میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو صاحب کے درمیان طے پانے والا ’’میثاق جمہوریت‘‘ اس وقت نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر مسلسل اظہار خیال کیا جا رہا ہے، توقعات کا اظہار بھی ہو رہا ہے اور خدشات کا تذکرہ بھی جاری ہے۔
میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو دو دفعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ ہر بار ایسا ہوا ہے کہ ایک نے دوسرے کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں، جس کا بڑا حصہ فوج ہے، اپنے حریف کی اقتدار سے محرومی پر خوشی منائی ہے۔ ہر بار ایسا ہوا ہے کہ اپوزیشن نے یہ طے کر لیا ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دینا اور ایسے حالات ہر حال میں پیدا کرنے ہیں کہ فوج مداخلت پر آمادہ ہو اور براہ راست یا بالواسطہ دخل دے کر اسے اقتدار سے محروم کر دے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے چاروں ادوار حکومت میں یہی کھیل کھیلا گیا ہے اور دونوں محترم لیڈر دو دو بار وزیر اعظم بننے کے باوجود اپنی ٹرم پوری نہیں کر پائے۔ اس مکروہ کھیل کا نتیجہ آج نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ عالم اسلام بھگت رہا ہے اور ہمارے پاس اپنے زخم چاٹنے کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا۔
۱۹۴۷ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تھا تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسلام اور جمہوریت کو پاکستان کی بنیاد قرار دیا تھا اور اس عزم اور وعدے کے ساتھ قیام پاکستان کی جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچایا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہوگی جو اسلامی اصولوں کے دائرے میں کام کرے گی اور نئے دور میں دنیا کو اسلامی اصولوں کے تحت ایک جمہوری ریاست اور فلاحی معاشرے کا عملی نمونہ دکھائے گی، لیکن قیام پاکستان کے بعد سے اب تک اسلام اور جمہوریت دونوں کے ساتھ مسلسل گلی ڈنڈا کھیلا جا رہا ہے اور یہ دونوں سنہری اصول ہمارے مقتدر حلقوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش میں سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ مولوی لوگ جمہوریت پر صاد نہیں کریں گے اور مسٹر لوگوں کو مولوی کا پیش کردہ اسلام قبول نہیں ہوگا، اس لیے یہ نوزائیدہ ریاست پہلے مرحلے میں خدانخواستہ ناکامی کا شکار ہو سکتی ہے، لیکن بحمد اللہ ایسا نہیں ہوا۔ مولوی لوگوں نے قرآن و سنت کی پاسداری کی شرط پر جمہوریت کو حکومت کی بنیاد تسلیم کر لیا اور مسٹر لوگوں نے جمہوریت کی پاسداری کی شرط پر اسلام کی بالادستی پر صاد کر دیا۔ جس کی دستاویزی شہادت قرارداد مقاصد، تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علمائے کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات اور ۱۹۷۳ء کے دستور پر سب کے اتفاق کی صورت میں موجود ہے جن کے ذریعے یہ بات طے پا گئی کہ حکومت عوام کے منتخب نمائندے کریں گے لیکن وہ مملکت کی پالیسیوں کے تعین میں قرآن و سنت کے احکام کے پابند ہوں گے۔ اس طرح جس بڑی کشمکش کا خطرہ تھا وہ ہمیشہ کے لیے ٹل گئی، لیکن اس کی جگہ پاور پالیٹکس نے لے لی اور اقتدار کے سرچشمہ پر کنٹرول کی ہوس نے اسلام اور جمہوریت دونوں کو گزشتہ نصف صدی سے اس ملک میں سوالیہ نشان بنا رکھا ہے۔
ہم نے اسلام اور جمہوریت کے لیے اس سے قبل بھی بہت اعلانات کیے ہیں، بڑے وعدے کیے ہیں، قوم کو بڑے سبز باغ دکھائے ہیں، ہم نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی صورت میں قوم سے وعدہ کیا، ہر دستور میں اسلام اور جمہوریت کی پاسداری کا عہد کیا، ہر الیکشن کے موقع پر ہر سیاسی پارٹی نے اپنے اپنے انتخابی منشور میں ان دو سنہری اصولوں کو اپنا نصب العین قرار دیا، اور سب سے بڑھ کر ۱۹۷۳ء کے دستور میں ہم نے اسلام، جمہوریت، وفاقیت، فلاحی ریاست اور رفاہی پاکستان کے تقاضوں کو خوبصورت انداز میں سمویا۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں کون سی بات نہیں ہے اور اسلام، جمہوریت، صوبائی خودمختاری اور فلاحی ریاست کے تقاضوں میں ہم آہنگی اور توازن کا کون سا پہلو تشنہ ہے؟ لیکن اس دستور کا ہم نے اپنے ہاتھوں جو حشر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ دستور ہمیں سیدھے راستے پر چلانے کی بجائے اپنے وجود اور بقا کے حوالے سے ہمارے رحم و کرم پر ہے۔ ہم ملک کے اقتدار پر مکمل کنٹرول کرنے کے بعد اس دستور کو باقی رہنے دیتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے اس غریب کی رحم کی اپیل منظور کر لی ہے اور اسے مزید کچھ دیر زندہ رہنے کا حق دے دیا ہے، خواہ اسے کئی سال ’’کومے‘‘ میں ہی گزارنا پڑیں۔
ہمیں محترم میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے مندرجات سے اختلاف نہیں ہے، ہم ان کے جذبے کی قدر کرتے ہیں کہ بدیر سہی لیکن انہیں جمہوریت کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری کا خیال تو آیا، انہیں احساس تو ہوا کہ جمہوریت صرف اقتدار کے حصول کے لیے سیڑھی یا اس کے تحفظ کے لیے بیساکھی کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے کچھ اصول رکھتی ہے، اس کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، اس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، کچھ لوازمات ہوتے ہیں اور وہ آگے بڑھنے کے لیے سیاستدانوں سے ایک مخصوص ماحول اور کچھ قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ ہم دونوں لیڈروں کے اس ادراک اور احساس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اسے خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان اصولوں پر پہلے کبھی اختلاف رہا ہے؟ کیا ان دونوں پارٹیوں کے انتخابی منشوروں اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں یہ باتیں شامل نہیں ہیں؟ اگر یہ سب کچھ پہلے سے موجود ہے اور ان کے ساتھ کمٹمنٹ کا پہلے بھی کئی بار اظہار ہو چکا ہے تو انہیں ایک نئے میثاق کی شکل دینے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی؟ اصل بات اصولوں، میثاقوں اور الفاظ کی نہیں بلکہ طرز عمل کی ہے، سیاسی مزاج کی ہے اور مستقبل کے عزائم کی ہے۔ اگر ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہے تو یہ میثاقِ جمہوریت ۱۹۷۳ء کے دستور سے زیادہ مقدس دستاویز نہیں ہے۔
حالات کی ناہمواری انسان کو ایک رخ پر لے آتی ہے، وہ رخ کبھی مستقل نہیں ہوتا اور اصل صورتحال کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب حالات نارمل ہوتے ہیں اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ ناہموار حالات میں ایک رخ اختیار کرنے والوں کا اصل رخ کیا ہے؟ مزاج اور جبلت کبھی نہیں تبدیل ہوتے۔ اس پر ایک کہاوت کا حوالہ دینا شاید نامناسب نہ ہو کہ کسی بادشاہ کا اپنے وزیر کے ساتھ اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ فطرت تبدیل ہو سکتی ہے یا نہیں؟ بادشاہ کا موقف تھا کہ تربیت اور ماحول کے ساتھ فطرت تبدیل ہو جاتی ہے مگر وزیر اس سے متفق نہیں تھا اور وہ بضد تھا کہ فطرت کسی حالت میں نہیں بدلتی۔ بادشاہ نے وزیر کو قائل کرنے کے لیے چند بلیاں پالیں، انہیں اس طرح تربیت دلوائی کہ وہ بڑے ادب اور ترتیب کے ساتھ اگلے ہاتھوں میں جلتی ہوئی شمعیں اٹھائے دو پاؤں پر چلتی ہوئی دربار میں آتیں اور بادشاہ کے گرد گھیرا ڈال کر باادب کھڑی ہو جاتیں۔ وزیر کو یہ منظر دکھا کر بادشاہ نے وزیر سے دریافت کیا کہ کیا خیال ہے، فطرت تبدیل ہوتی ہے یا نہیں؟ وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت! اس کا جواب کل دوں گا۔ دوسرے روز وزیر چند چوہے آستین میں چھپا کر دربار میں لے آیا اور جونہی بلیاں اپنی ٹریننگ کے مطابق باادب چلتے ہوئے بادشاہ کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑی ہوئیں، وزیر نے چپکے سے چوہوں کو دربار میں کھلا چھوڑ دیا۔ بلیوں نے چوہوں کو دوڑتے دیکھا تو جلتی ہوئی شمعیں وہیں پھینکیں اور چوہوں کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ شمعیں قالینوں پر گرنے سے بہت سی جگہوں سے قالین جل گئے اور آگ کو پھیلنے سے بڑی مشکل سے روکا گیا۔ وزیر نے بادشاہ سے کہا کہ حضور! یہ بلیوں کی اصل فطرت ہے اور آپ نے دیکھ لیا ہے کہ فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
اس لیے اس میثاقِ جمہوریت کی اصلیت اس وقت سامنے آئے گی جب دونوں لیڈر ملک میں ہوں گے، اقتدار کا چوہا ان کے سامنے ہوگا اور دونوں کی یکساں دسترس میں ہوگا۔ تب پتہ چلے گا کہ میثاقِ جمہوریت کا کون سا جملہ ان میں سے کس کو یاد رہ گیا ہے اور کون سا لندن اور دوبئی کی فضاؤں میں تحلیل ہو چکا ہے۔ ویسے ہمارے خیال میں اتنے لمبے چوڑے میثاقِ جمہوریت کے تکلف کی ضرورت نہیں تھی، اگر دونوں لیڈر صرف اتنا اعلان کر دیتے کہ دونوں دستور کی پاسداری کریں گے، ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں گے، ایک دوسرے کا احترام کریں گے، ایک دوسرے کو جمہوری اصولوں کے مطابق آگے آنے کا موقع دیں گے اور اقتدار میں آنے کی صورت میں ٹرم پوری ہونے تک اس کے لیے مشکلات کھڑی نہیں کریں گے تو یہ چند جملے شاید بھاری بھر کم میثاق جمہوریت سے زیادہ وزنی ثابت ہوتے۔