اسلامی معیشت کی بنیادیں

   
۲ مئی ۲۰۱۶ء

اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۶ و ۲۷ اپریل ۲۰۱۶ء کو اسلام آباد میں اسلامی معیشت کے حوالہ سے دو روزہ سیمینار کا اہتمام کیا، جس کی مختلف نشستوں سے ملک کے ممتاز علماء کرام، اصحاب دانش اور ماہرین معیشت نے خطاب کیا اور ”اسلامی معیشت کی بنیادیں اور دور جدید کی مشکلات“ کے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی صدر نشین تھے اور انہوں نے بھی اس حوالہ سے اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار اور پروگرام پر روشنی ڈالی۔ گزشتہ ایک کالم میں راقم الحروف یہ عرض کر چکا ہے کہ مولانا شیرانی جس طرح کونسل کو مسلسل متحرک رکھے ہوئے ہیں، اس پر وہ اور ان کے رفقاء کی ٹیم بالخصوص ڈاکٹر حافظ اکرام الحق اور ڈاکٹر غلام دستگیر شاہین تحسین کے مستحق ہیں۔ ایک نشست میں مجھے بھی کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، جن کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

اسلامی معیشت کی بنیادوں کے بارے میں قرآن کریم کی سینکڑوں آیات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہزاروں ارشادات میں بہت کچھ فرمایا گیا ہے اور ہمارے فاضل مقررین اپنے اپنے ذوق کے مطابق ان کا ذکر و تشریح کر رہے ہیں۔ میں اس کے دو پہلوؤں کی طرف اشارہ کروں گا۔

اسلامی معیشت کا تصور سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کے ادوار میں بھی موجود رہا ہے، کیونکہ حلال و حرام کے ضابطے ہر شریعت کا حصہ رہے ہیں اور حلال و حرام ہی اسلامی معیشت کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام کا ان کی قوم کے ساتھ مکالمہ مذکور ہے، جس میں حضرت شعیبؑ کی طرف سے قوم کو توحید کے عقیدہ اور شریعت کی پابندی کی تلقین کے بعد قوم نے یہ جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تمہاری نمازیں تمہیں یہ کہنے پر آمادہ کرتی ہیں کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ”ان نفعل فی اموالنا ما نشاء“ ہم اپنے اموال میں اپنی مرضی کے ساتھ تصرف نہ کریں۔

میرے خیال میں حلال و حرام سے بے نیاز معیشت، جسے آج کے دور میں ”فری اکانومی“ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے، قومِ شعیبؑ کا یہ جملہ اسی خیال و فلسفہ کی نمائندگی کرتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت شعیبؑ نے مسترد کر دیا تھا اور قوم نے انہیں ان کی نمازوں کے حوالہ سے یہ طعنہ دیا تھا۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص قارون کے پاس دولت کے بے پناہ خزانوں کا ذکر کیا ہے اور اس کی رعونت و تکبر کا تذکرہ کر کے اسے اس قوم کی طرف سے کی جانے والی یہ نصیحت بھی بیان فرمائی ہے جو میری طالب علمانہ رائے میں مال و دولت کے مقاصد اور اسے صرف کرنے کے دائروں کی بہترین وضاحت کی حیثیت رکھتی ہے۔ قارون کی قوم اسے نصیحت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ”لا تفرح ان الله لا يحب الفرحين“ اتراؤ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ”وابتغ فی ما اتاک اللہ الدار الآخرة“ الله تعالیٰ نے تجھے جو دولت دی ہے اسے دار آخرت کی تیاری اور بہتری کا ذریعہ بناؤ۔ ”ولا تنس نصیبك من الدنیا“ اپنا دنیا کا حصہ بھی مت بھولو۔ ”احسن كما احسن الله الیک“ اللہ تعالیٰ نے جس طرح تم پر احسان کیا ہے تم بھی لوگوں پر احسان کرو۔ ”ولا تبغ الفساد فی الارض“ زمین پر فساد پھیلانے کی کوشش نہ کرو۔

گویا مال و دولت کے بارے میں پانچ اصول بیان کیے گئے ہیں:

  1. اسے تکبر اور نمود و نمائش کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔
  2. یہ دراصل آخرت کی تیاری کے لیے ہے۔
  3. اس میں دنیا کا حصہ بھی ہے، جسے بھولنا نہیں چاہیے۔
  4. اسے اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر خرچ کرنا چاہیے۔
  5. مال و دولت کو سوسائٹی میں فساد اور بگاڑ کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔

اگر مال و دولت کے بارے میں ان پانچ قرآنی اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو سوسائٹی کی پوری معیشت عدل و انصاف کے اصولوں پر استوار ہو سکتی ہے۔

مشکلات و تحفظات کے دائرہ میں فاضل مقررین نے بہت سے پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے، میں تکرار سے بچتے ہوئے ان دو تین باتوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو اس سلسلہ میں میرے ذہن میں کھٹکتی رہتی ہیں۔

  1. ایک یہ کہ ہم موجودہ عالمی معاشی نظام کی جکڑ بندیوں کے ماحول میں اسلامی معیشت کے قوانین و احکام کی عملداری کے لیے مختلف سطحوں پر جو محنت کر رہے ہیں اس کا اصل ہدف کیا ہے؟ اگر تو اس کا اصل ہدف موجودہ عالمی نظام کے ساتھ ایڈجسٹ ہونا ہے تو میرے خیال میں یہ ہدف درست نہیں ہے کہ ہماری منزل یہ ہو کہ ہم اسلامی احکام و قوانین کو مروجہ نظام کے مختلف خانوں میں فٹ کر کے مطمئن ہو جائیں کہ ہم نے اپنی جدوجہد میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ہماری اصل منزل ایڈجسٹمنٹ نہیں، بلکہ پورے نظام کی تبدیلی کی ہے۔

    اصل ہدف اور ٹارگٹ کو سامنے رکھتے ہوئے مروجہ عالمی معاشی نظام کی جکڑ بندیوں کے ماحول میں اپنا راستہ بنانے کی بات البتہ سمجھ میں آتی ہے اور اسے ایک طریق کار کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً بلاسود بینکاری اگر اسلامی معیشت کے اپنے نظام کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ایک ذریعہ بنتی ہے تو بات درست ہے، لیکن اگر بلاسود بینکاری کی مروجہ صورتیں اور موجودہ سسٹم ہی ہماری منزل قرار پا جاتا ہے تو اسے قبول کرنے میں بہرحال تردد قائم رہے گا۔ کیونکہ اس سے اسلامی معاشی نظام کا اپنا ڈھانچہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔

  2. دوسری بات یہ کہ بلاسود بینکاری کی بات تو برطانیہ، فرانس اور روس میں بھی ہو رہی ہے، جو اس حوالہ سے خوش آئند ہے کہ بلاسود بینکاری کو اب عالمی سطح پر قابل عمل تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ لیکن میں اپنی اس تشویش کا اظہار ضرور کروں گا کہ اگر بلاسود بینکاری کی بنیاد ایمان و عقیدہ اور مذہبی اخلاقیات پر نہیں ہو گی اور اسے محض نفع کمانے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا جائے گا تو بلاسود بینکاری اپنے اصل مقاصد کے حصول کی بجائے عالمی سطح پر لوٹ کھسوٹ کا ایک نیا ذریعہ بن جائے گی۔
  3. اور تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں سودی نظام سے نجات اور اسلام کے معاشی احکام و قوانین کی عملداری کے لیے ہم نے اگر صرف اپنی رولنگ کلاس پر ہی انحصار کرنا ہے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ سودی نظام کے خاتمہ کے لیے ہمارے ساتھ جو آنکھ مچولی عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے تینوں اداروں میں گزشتہ تین عشروں سے کھیلی جا رہی ہے وہ آئندہ بھی جاری رہے گی۔
  4. اگر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں سول سوسائٹی کو منظم کرنا ہو گا، رائے عامہ کو بیدار کرنا ہو گا ، اسٹریٹ پاور کو متحرک کرنا ہو گا اور ایک منظم عوامی تحریک کا اہتمام کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر ہم اپنی رولنگ کلاس کو قیامِ پاکستان کے نظریاتی مقاصد کی تکمیل، سودی نظام کے خاتمہ اور اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کے ٹریک پر نہیں لا سکیں گے۔

نوٹ: قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرا چھوٹا بیٹا حافظ عامر خان میرے سابقہ مضامین کو ریکارڈ میں محفوظ کرنے اور قارئین کو ان تک رسائی مہیا کرنے کے لیے zahidrashdi.org کے عنوان سے ویب سائٹ پر کام کر رہا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ گزشتہ دو تین عشروں کے دوران لکھے جانے والے سارے کالم اور مضامین اس میں مرتب اور محفوظ ہو جائیں۔ جبکہ میرا نواسہ حافظ خزیمہ خان سواتی یہی محنت فیس بک کے دائرہ میں جاری رکھے ہوئے ہے، جس کی معلومات مذکورہ ویب سائٹ کے ذیل میں درج ہے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کی اس محنت کو قبول فرمائیں اور جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter