نظام کی تبدیلی ایک ناگزیر قومی ضرورت

   
تاریخ : 
ستمبر ۲۰۱۴ء

تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے جو ان سطور کی اشاعت تک کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ چکا ہوگا۔ ان کے مطالبات نظام کے حوالہ سے ہیں:

  • قادری صاحب کا کہنا ہے کہ ملک کا موجودہ نظام عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے، اسے مکمل طور پر تبدیل کر کے انقلاب لایا جائے جو کہ موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں ہے، اس لیے موجودہ حکومت پوری کی پوری مستعفی ہو جائے۔
  • جبکہ عمران خان صاحب یہ کہتے ہیں کہ انتخابی نظام دھاندلیوں کے سدّباب میں ناکام رہا ہے اور گزشتہ الیکشن میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے اس لیے وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں اور الیکشن کے پورے نظام پر نظر ثانی کی جائے۔

ان مطالبات کے سیاسی پس منظر اور مقاصد سے قطع نظر ہم ان سطور میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں تک نظام کا تعلق ہے وہ ملک کا عمومی نظام ہو یا الیکشن کا نظام، اس پر اب دو رائے نہیں رہیں کہ اس نظام میں تبدیلیاں بہرحال ضروری ہو گئی ہیں، اس لیے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے طریقِ کار اور طرزِ عمل سے اتفاق ضروری نہیں ہے لیکن نظام کی تبدیلی کی ضرورت سے انکار کی بھی اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ کیونکہ پاکستان کا قیام ہی نظام کی تبدیلی کے لیے عمل میں آیا تھا اور تحریک پاکستان کے قائدین نے برطانوی استعمار سے آزادی اور الگ ملک کے قیام کے مقاصد میں جہاں ایک آزاد قوم اور آزاد ملک کی بات کی تھی وہاں نظریہ پاکستان کے عنوان سے نئے نظام کی تشکیل کو بھی اپنے اہداف میں شامل کیا تھا، اور اس کے لیے مسلمانوں کی الگ تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کے قانون و نظام کا صریح حوالہ دیا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے قیام پاکستان کو کم و بیش سات عشرے گزر جانے کے باوجود نظام کی تبدیلی کی بات ابھی تک جوں کی توں ہے اور وہی نوآبادیاتی نظام ہم پر مسلط ہے جو برطانوی استعمار نے اس خطہ کو اپنی نوآبادی کے طور پر زیر تسلط رکھنے کے لیے نافذ کیا تھا۔ عدالتی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر وہی نظام کارفرما ہے اور دستور میں اسلامی رفاہی ریاست اور قرآن و سنت کی حکمرانی کی ضمانت کے باوجود تبدیلی کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ اسی نظام کے تسلسل کی نحوست ہے کہ آزادی کے بعد دوسری بلکہ تیسری نسل کے سامنے آجانے کے باوجود ذہنی مرعوبیت اور فکری غلامی نے ہر سطح پر ہمارے قومی وجود کو جکڑ رکھا ہے اور ہم اپنے ملی اور قومی دائروں میں خود اپنے فیصلے کرنے اور کوئی راہ عمل طے کرنے کے حوصلہ سے محروم ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اگر قیام پاکستان کے بعد تحریک پاکستان کے قائدین کے اعلانات کی روشنی میں نظام کی تبدیلی کا آغاز ہو جاتا، یا کم از کم ۱۹۷۳ء کے دستور کے نفاذ کے بعد ہی دستور میں طے کیے گئے طریق کار کے مطابق نظام کی تبدیلی شروع ہوجاتی، تو آج کسی کو اسلام آباد میں ڈنڈا بردار دھرنے کا بہانہ نہ ملتا اور نہ ہی ہماری شمال مغربی سرحد پر کسی کو نظام کی تبدیلی کے لیے کلاشنکوف اٹھانے کی ہمت ہوتی۔ قوم کے سنجیدہ طبقے نظام کی تبدیلی کے لیے ہتھیار اٹھانے اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کے طرز عمل کو ملک و قوم کے مفاد کے خلاف قرار دے رہے ہیں اور ہم بھی اصولی طور پر ان کے ساتھ متفق ہیں۔ اسی طرح قوم کے سنجیدہ حلقوں نے نظام کی تبدیلی کے لیے عمران خان اور طاہر القادری کے طریق کار سے اتفاق نہیں کیا اور ہمارے نزدیک بھی یہ درست بات نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آئین، جمہوریت، ملکی استحکام اور قومی وحدت و سالمیت کا علم بلند کرنے والے سیاسی اور دینی حلقے بھی نظام کی تبدیلی کی طرف کوئی پیشرفت نہ کریں اور کسی دوسرے کو بھی اس کے لیے غلط یا صحیح طریقہ سے آواز اٹھانے کا موقع نہ دیں تو بات کیسے بنے گی ؟ ’’ایڈہاک ازم‘‘ اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ تو کوئی نظام نہیں ہے جس میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ سات عشروں سے پوری قوم کو جکڑ رکھا ہے اور جس کے تلخ ثمرات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ہمیں نہ ہتھیار اٹھانے والوں سے اتفاق ہے اور نہ ہی ڈنڈا بردار دھرنے ہمارے خیال میں درست ہیں لیکن اس ایڈہاک ازم اور اسٹیٹس کو کو بھی اسی طرح ہم غلط سمجھتے ہیں اور ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کی ہر خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرتے چلے جانے کو غلامی ہی کی ایک صورت تصور کرتے ہیں۔

ہم نظام کی تبدیلی کے لیے کسی نئے وژن کی بات نہیں کرتے کہ ہمارے حکمران طبقات کو اس پر ناک بھوں چڑھانے کی ضرورت محسوس ہو بلکہ اسی وژن کی بات کر رہے ہیں جو تحریک پاکستان کے راہنماؤں نے پیش کیا تھا اور جسے قرارداد مقاصد اور دستور پاکستان میں شامل کیا گیا ہے۔ اب اس کے مطابق نظام کو بہرحال تبدیل کرنا ہو گا ورنہ مقتدر حلقوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث نظام کی تبدیلی کا پرچم عمران خان اور طاہر القادری جیسے غیر سنجیدہ عناصر کے ہاتھوں سے واپس نہیں لیا جا سکے گا جس کے ہولناک نتائج سے کوئی باشعور شخص آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter