منبر و محراب کے محاذ کو فعال کرنے کی ضرورت

   
۳۰ مارچ ۲۰۰۸ء

حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام پاکستان نے نئے حکمران اتحاد میں شمولیت کا جو فیصلہ کیا ہے وہ یقیناً سوچ سمجھ کر کیا ہو گا اور اس کے کچھ دینی و ملی مقاصد ان کے سامنے ہوں گے، جن میں سے بعض کا ہم اس کالم میں تذکرہ کر کے مقاصد و اہداف کی حد تک ان سے مکمل اتفاق کر چکے ہیں۔ البتہ حکمت عملی کے حوالہ سے ہم نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس پر ہم اب بھی قائم ہیں کہ ان مقاصد کی پشت پر جب تک دینی حلقوں کا مشترکہ موقف اور عوامی تحریکی قوت نہیں ہو گی، صرف اسمبلیوں میں نمائندگی کی بنیاد پر ان اہداف کی طرف پیشرفت کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آتی۔ لیکن جب مولانا فضل الرحمٰن اس کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں اور جمعیت علماء اسلام کے سیکریٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری کے بقول مرکز میں ایک وزارت اور بلوچستان میں پانچ وزارتوں کے ساتھ ڈپٹی اسپیکر کے مناصب ان کے لیے طے ہو چکے ہیں تو ہم اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے رفقاء کو اس صف بندی کے ساتھ دینی و قومی مقاصد کی طرف عملی پیشرفت کے مواقع اور توفیق سے نوازیں اور کامیابیوں سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔

مگر ہم ملک میں دینی جدوجہد کے مجموعی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس صورت حال پر اطمینان کا اظہار کرنے کے لیے خود کو قائل نہیں پاتے۔ ہمارے خیال میں ملک میں نفاذِ اسلام، قومی خود مختاری کی بحالی، مغرب کی نظریاتی و ثقافتی یلغار کے مقابلہ اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ کے حوالہ سے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کی فکری، علمی، نظریاتی اور تحریکی جدوجہد کا جو تسلسل چلا آ رہا تھا، اس میں تعطل پیدا ہو گیا ہے اور حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ترجیحات سے بے نیاز ہو کر خالصتاً قرآن و سنت کی تعلیمات کی بنیاد پر حق بات کے اظہار اور اس کے فروغ کے لیے جدوجہد کا مورچہ اس وقت خالی ہے، جو ہماری مسلکی اور تحریکی تاریخ میں ایک ایسے باب کا عنوان ہی قرار پا سکتا ہے جسے ”المیہ“ کے علاوہ کوئی اور عنوان نہیں دیا جا سکتا۔

ہمارے خیال میں ہمارے اکابر نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ اپنی دینی جدوجہد اور تحریکی قوت کو اسمبلیوں میں نمائندگی دینے کے لیے کیا تھا، تاکہ جو آواز وہ قرآن و سنت کے حوالہ سے منبر و محراب سے بلند کرتے ہیں اور جس کے لیے ان کے پاس حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے عوامی حمایت کا ہتھیار موجود ہے، اسے ان اسمبلیوں میں بھی نمائندگی حاصل ہو جہاں قوم کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں اور جن ایوانوں کے پاس فیصلہ سازی کا اختیار ہے۔ ہم نے جب تک انتخابی سیاست میں اپنی شرکت کو اس توازن میں رکھا ہے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ میں مؤثر پیشرفت کی ہے اور ان ایوانوں میں ہمارے نمائندوں کی تعداد بہت کم ہونے کے باوجود بہت بڑے بڑے فیصلے ہوئے ہیں، لیکن جب سے ہم نے اقتدار میں شرکت کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے احتجاجی اور تحریکی قوت کو غیر ضروری سمجھ لیا ہے اور اس سے آہستہ آہستہ محروم ہوتے چلے گئے، وہیں ان اسمبلیوں میں ہماری موجودگی کا وزن بھی کم ہوتا گیا اور اب وہ اپنے اثرات و نتائج کے حوالہ سے بتدریج زیرو پوائنٹ کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

ہماری اصل قوت منبر و محراب اور عوامی حمایت کی تحریکی قوت رہی ہے۔ ہم نے اب تک دینی محاذ پر جو کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اسی قوت کے بل بوتے پر کی ہیں، البتہ اسمبلیوں میں ہماری نمائندگی نے اس قوت کو فیصلہ کرنے والے ایوانوں تک مؤثر بنایا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس بات پر واضح تحفظ رکھتے ہیں کہ منبر و محراب کی اجتماعیت اور عوامی حمایت کی تحریکی قوت کے بغیر مولانا فضل الرحمٰن آخر کس طرح ان عظیم ملی مقاصد کے حصول کو ممکن بنا سکیں گے، جنہیں وہ نئے حکمران اتحاد میں اپنی شمولیت کے اسباب اور شرائط کے طور پر بیان فرما رہے ہیں۔ چنانچہ منبر و محراب کی اجتماعیت اور عوامی حمایت کی تحریکی قوت کا مورچہ خالی ہو جانے پر ملک بھر میں بہت سے دوستوں کو پریشانی ہے اور خاص طور پر حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی جدوجہد کے ساتھ نظریاتی وابستگی رکھنے والے علماء کرام اور دینی کارکن اس پر مسلسل پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔

شیرانوالہ لاہور حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی تعلیمات اور جدوجہد کا نمائندہ رہا ہے اور حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمہما اللہ تعالٰی کے دور میں اسے ملک بھر کی دینی جدوجہد اور دینی سیاست کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ وہ مرکز ہے جہاں تحریک ختم نبوت کے لیے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کو ”امیرِ شریعت“ کا خطاب عطا کر کے ان کے ہاتھ پر سینکڑوں جید علماء کی بیعت کروائی تھی اور ”تحفظ ختم نبوت“ کا محاذ ان کے سپرد کیا تھا اور یہی وہ مرکز ہے جہاں حضرت مولانا احمد علیؒ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کی سرپرستی میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے جمعیت علماء اسلام پاکستان کی نیو اٹھائی تھی اور اس عظیم پلیٹ فارم پر دینی جدوجہد کو پروان چڑھایا تھا، مگر بدقسمتی سے حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کی وفات کے بعد بہت سے وجوہ و عوامل کے باعث شیرانوالہ کا یہ کردار پس منظر میں چلا گیا اور اس فورم سے ملک کی دینی جدوجہد کی قیادت اور ملکی رائے عامہ کی دینی حوالے سے راہنمائی کا مورچہ خلا کا شکار ہو گیا۔ اس لیے قدرتی طور پر اس پریشانی اور اضطراب کے حامل افراد (جس پریشانی کا ہم سطور بالا میں تذکرہ کر چکے ہیں) کے لیے شیرانوالہ کی طرف دوبارہ دیکھنا ان کی ایک فطری مجبوری بن گیا۔

چنانچہ بہت سے پرانے دوست جن میں مولانا ظفر احمد قاسم (وہاڑی)، مولانا معین الدین وٹو (منچن آباد)، مولانا عبد الرؤف ربانی (رحیم یار خان)، میاں محمد عارف ایڈووکیٹ (گوجرانوالہ)، ڈاکٹر محمد اعظم چیمہ (چیچہ وطنی)، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر (لاہور)، مولانا مفتی حبیب الرحمٰن درخواستی (خان پور)، مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی (لاہور) اور دیگر اہم دوست شامل ہیں، ایک سے زیادہ بار شیرانوالہ لاہور میں جمع ہوئے اور مختلف نشستوں میں اس صورت حال پر تبادلہ خیالات کیا۔ سب کا درد مشترک تھا، سب کی سوچ ایک تھی اور سب کی رائے بھی یکساں تھی کہ دینی جدوجہد کے حوالہ سے شیرانوالہ لاہور کے اس کردار کو بحال کیا جائے جو شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے دور میں تھا۔ اس کے لیے شیرانوالہ لاہور کے موجودہ مسند نشین حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری زید مجدہم کے سامنے متعدد تجاویز رکھی گئیں، گلوں شکووں کی فہرست بھی پیش کی گئی، شکایات و شبہات اور خدشات و اعتراضات کا مرحلہ بھی آیا اور تجاویز و آراء بھی رکھی گئیں اور طویل گفت و شنید کے بعد یہ طے پایا کہ دینی جدوجہد اور تحریک شیخ الہندؒ کے حوالہ سے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے دور والے شیرانوالہ کے کردار کو بحال کرنے کے لیے ازسرنو محنت کی جائے، ملک

بھر کے جماعتی اور نظریاتی ساتھیوں کا اعتماد بحال کیا جائے، اجتماعیت اور مشاورت کا ماحول پیدا کیا جائے، ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات کا ادراک و احساس پیدا کر کے ان کے بارے میں رائے عامہ کی بیداری کا کام منظم کیا جائے، نظریاتی اور فکری دوستوں کی محرومیوں اور شکوک و شبہات کا مداوا کیا جائے، دینی حلقوں کے درمیان رابطہ و مفاہمت کے فروغ کی جدوجہد کی جائے اور ایک منظم، مربوط اور باہوش دینی اجتماعیت کا اہتمام کر کے پاکستان کی قومی خود مختاری کی بحالی، شریعت اسلامیہ کے عملی نفاذ، مغربی ثقافت و فلسفہ کی ہمہ گیر یلغار کی روک تھام اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے مؤثر آواز بلند کی جائے۔ یہ طے پایا کہ یہ سارا کام انجمن خدام الدین ہی کے نام پر کیا جائے اور اسے سرِدست فکری، علمی اور تحریکی دائرہ تک محدود رکھتے ہوئے انتخابی سیاست میں فریق بننے سے گریز کیا جائے۔

اس مقصد کے لیے طے پایا کہ شیرانوالہ اور تحریک شیخ الہندؒ سے تعلق رکھنے والے پچیس تیس اصحابِ علم و دانش پر مشتمل شوریٰ تشکیل دی جائے، جس کی مشاورت و راہنمائی میں اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری نے اس موقع پر اس پروگرام سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مجلس شوریٰ کے فیصلوں کی پابندی کریں گے اور دینی جدوجہد کے حوالہ سے تمام فیصلے یہ شوریٰ کرے گی، جس پر وہ مکمل طور پر عملدرآمد کریں گے۔ اس پر شرکاءِ اجلاس نے بے حد خوشی اور گہرے اطمینان کا اظہار کیا اور یہ امید ذہنوں میں ابھرنے لگی کہ شاید شیرانوالہ کے پرانے کردار کی بحالی کی طرف عملی پیشرفت کا جلد آغاز ہو جائے اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین یا رب العالمین۔

اس مقصد کے لیے طے پایا کہ ۲۷ اپریل اتوار کو ظہر کے بعد شیرانوالہ لاہور میں ملک بھر کے ہم خیال علماء کرام اور دینی راہنماؤں کا کنونشن ہو گا، جس میں آئندہ پروگرام کی تفصیلات پیش کی جائیں گی اور ملک و قوم کے اہم مسائل پر متعدد راہنما خطاب کریں گے۔ اس کنونشن کی تیاری اور دیگر تفصیلات طے کرنے کے لیے ایک رابطہ کمیٹی مولانا میاں محمد اجمل قادری کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے، جس میں میاں محمد عارف ایڈووکیٹ، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر، جناب محمد اشرف ایڈووکیٹ، جناب ظہیر میر ایڈووکیٹ اور مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی کے علاوہ راقم الحروف بھی شامل ہے۔ ملک بھر کے احباب کو اس پیشرفت کی اطلاع دیتے ہوئے ہم ان سے گزارش کر رہے ہیں کہ وہ اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہیں، دوستوں کو تیار کریں اور اپنی تجاویز و آراء سے ہمیں آگاہ کرتے ہوئے اس پروگرام کی کامیابی کے لیے بارگاہِ ایزدی میں پرخلوص دعاؤں کا بھی اہتمام کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter