رمضان المبارک اور قرآن کریم

   
۳۰ جون ۲۰۱۴ء (غالباً‌)

عالم اسلام میں رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان عبادات کے نئے ذوق و شوق کے ساتھ رمضان المبارک کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اور اسی میں لیلۃ القدر بھی ہے، اس رات کو ایک مہینے سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کا نزول اسی ماہ میں ہوا، جو اگرچہ عملاً جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلسل ۲۳ سال تک نازل ہوتا رہا مگر لوح محفوظ سے آسمانی دنیا تک منتقل کرنے کا حکم اس رات میں دیا گیا جس کی وجہ سے یہ رات خصوصی اعزاز سے نوازی گئی۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو نسل انسانی کی راہ نمائی کے لیے نازل ہوا اور قیامت تک اولاد آدمؑ کی کو ہدایت و نجات کی راہ دکھاتا رہے گا۔ قرآن کریم اور رمضان المبارک کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں جس کی وجہ سے اس مہینہ میں قرآن کریم سب سے زیادہ پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ شاید سارے سال میں قرآن کریم اتنی بار اور اس ذوق و شوق کے ساتھ نہیں پڑھا جاتا جتنا اس ماہ مبارک میں اس کی تلاوت ہوتی ہے۔ اگر دنیا بھر میں سروے کر کے رمضان المبارک میں تلاوت کیے جانے والے قرآن کریم کی مقدار اور تعداد کو شمار کیا جائے تو کسی بڑے سے بڑے منظم ادارے کے لیے بھی یہ کام بہت مشکل ثابت ہوگا۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز اور اعزاز ہے جس میں دنیا کے کسی مذہب، کسی زبان اور کسی موضوع کی کوئی کتاب اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ اور رمضان المبارک قرآن کریم کے اس اعجاز اور اعزاز کے اظہار کا سالانہ سیزن ہوتا ہے۔

گزشتہ روز نوشہرہ سانسی گوجرانوالہ میں حضرت مولانا مفتی محمد عیسی خان گورمانی کی مسجد میں نماز عصر کے بعد اس موضوع پر گفتگو کا موقع ملا تو ذہن کا رخ اس طرف مڑ گیا کہ یہ بھی تو قرآن کریم کے اعجاز کا ایک پہلو ہے کہ دنیا بھر کی لاکھوں مساجد میں تراویح کے دوران روزانہ قرآن کریم پڑھا جاتا ہے اور ہر رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے قاری و حافظ اللہ تعالیٰ کا یہ پاک کلام نماز کی حالت میں مسلمانوں کو سناتے ہیں۔ مگر کہیں بھی اس بات کا شبہ بلکہ اس کا امکان تک نہیں ہوتا کہ کہیں یہ حافظ صاحب دوسرے حضرات سے مختلف قرآن کریم نہ پڑھ رہے ہوں۔ مراکش کا حافظ جکارتہ میں قرآن کریم سنا رہا ہو، کوالالمپور کا حافظ نیروبی میں پڑھ رہا ہو، ماسکو کا حافظ کیپ ٹاؤن میں پڑھ رہا ہو، لندن کا حافظ برلن میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہو، یا ہانگ کانگ کا حافظ پیرس میں قرآن کریم سنانے میں مصروف ہو، کہیں بھی ایک لمحہ کے لیے بھی شبہ نہیں ہوتا کہ کہیں اس کا قرآن کریم دوسرے سے مختلف نہ ہو۔ پورے اعتماد کے ساتھ آنکھیں بند کر کے سنا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں قرآن کریم ایک ہی ہے۔ لہجے اور قراءت کا اختلاف تو مسلم ہے لیکن قرآن کریم کے متن، ترتیب اور جملوں میں کہیں کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ یہ حفاظ کرام دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔

کئی سال قبل ایک امریکی ادارے کے سروے میں دنیا میں حافظوں کی تعداد تیرہ ملین کے لگ بھگ بتائی گئی تھی۔ اب اگر اس سے ڈبل نہیں تو اس کے قریب ضرور ہوگی۔ اور دنیا کا کوئی علاقہ ان حفاظ کرام کے وجود سے خالی نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں ایک بات اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ دنیا کے کسی بھی علاقے میں کوئی ادارہ قرآن کریم کا نعوذ باللہ غلط نسخہ چھاپ دے، یا آیات، سورتوں اور جملوں میں رد و بدل کر دے تو اس نسخے کو چیک کرنے کے لیے مدینہ منورہ یا کسی اور شہر بھجوانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ اسی علاقے میں دو چار حافظ موجود ہوں گے جو پڑھ کر بتا دیں گے کہ اس میں یہ جملہ غلط ہے، یہ آیت درست نہیں ہے اور یہ ترتیب اصل قرآن کریم کے مطابق نہیں ہے۔ قرآن کریم کو اس طرح یاد کرنے، رٹنے رٹانے، سننے سنانے اور بار بار دہرانے کا یہ عمل قرآن کریم کی حفاظت کا ایسا فول پروف سسٹم ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے قرآن کریم میں کسی طرح کے رد و بدل کا سرے سے کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ اور خود قرآن کریم نے یہ بات چیلنج کے انداز میں بیان کی ہے کہ لا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ کہ باطل کو قرآن کریم میں در اندازی کا کہیں سے کوئی راستہ نہیں ملے گا۔

چنانچہ بہت دفعہ کوشش کی گئی مگر قرآن کریم جوں کا توں ایک ہی حالت میں دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔ یہ قرآن کریم کے حفظ کا اعجاز و کمال ہے، قرآن کریم کے کتابی نسخوں کا بھی ایک کمال دیکھ لیجئے کہ قرآن کریم کے جو اولین نسخے حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں لکھوائے گئے تھے ان میں سے دو تین اصلی نسخے استنبول، تاشقند اور لندن میں موجود ہیں۔ لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں حضرت مولانا سید نفیس الحسینی شاہؒ کے ہمراہ حاضری کے موقع پر وہاں کا نسخہ میں نے دیکھا ہے۔ میں وہ نسخہ ہاتھوں میں اٹھائے دل میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی دیکھیے کہ قرآن کریم کے اصل نسخے کی حفاظت کس جگہ اور کن لوگوں کے ہاتھوں کروا رہا ہے۔ اور صرف حفاظت نہیں بلکہ اس کے اوریجنل ہونے کی گارنٹی بھی انہی سے دلوا رہا ہے کہ جس جگہ یہ مبارک نسخہ رکھا ہوا ہے وہاں یہ تحریر موجود ہے کہ یہ قرآن کریم کا وہ اصل نسخہ ہے جو مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمانؓ کے دور میں لکھا گیا تھا اور ان مستند ذرائع سے ہم تک پہنچا ہے۔

یہ قرآن کریم کے اعجاز کا صرف ایک پہلو ہے۔ اسی لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ مشرکین عرب نے قرآن کریم کے مقابلے سے عاجز ہو کر اسے ’’جادو‘‘ قرار دیا تھا جس کی قرآن کریم نے تردید کی ہے کہ نہ میں جادو ہوں اور نہ ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جادوگر ہیں۔ اس لیے ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم جادو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ البتہ محاورہ کی زبان میں یہ کہنے کو ضرور جی چاہتا ہے کہ

’’قرآن کریم جادو نہیں ہے لیکن اس کا جادو آج بھی دنیا کے سر چڑھ کر بول رہا ہے‘‘۔

   
2016ء سے
Flag Counter