انڈونیشیا: مسیحی اور قادیانی مشنریوں کی شکارگاہ

   
تاریخ : 
۸ مئی ۲۰۰۱ء

انڈونیشیا اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ چھوٹے بڑے ہزاروں جزائر پر مشتمل اس ملک میں چوبیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی بیان کی جاتی ہے، جس میں چھیاسی فیصد مسلمان ہیں۔ نصف صدی قبل جب انڈونیشیا ولندیزی استعمار کے تسلط سے آزاد ہوا تو اس کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب چھیانوے فیصد تھا، لیکن مسیحی مشنریوں کی مسلسل تگ و دو سے صورتحال میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ نصف صدی کے بعد مسلمانوں کا تناسب بیس فیصد کم ہو گیا ہے اور مسیحی آبادی میں مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ ان کے اثر و نفوذ میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ حتیٰ کہ بتایا جاتا ہے کہ صدر عبد الرحمٰن واحد کی چوبیس رکنی کابینہ میں اس وقت آٹھ وزیر مسیحی ہیں۔ اور مشرقی تیمور میں چونکہ مسیحی آبادی کا تناسب زیادہ ہے اس لیے اقوام متحدہ اور مغربی ممالک نے خصوصی دلچسپی لے کر اسے آزادی دلوانے کا اہتمام کیا ہے اور مشرق بعید میں وہ ایک نئی مسیحی ریاست کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔

انڈونیشیا کم و بیش تین سو سال تک ہالینڈ کے ولندیزی حکمرانوں کی غلامی میں رہا ہے اور اسے ۱۹۴۹ء میں آزادی نصیب ہوئی ہے۔ ولندیزی استعمار کے تسلط کے بعد اس خطہ کے دیندار مسلمانوں نے بھی آزادی کی جنگ لڑی، مسلسل برسرپیکار رہے، جس کے نتیجے میں آزادی کی تحریک منظم ہوئی اور ڈاکٹر عبدالرحیم احمد سوکارنو کی قیادت میں یہ عسکری اور سیاسی جدوجہد بالآخرکامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

انڈونیشیا کے صوبہ آچے کے لوگ اس وقت نفاذِ شریعت کی جدوجہد میں پیش پیش ہیں۔ آچے کے بارے میں مؤرخین بتاتے ہیں کہ ۱۴۹۶ء میں یہاں مسلمان ریاست قائم ہوئی تھی جس کے بانی عنایت علی شاہ مرحوم تھے۔ جبکہ انیسویں صدی کے آغاز میں ولندیزیوں نے اس پر قبضہ کر کے اسے اپنی نو آبادی بنا لیا۔ جس کے خلاف اس وقت کے ایک بڑے عالمِ دین امام بونجلؒ نے جہاد کا اعلان کیا، مجاہدین کی فوج منظم کی، مزاحمت کا آغاز کر دیا اور منگ کباؤ کے علاقہ میں ولندیزی اڈوں پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کرلی۔ یہ جنگ ۱۸۲۳ء سے ۱۸۳۷ء تک جاری رہی، مگر ۱۸۳۷ء میں امام بونجلؒ کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ ۱۸۶۴ء میں قید خانہ میں ہی وفات پا گئے۔

ان کے بعد آچے کے شاہی خاندان کے ایک فرد تیکو عمرؒ نے مجاہدین کو دوبارہ منظم کیا اور جہادِ آزادی کا نئے سرے سے آغاز کر دیا۔ اس دوران منگ کباؤ کے آخری راجہ سی سنگا منگا نے بھی اسلام قبول کر کے جہاد میں شمولیت اختیار کر لی۔ تیکو عمر شہیدؒ نے ۱۸۹۹ء میں اور نومسلم سنگا منگا نے ۱۹۰۷ء میں شہادت پائی۔ اور اس کے بعد تیکو عمر شہیدؒ کی بیوہ اور تیکو محمد داؤد نے جہادِ آزادی کی قیادت سنبھالی، مگر انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ۱۸۲۳ء میں شروع ہونے والا مسلح جہادِ آزادی ۱۹۰۷ء میں دم توڑ گیا۔ البتہ اس کی کوکھ سے اس عظیم سیاسی جدوجہد نے جنم لیا جو ۱۹۴۹ء میں انڈونیشیا کی مکمل آزادی پر منتج ہوئی۔

آزادی کے بعد انڈونیشیا میں مسیحی مشنریوں کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ قادیانی گروہ کی سرگرمیاں بھی شروع ہو گئیں اور انہوں نے عام مسلمانوں کی بے خبری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اچھے خاصے مراکز قائم کرلیے۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے انڈونیشیا کا دورہ کیا تو انہیں سرکاری پروٹوکول فراہم کیا گیا، اور قادیانی سربراہ نے اپنے اس کامیاب دورے کے اختتام پر اعلان کیا کہ رواں صدی کے اختتام پر انڈونیشیا دنیا کی سب سے بڑی قادیانی ریاست ہوگی۔ اس کے ردعمل کے طور پر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے رہنماؤں مولانا عبد الحفیظ مکی، علامہ ڈاکٹر خالد محمود، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا طلحہ مکی اور مولانا محمد الیاس چنیوٹی نے گزشتہ ماہ انڈونیشیا کا دس روزہ دورہ کر کے وہاں کے حالات کا جائزہ لیا۔ اس دورہ کا اہتمام رابطہ عالمِ اسلامی کی طرف سے کیا گیا تھا، اور اس کے نتیجہ میں انڈونیشیا میں انٹرنیشنل ختمِ نبوت موومنٹ قائم کر کے قادیانیوں کے خلاف تحفظِ ختمِ نبوت کی جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

مولانا منظور احمد چنیوٹی گزشتہ روز پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے گوجرانوالہ تشریف لائے اور انہوں نے انڈونیشیا کے اس دورہ کے حوالے سے بہت سی تفصیلات سے ارکان شوریٰ کو آگاہ کیا جن میں سے چند ایک کا تذکرہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دو سال قبل انہیں جدہ سے ایک خط ملا جو ایک پاکستانی مسلمان کا تھا، اس نے خط میں لکھا کہ اس نے انڈونیشیا کی ایک مسلمان خاتون سے شادی کی ہے، لیکن جب وہ شادی کے کچھ عرصہ بعد اپنی بیوی کے ساتھ انڈونیشیا گیا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ اس کے سسرالی گاؤں میں اکثریت قادیانیوں کی ہے، مسلمان بہت کم اور کمزور ہیں، گاؤں میں ایک ہی مسجد ہے جو قادیانیوں کی ہے اور مسلمان بھی انہی کے ساتھ نماز وغیرہ ادا کرتے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کو سمجھا بجھا کر قادیانیوں سے الگ کیا اور کوشش کر کے ان کے لیے ایک چھوٹی سی مسجد الگ بنوا دی، لیکن اگلے سال دوبارہ گیا تو قادیانی اس مسجد پر بھی قبضہ کر چکے تھے۔ اور وہاں جانے کے بعد اس کی بیوی کو بھی قادیانیوں نے اغوا کر لیا، جسے بڑی مشکل سے واپس لینے میں وہ کامیاب ہوا ہے۔

مولانا چنیوٹی نے کہا کہ اس خط کے بعد وہ سعودی عرب گئے اور رابطہ عالمِ اسلامی کے ذمہ دار حضرات سے اس مسئلہ پر گفتگو کی، جس کے نتیجے میں انہیں دیگر مذکورہ رفقاء کے ہمراہ پندرہ اپریل سے پچیس اپریل تک انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کا دورہ کرنے کا موقع ملا، اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے رہنماؤں نے انڈونیشیا کی ایک بڑی دینی تنظیم ’’المجلس الاعلیٰ‘‘ کے رہنماؤں کے ساتھ قادیانیوں کی سرگرمیوں کے تعاقب کے لیے مشترکہ پروگرام تشکیل دیا ہے۔ انہیں اس دورہ میں بتایا گیا کہ سابق صدر سوہارتو کے دور میں قادیانیوں کی سرگرمیوں کا نوٹس لیتے ہوئے قادیانی گروہ کو خلاف قانون قرار دینے کا فیصلہ ہو گیا تھا، لیکن انقلاب کی وجہ سے اس فیصلہ کا اعلان نہ ہو سکا۔ مجلسِ اعلیٰ کے رہنماؤں نے وفد کو بتایا کہ وہ مسیحی مشنریوں کی سرگرمیوں میں تشویشناک اضافے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، مگر قادیانیوں کی وسیع سرگرمیوں کی طرف ان کی توجہ نہیں تھی اور اب وہ اس کا نوٹس لیں گے۔

مولانا منظور احمد چنیوٹی نے بتایا کہ قادیانی گروہ کی فریب کاری کا عالم یہ ہے کہ مرزا طاہر احمد کے گزشتہ سال کے دورہ انڈونیشیا کی راہ ہموار کرنے میں وہاں کی ایک پرانی اور مؤثر مذہبی تنظیم ’’جمعیۃ محمدیہ‘‘ کے بعض افراد نے سرگرم کردار ادا کیا جو سرکاری حلقوں میں خاصی مؤثر ہے، حتیٰ کہ صدر عبد الرحمٰن واحد کے انتہائی قریبی حلقہ میں اس کے افراد شامل ہیں۔ لیکن جب جمعیۃ محمدیہ کے ذمہ دار حضرات سے اس سلسلہ میں وفد نے بات کی تو وہ سرے سے قادیانیوں کو کافر تسلیم کرنے کے لیے ہی ابتدا میں تیار نہیں تھے، بلکہ وہ انہیں کافر کی بجائے گمراہ کا درجہ دیتے تھے، جس پر وفد میں شامل ممتاز عالمِ دین ڈاکٹر علامہ خالد محمود کا جمعیۃ محمدیہ کے رہنماؤں کے ساتھ طویل مباحثہ ہوا، اور اس کے بعد جمعیۃ محمدیہ کے رہنماؤں نے قادیانیوں کو غیر مسلم تسلیم کرتے ہوئے ان کے خلاف تحفظِ عقیدۂ ختمِ نبوت کی جدوجہد میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter