(رمضان المبارک کے سالانہ ’’ فہمِ قرآن و سنت کورس‘‘ کی ایک نشست)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے آج گفتگو کے لیے ’’خوبصورت کتاب‘‘ کا منفرد سا عنوان دیا ہے۔ قرآن مجید سے زیادہ خوبصورت کتاب کون سی ہو گی اور صاحبِ قرآن سے زیادہ خوبصورت شخصیت کونسی ہو گی؟ قرآن مجید سے زیادہ اس کا حسن کون بیان کرے گا اور قرآن مجید سے زیادہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن کون بیان کرے گا؟ اسی حوالے سے چند باتیں آج عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات یہ کہ قرآن مجید نے اپنا تعارف کیا کروایا ہے۔ دوسری بات کہ قرآن مجید نے اپنا ایجنڈا کیا بتایا ہے کہ میں کس لیے آیا ہوں۔ تیسری بات کہ قرآن مجید نے انسانی سماج پر اپنے ایجنڈے کے نتائج کیا بتائے ہیں کہ مجھے مانو گے تو کیا ہو گا۔ اور چوتھی بات کہ ہماری شخصی اور خاندانی زندگیوں کے بارے میں قرآن مجید ہمیں کیا ہدایات دے رہا ہے۔
(۱) قرآن مجید کے بارے میں جب پڑھے لکھے دوستوں میں بات ہوتی ہے تو میں ایک سوال اٹھایا کرتا ہوں کہ ہر کتاب کا کوئی موضوع ہوتا ہے، قرآن مجید کا موضوع کیا ہے؟ یہ سائنس کی کتاب ہے، تاریخ کی کتاب ہے، سوشیالوجی کی کتاب ہے، ٹیکنالوجی کی کتاب ہے، آخر اس کا کوئی موضوع تو ہے۔ قرآن مجید نے اپنا موضوع خود بیان کیا ہے لیکن میں اس سے پہلے نسلِ انسانی کے آغاز کی بات کرنا چاہوں گا۔
اس زمین پر سب سے پہلے دو انسان آئے تھے ’’اسکن انت و زوجک الجنۃ‘‘ (البقرۃ ۳۶) حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام پہلے جنت میں میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ ۔ یہاں ایک بات توجہ طلب ہے کہ آج ہمارا مغرب کے ساتھ جو فلسفے کا اور فکری جھگڑا ہے وہ بنیادی طور پر یہ ہے کہ مغرب کے نزدیک انسانی سوسائٹی کا بنیادی یونٹ فرد ہے، اس لیے وہ فرد کی آزادی اور حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک فیملی بنیادی یونٹ ہے کیونکہ نسلِ انسانی کا آغاز زمین پر فرد سے نہیں ہوا بلکہ خاندان سے ہوا ہے ۔ ہماری تعلیمات خاندان کے گرد گھومتی ہیں اور مغرب کی ساری تعلیمات فرد کے گرد گھومتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جب پہلا خاندان اتارا تھا ’’قلنا اھبطوا منھا جمیعا‘‘ (البقرۃ ۳۹) داداجی کو اور دادی جان کو کہا تھا کہ چلو زمین پر اتر جاؤ، تو تین باتیں فرمائی تھیں۔ ’’ولکم فی الارض مستقر ومتاع الیٰ حین‘‘ (الاعراف ۲۴) دنیا میں رہنے کی جگہ دوں گا اور زندگی کے اسباب دوں گا لیکن یہ محدود مدت تک کے لیے ہوں گے۔ ’’مستقر‘‘ ٹھکانا، ’’متاع‘‘ زندگی کے اسباب، ’’الیٰ حین‘‘ ایک خاص مدت تک۔ آج کی زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان ملے گا لیکن ہمیشہ نہیں۔ ایک انسان کی مدت کیا ہے؟ پچاس ساٹھ ستر اَسی سال۔ اور نسلِ انسانی کی مدت کتنی ہے، دس ہزار سال ہے، بیس ہزار سال ہے، اللہ ہی جانتا ہے، لیکن ہمیشہ نہیں ہے۔ اور فرمایا کہ ’’فیھا تحیون وفیھا تموتون ومنھا تخرجون‘‘ (الاعراف ۲۵) اسی زمین میں دفن کروں گا اور اسی سے تمہیں نکالوں گا۔ اور فرمایا کہ ’’فاما یاتینکم منی ھدًی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون ، والذین کفروا وکذبوا بایاتنا اولئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون‘‘ (البقرۃ ۳۸، ۳۹) ہدایات میری طرف سے آئیں گی، جو میری ہدایات پر چلا وہ اصل گھر واپس آئے گا، نہیں تو دوسرے گھر جائے گا۔ آدم علیہ السلام سے لے کر آخری انسان تک تمہاری دنیا کی زندگی کی کامیابی کا مدار اسی پر ہے۔ یہ باتیں اللہ تعالیٰ نے پہلے دن ہی واضح فرما دی تھیں۔
’’ھدًی‘‘ کا معنی کیا ہے؟ قرآن مجید نے اپنا تعارف یوں کروایا ہے کہ ’’ذالک الکتاب لا ریب فیہ ھدًی للمتقین‘‘ کہ میں ہدایات کا آخری ایڈیشن ہوں۔ خطاب کے اعتبار سے ’’ھدی للناس‘‘ اور فائدے کے اعتبار سے ’’ھدًی للمتقین‘‘۔ قرآن مجید کا خطاب تو سب انسانوں سے ہے ’’یا ایھا الناس‘‘ لیکن فائدہ ان کو ملے گا جو ایمان لائیں گے۔ اس کی سادہ سی مثال دیا کرتا ہوں کہ کسی علاقے کی بجلی منظور ہو گئی ہے اور ٹرانسفارمر لگ گیا ہے جو پورے علاقے کے لیے ہے، لیکن بلب اسی کا روشن ہو گا جس کا کنکشن ہو گا۔ قرآن مجید نے اپنا بنیادی تعارف یہ کروایا ہے کہ میں وہ ’’ھدًی‘‘ ہوں جس پر نسلِ انسانی کی کامیابی کا مدار ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں پر ہدایت آتی رہی ہے ’’وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمناً علیہ‘‘ (المائدہ ۴۸) قرآن مجید کہتا ہے کہ میں پہلی تعلیمات کی تصدیق کرنے آیا ہوں۔ آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جو تعلیمات اللہ کی طرف سے آئی ہیں میں ان کا صرف ’’مصدق‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’مھیمن‘‘ یعنی محافظ بھی ہوں۔ اور قرآن مجید نے اس حوالے سے دو کام کیے ہیں : ایک یہ کہ ان تعلیمات میں کون سی وحی تھی اور کون سی ملاوٹ تھی۔ دوسرا یہ کہ کون سی تعلیمات اُس دور کے لیے تھیں اور کون سی اگلے دور کے لیے ہیں۔ ان دو چھانٹیوں کے ساتھ قرآن مجید کہتا ہے کہ آسمانی تعلیمات کا حتمی اور آخری ایڈیشن میں ہوں۔
پہلی کتابوں توراۃ، زبور، انجیل کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے امتوں کے حوالے کر دی تھی ’’بما اسحتفظوا من کتاب اللہ‘‘ (المائدہ ۴۴) اللہ تعالیٰ نے فرمایا پڑھو، عمل کرو اور حفاظت بھی کرو۔ لیکن آخری کتاب اللہ تعالیٰ نے ہمارے حوالے نہیں کی، اس کی دو وجہیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ پہلے جن لوگوں کے حوالے کی تھی انہوں نے کتابوں کے ساتھ کیا کیا؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعلق فرمایا ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘ میں نے نازل کی ہے اور میں ہی حفاظت کروں گا۔ دوسری وجہ یہ کہ توراۃ میں لوگوں نے گڑبڑ کی تھی تو زبور نے آ کر اصلاح کر دی تھی کہ یہ ٹھیک ہے اور یہ غلط ہے۔ اور زبور میں گڑبڑ ہوئی تو انجیل نے آ کر بتا دی۔ اسی طرح انجیل میں لوگوں نے کچھ آگے پیچھے کیا تو قرآن نے بتا دیا۔ اب قرآن مجید میں کوئی خدانخواستہ گڑبڑ کرے گا تو کون بتائے گا؟ چنانچہ تکوینی طور پر بھی یہ ضروری تھا کہ قرآن مجید کی حفاظت اللہ رب العزت نے اپنی تحویل میں لے لی کہ اتاری بھی میں نے ہے اور حفاظت بھی میں کروں گا۔
ایک مغالطہ یہاں عرض کرتا ہوں کہ ہم قرآن مجید کی حفاظت کر رہے ہیں، نہیں، بلکہ قرآن مجید ہماری حفاظت کر رہا ہے۔ قرآن نے تو قیامت تک رہنا ہے۔ کیا حفاظت اس کی ہوتی ہے جس نے رہنا ہے؟ یا اس کی ہوتی ہے جو رہنے والے کے ساتھ جڑ جاتا ہے؟ اس لیے ہم قرآن مجید کی حفاظت نہیں کر رہے بلکہ قرآن مجید کے ساتھ جڑ کر اپنی حفاظت کر رہے ہیں، جس طرح کشتی اپنے مسافروں کی حفاظت کرتی ہے۔
(۲) قرآن مجید نے اپنے نزول کا مقصد اور ایجنڈا بڑی وضاحت سے بتایا ہے کہ ہم نے دنیا میں حکومت اور نظام و قانون کے لیے کیا کیا ہے۔ ’’انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدًی و نور‘‘ (المائدہ ۴۴) ہم نے توراۃ اتاری تھی جس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی تھا ’’یحکم بہا النبییون‘‘ انبیاء کرام اس کے مطابق لوگوں کے فیصلے کرتے تھے۔ توراۃ کا ایجنڈا سوسائٹی پر حکومت کرنا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو زبور دی اور کہا ’’یا داوود انا جعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھوی‘‘ (ص ۲۶) اس کے مطابق فیصلے کریں اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ پھر انجیل آئی ’’ولیحکم اھل الانجیل بما انزل اللہ فیہ‘‘ (المائدہ ۴۷) کہ جن پر یہ نازل ہوئی ہے وہ دنیا کے اپنے معاملات اس کے مطابق چلائیں۔ اور آخری مرحلے میں ’’انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ ولا تکن للخائنین خصیما‘‘ (النساء ۱۰۶) آپ پر کتاب اتاری ہے اس کے مطابق لوگوں میں حکومت اور فیصلے کریں کہ یہ حکم کی کتاب ہے۔
توراۃ بھی حکم کی کتاب تھی، زبور بھی حکم کی کتاب تھی، انجیل بھی حکم کی کتاب تھی، اور ان کا فائنل ایڈیشن قرآن مجید بھی حکم کی کتاب ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بات یہ فرمائی ’’افحکم الجاھلیۃ یبغون‘‘ کہ توراۃ، زبور، انجیل اور قرآن تو ہدایت کے راستے ہیں، ان کو چھوڑ کر کیا یہ جاہلیت کا حکم تلاش کرتے ہیں ؟ پھر فرمایا ’’ومن احسن من اللہ حکم لقوم یوقنون‘‘ (المائدہ ۵۰) یقین اور ایمان ہو تو اللہ سے زیادہ اچھا حکم کس کا ہو سکتا ہے۔
(۳) تیسری بات کہ سماج پر آسمانی ہدایات پر عمل کے ثمرات کیا ہیں؟ کوئی ایجنڈا بھی نتائج سے خالی نہیں ہوتا۔ پہلی کتابوں کے بارے میں فرمایا ہے ’’ولو ان اھل القرٰی اٰمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکاۃ من السماء والارض‘‘ (الاعراف ۹۶) اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کر لیتے تو میں زمین اور آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتا، عمل تو کرتے، پھر برکتیں دیکھتے۔ اور توراۃ کے بارے میں ’’ولو انھم اقاموا التوراۃ والانجیل وما انزل الیھم من ربھم لاکلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم‘‘ (المائدہ ۶۶) یہ اگر توراۃ کو قائم کرتے یعنی بطور نظام اپناتے تو اوپر سے بھی رزق ملتا اور اور پاؤں کے نیچے سے بھی۔
اس کی ایک جھلکی عرض کر دیتا ہوں کہ آسمانی تعلیمات و ہدایات پر عمل کے اثرات اور نتائج کیا ہوتے ہیں۔ بخاری شریف کی ایک روایت ہے، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں۔ یہ حاتم طائی کے بیٹے ہیں۔ حاتم طائی دنیا میں سخاوت کی علامت ہے، سخاوت کی بات آئے گی تو حاتم کا نام ضرور آئے گا۔ حضورؐ کی بعثت سے پہلے کوئی حق مذہب قبول کرنا چاہتا تو رائج الوقت عیسائیت تھا۔ حاتم طائی نے حضورؐ کا زمانہ نہیں پایا، آپؐ کی بعثت سے پہلے گزرا ہے اور عیسائی ہو گیا تھا اس لیے اہلِ حق میں سے تھا۔ لیکن بیٹا عدیؓ بھی صحابی ہے اور بیٹی سفانہؓ بھی صحابیہ ہے۔ یہ وہی سفانہؓ ہے جس کے بارے میں ہمارے خطباء بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ تشریف فرما تھے، ایک خاتون آئی، ننگے سر تھی، حضورؐ اٹھے، اپنی چادر اس کے سر پر دی، کسی نے کہا یا رسول اللہ! کافر کی بیٹی ہے، فرمایا بیٹی، بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی ہو۔ یہی سفانہؓ ہے۔ بعد میں مسلمان ہو گئی تھیں۔
عدیؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، مسجد نبوی میں محفل لگی ہوئی تھی، میں بھی بیٹھا تھا، ایک شخص آیا، سلام عرض کیا اور کہا یا رسول اللہ! میں فلاں علاقے سے آیا ہوں، قحط سالی ہے، بھوک ہے، بہت برا حال ہے، کھانے کو نہیں ملتا، پانی زمین میں دھنس گیا ہے، فصل کوئی نہیں ہے، اس نے اپنے علاقے کی صورتحال بیان کی اور بیٹھ گیا۔ حضورؐ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک اور آدمی آیا، سلام عرض کیا اور کہا، یا رسول اللہ! فلاں علاقے سے آیا ہوں، ہمارے علاقے میں بد اَمنی بہت ہے، ڈاکے، فساد، زنا، اغوا، بہت کچھ ہے، جان محفوظ نہیں ہے، مال محفوظ نہیں ہے، عزت محفوظ نہیں ہے، یہ کہہ کر وہ بھی بیٹھ گیا۔ درمیان میں عرض کر دوں کہ نسلِ انسانی پر مجموعی طور پر نظر ڈالیں تو آج کی دنیا کے ہمارے مسائل کیا ہیں؟
عدیؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے انہیں تو کچھ نہیں کہا، مجھے خطاب کر کے کہا، عدیؓ! حیرہ دیکھا ہے۔ یہ ایک شہر تھا جو اب کوفہ کے قریب کوئی محلہ ہو گا، اور ایک حکومت کا پایۂ تخت بھی رہا ہے۔ عدیؓ نے جواب دیا، یا رسول اللہ! دیکھا تو نہیں سنا ہے، بڑا بارونق شہر ہے، بڑی آبادی ہے، منڈیاں ہیں، بازار ہیں۔ فرمایا، عدیؓ! اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں کچھ اور عمر دی تو ایک منظر دیکھو گے کہ حیرہ سے ایک خاتون چلے گی، اونٹ پر سوار ہو گی، اس کے اونٹ کا کجاوہ سامان سے بھرا ہوا ہو گا، خود زیورات سے لدی ہوئی ہو گی، حیرہ سے چلے گی اور مکہ آئے گی، اللہ کے گھر کا طواف کرے گی، پھر واپس جائے گی، آتے جاتے اس کو پورے راستے میں اللہ کی ذات کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہو گا۔
عدیؓ کہتے ہیں میں حیران ہوا کہ یا اللہ! اکیلی عورت ہو گی جس کے پاس سامان اور زیور بھی ہو گا، حیرہ سے مکے جائے گی اور مکہ سے حیرہ واپس جائے گی، راستے میں کوئی اسے کچھ نہیں کہے گا؟ عدیؓ کہتے ہیں کہ میں نے بات کی نہیں لیکن ایک سوال ذہن میں آیا کہ ہم بنو طَے والے بھی راستے میں ہیں اور اپنی قوم کے غنڈوں کو میں جانتا ہوں، تو جب وہ عورت ہمارے قبیلے کے پاس سے گزر رہی ہو گی تو میری قوم کے بدمعاش کہاں سوئے ہوئے ہوں گے؟
حضورؐ نے دوسری بات فرمائی، عدیؓ! اللہ رب العزت نے اگر تمہیں لمبی زندگی دی تو ایک منظر اور دیکھو گے کہ کسریٰ کو شکست ہو گی، اس کے خزانے مدینہ لائے جائیں گے اور یہاں تقسیم ہوں گے۔ عدیؓ کہتے ہیں میں نے یہاں سوال کر دیا کہ وہ ہرمز کا بیٹا، ایران کا بادشاہ ؟ فرمایا، ہاں وہی۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ میں اس سوچ میں ہوں کہ حضورؐ نے تیسری بات فرما دی۔
فرمایا، عدیؓ! اگر تمہیں اللہ تعالیٰ نے اور لمبی عمر عطا فرمائی تو ایک منظر دیکھو گے کہ تم لوگ ہاتھوں میں چاندی سونا اٹھا کر بازاروں میں جاؤ گے کہ یہ میری زکوٰۃ ہے، میرے محلے اور خاندان میں کوئی زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے، کوئی مستحق میری آواز سن رہا ہو تو اسے وصول کرے اور مجھے فارغ کرے۔ تم بازاروں میں کھڑے ہو کر دہائی دو گے لیکن تمہیں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔
حضرت عدیؓ لمبی عمر والے تھے، معمرین میں سے تھے۔ ان کی عمر کی محتاط روایت حافظ ابن حجرؓ نے ایک سو اَسی سال لکھی ہے۔ اگر یہ روایت درست ہے تو جس وقت یہ باتیں ہو رہی تھیں، یہ ڈیڑھ سو سال کے ہوں گے۔
حضرت عدیؓ یہ روایت حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیان کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! دو باتیں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں، یہ کہاوت نہیں تھی، کوئی تمثیل نہیں تھی، حضورؐ کی پیشین گوئی تھی، میں نے ایک خاتون کو سفر کرتے دیکھا ہے، اسی کیفیت میں جیسے حضورؐ نے فرمایا تھا، حیرہؓ سے چلی، مکہ گئی، طواف کیا، واپس آئی، پورے راستے میں اس کو یہ ڈر نہیں تھا کہ کوئی مجھے قتل کر دے گا، کوئی عزت پر حملہ کرے گا، سامان لوٹ لے گا، کوئی سواری چھین لے گا، بڑے آرام سے گئی ہے اور بڑے آرام سے آئی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ کسریٰ کے خزانے فتح ہوتے ہوئے اور مدینہ آتے ہوئے میں نے دیکھے ہیں بلکہ اٹھا کر لانے والوں میں اور تقسیم کرنے والوں میں خود میں بھی شامل تھا۔
محدثین فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل ان دو آنے والوں کے سوالوں کا جواب دیا تھا۔ ایک نے کہا تھا، یا رسول اللہ! بد امنی بہت ہے، جان محفوظ نہیں ہے، مال محفوظ نہیں، عزت محفوظ نہیں۔ اور دوسرے نے کہا تھا یا رسول اللہ! بھوک بہت ہے، کھانے کو نہیں ملتا، پانی پینے کو نہیں ملتا، جانور پیاسے مر گئے، لوگ بھوکے مر گئے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ کر کے دیکھو تو اس درجے کا امن ہو گا کہ ایک خاتون حیرہ سے مکہ کا سفر کر کے واپس جائے گی اور راستے میں کسی شخص سے اسے کوئی ڈر نہیں ہو گا۔ اور اس درجے کی خوشحالی ہو گی کہ تم ہاتھوں میں سونا لے کر بازار میں دہائی دو گے لیکن زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔
عدیؓ کہتے ہیں کہ دو باتیں تو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اور تیسری کے انتظار میں ایسے ہوں جیسے رات کو آدمی سوتا ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ صبح تو ہی ہونی ہے چاہے میں اٹھوں نہ اٹھوں۔
یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ شامل کر لیتا ہوں۔ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے تو مدینہ منورہ میں مجاہد بھی واپس آ رہے تھے او رخزانے بھی۔ امیر المؤمنین حضرت عمرؓ موجود تھے، وفود آ رہے تھے، مبارکبادیں وصول ہو رہی تھیں، اور غنیمت کے اموال سنبھالے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ غنیمت کے مالوں میں کوئی چیز تلاش کر رہے تھے اور چہرے پر پریشانی تھی۔ ایک دن گزر گیا۔ اگلے دن پھر سامان وصول کر رہے ہیں اور ٹٹول کر دیکھ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ایک جملہ کہتے جا رہے ہیں کہ یہ نہیں ہو سکتا، یہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں میں نے پوچھا امیر المومنین! خیر تو ہے، کل سے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ پریشانی بڑھتی جا رہی ہے، آپ ہر سامان کھول کر دیکھ رہے ہیں، اور فرما رہے ہیں کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا، چھوڑو۔ تیسرے دن پھر وہی سلسلہ، جب آدھا دن گزر گیا تو ایک سپاہی آیا ، سلام عرض کی اور کہا کہ امیر المؤمنین میں فارس کی فوج کا مجاہد ہوں، راستے میں واپسی پر بیمار ہو گیا تھا، دو دن ایک گاؤں میں رہا ہوں، آج یہاں پہنچا ہوں، ایک امانت آپ کی میرے پاس ہے ، یہ کہہ کر اس نے ایک پوٹلی دی۔ پوٹلی کھولی تو کسریٰ کے کنگن تھے۔ حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، کہنے لگے، میں کسریٰ کے یہی کنگن تلاش کر رہا تھا اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خوشخبری دی تھی۔ پھر فرمایا عبد الرحمٰن! جس قوم کے سپاہی اتنے دیانتدار ہوں اس کو کون شکست دے سکتا ہے۔ عبد الرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں، میں نے کہا حضرت! جس قوم کا امیر اتنا دیانتدار ہو گا، اس کا سپاہی بھی دیانتدار ہو گا۔ یہ سپاہی کی دیانت تو ہے ہی، لیکن یہ برکت کس کی ہے؟
ہمیں آج امیر کی دیانت بھی چاہیے اور سپاہی کی دیانت بھی چاہیے، ان دونوں کی دیانت کو ترس رہے ہیں ہم۔ یہ میں نے بتایا ہے کہ قرآن مجید نے اپنے ایجنڈے کے نتائج کیا بتائے ہیں، اور یہ دنیا نے پہلے بھی دیکھے ہیں ان شاء اللہ پھر دیکھے گی، لیکن یہ اس وقت ہو گا جب قرآن مجید ’’لتحکم بین الناس بما اراک اللہ‘‘ کے منصب پر آئے گا، جب ہمارا نظام اس کے مطابق بنے گا تب سماج پر اس کے اثرات ہوں گے، آج بھی آزما کر دیکھ لیں۔
ایک بات اور ذہن میں آ گئی ہے۔ آج دنیا کے کسی خطے میں قرآن مجید اور سنت کا نظام نافذ نہیں ہونے دیا جا رہا اور ایک کشمکش جاری ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے حوالے سے بات کروں گا، اس نے کہا تھا کہ مسلمانوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے وقت ہمارے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ خلافت کا ٹائٹل کبھی استعمال نہیں کریں گے اور شریعہ کا قانون کبھی نافذ نہیں کریں گے، اس لیے ہم دنیا کے کسی کونے میں نہ خلافت کا لفظ استعمال ہونے دیں گے اور نہ شریعت کا قانون نافذ ہونے دیں گے۔ یہودی توراۃ کے احکام کو شریعت کہتے ہیں اور عیسائی بھی انجیل کے احکام کو شریعت کہتے ہیں۔
اس پر ایک یہودی دانشور کی بات نقل کروں گا جو ریکارڈ پر ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں ڈاکٹر نوحا فلڈمین، بڑے اسکالر ہیں۔ انہوں نے ایک مضمون لکھا ’’وائے شریعہ؟‘‘ کے عنوان سے یعنی شریعت کیوں؟ اس میں ایک نکتے پر بحث کی کہ سارا مغرب متحد ہے کہ کسی مسلمان ملک میں شریعت کا نظام نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ نوحا فلڈمین کہتے ہیں کہ اس لیے نہیں کہ شریعہ کے قانون میں کوئی کمزوری ہے، بلکہ مغرب کو یہ ڈر ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں شریعت کے قوانین کو نافذ ہو کر آزادی کے ساتھ کام کرنے کا دس پندرہ سال موقع مل گیا تو مغرب کے فلسفے کے لیے سامنے کھڑا رہنا مشکل ہو جائے گا۔ میں نے ایک کالم میں تفصیل سے اس بارے میں ذکر کیا۔
(۴) قرآن مجید نے اجتماعی ثمرات بھی بتائے ہیں اور شخصی اور خاندانی فوائد بھی ذکر کیے ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے حوالے سے بات کروں گا۔ فرمایا کہ جس مسلمان کے معمولات میں قرآن مجید کی تلاوت نہیں ہے ’’کالبیت الخرب‘‘ اس کا سینہ اجڑا ہوا گھر ہے۔ اور فرمایا کہ جس گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کا ماحول نہیں ہے وہ بھی اجڑا ہوا گھر ہے۔ جبکہ قرآن مجید کا ہم سے تقاضہ ہے ’’فاقرءوا ما تیسر منہ‘‘ (المزمل ۲۰) چاہے تھوڑا پڑھا کرو لیکن پڑھا کرو۔ اور حضورؐ نے فرمایا کہ ’’صلوا فی بیوتکم ولا تجعلوھا قبورا‘‘ گھروں میں نماز پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہیں بناؤ۔
آج ہمیں شکایت ہے کہ گھروں میں برکت نہیں رہی، جوڑ نہیں رہا، محبت نہیں رہی۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ گھر میں فرشتوں کا ماحول بنانے سے برکتیں اور رحمتیں آتی ہیں، شیطانوں کا ماحول بنانے سے نہیں۔ گھر کے صحن میں صفائی ہے، کیاری لگی ہوئی ہے اور پھول کھلے ہوئے ہیں تو کون آئے گا؟ تتلی آئے گی، بلبل آئے گی، کوئل آئے گی، جگنو آئے گا۔ گھر کی صفائی نہیں ہے، گند اور کوڑا پڑا ہوا ہے تو کون آئے گا؟ مچھر آئیں گے، مینڈک آئیں گے، کاکروچ آئیں گے۔ ہم نے اس کا ایک سادہ سا حل سوچا ہوا ہے کہ کسی نے کچھ کر دیا ہے۔ کسی نے کچھ نہیں کیا، گھر میں بلبل کا ماحول فراہم ہو گا تو بلبل آئے گی، مینڈک کا ماحول فراہم ہو گا تو مینڈک آئے گا۔ اپنی ذات میں اور گھر میں برکتوں کا ماحول آتا ہے نماز سے اور قرآن مجید سے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ذہن میں رکھ لیں کہ جس گھر میں نماز نہیں اور جس گھر میں قرآن مجید کی تلاوت نہیں ہے، وہ اجڑا ہوا گھر ہے اور قبرستان ہے۔ اور قرآن مجید نے کیا خوبصورت بات فرمائی ہے ’’یا ایھا الناس قد جاءتکم موعظۃ من ربکم وشفاء لما فی الصدور‘‘ (یونس ۵۷) یہ نصیحت بھی ہے اور سینوں کی بیماریوں کا علاج بھی ہے ’’بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا‘‘ (یونس ۵۸) اللہ کا فضل بھی ہے اور رحمت بھی ہے۔
اللہ کرے کہ ہمارا قرآن مجید کے ساتھ جوڑ پھر سے تازہ ہو جائے، ایک مسلمان فرد کی حیثیت سے بھی، مسلمان خاندان کی حیثیت سے بھی، اور مسلمان سماج کی حیثیت سے بھی۔ اس سے زیادہ خوبصورت کتاب کون سی ہو گی جو نسلِ انسانی کو ایسی عظیم نعمتیں عطا فرماتی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید کے ساتھ اپنا معاملہ صحیح رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس کے نتائج دنیا میں بھی عطا فرمائے اور آخرت میں بھی نصیب فرمائے۔ اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۔