ابتدائی سماعت کے بعد ملزموں کو ۲۳ دسمبر ۱۹۲۰ء کو سیشن سپرد کر دیا اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رائے بہادر گنگا رام نے سماعت کے بعد ۳۱ اپریل ۱۹۲۱ء کو فیصلہ سنایا جس کے مطابق احمد عرف خان بہادر کو مختلف دفعات میں سات سات سال اور قاضی عبد الرؤف کو چار چار سال کی سزا الگ الگ دفعات میں سنائی۔ شیخ دین محمد مرحوم نے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا جس پر جسٹس مارٹینو نے اگست ۱۹۲۱ء میں فیصلہ سنایا جس کے تحت سزاؤں کو بحال رکھتے ہوئے ان سزاؤں کو ایک ساتھ شروع کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس کیس کے ملزمان میں محمد حسین نامی ایک مجاہد بھی شامل ہے جس کا تعلق کوٹ قاضی کے قریب گاؤں کوٹ بھوائی داس سے تھا، اس کی جدوجہد کا ایک مستقل تذکرہ ہے جو کسی مناسب موقع پر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter