سنی شیعہ کشیدگی ۔ ظفر حسین نقوی صاحب کے خیالات

   
۲۶ مئی ۱۹۹۹ء

جناب ظفر حسین نقوی نے عنوان بالا پر میری گزارشات کے حوالہ سے ایک بار پھر قلم اٹھایا ہے اور میری درخواست کے برعکس پھر انہی مسائل کو زیربحث لانے کی کوشش کی ہے جن سے میں صرف اس لیے بچنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ان مسائل پر ازسرنو بحث و مباحثہ کا دروازہ کھلنے سے کشیدگی بڑھے گی اور اس کا نقصان ہوگا۔ قارئین گواہ ہیں کہ میں نے اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مذہبی اختلافات اور پاکستان میں سنی شیعہ کشیدگی کا باعث بننے والے عوامل کو الگ الگ موضوعات قرار دیتے ہوئے ابتدا میں گزارش کی تھی کہ:

  1. جہاں تک مذہبی اختلافات کا تعلق ہے وہ اصولی اور بنیادی ہیں ان پر مفاہمت ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان پر بحث و مباحثہ کا کوئی فائدہ ہے۔
  2. البتہ پاکستان میں سنی شیعہ کشیدگی میں اضافہ کا باعث بننے والے اسباب و عوامل کا تجزیہ کرنا ضروری ہے کیونکہ ان اسباب و عوامل کو دور کیے بغیر اہل سنت اور اہل تشیع کے انتہا پسند گروہوں کے درمیان پائی جانے والی موجودہ تصادم کی کیفیت کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگا۔

مگر نقوی صاحب محترم اس طرف آنے کو تیار نہیں اور انہوں نے سنی شیعہ کشمکش کے پاکستان کی حد تک واقعاتی پس منظر کو موضوعِ بحث بنانے سے صاف انکار کر دیا ہے اور ایمان بالقرآن اور امامت کے اصولی مسائل پر گفتگو کا راستہ اختیار کیا ہے۔ مثلاً میں نے گزشتہ مضمون میں تہران کے ایک مذہبی اجتماع کے بینر کا حوالہ دیا تھا کہ اس کے حوالہ سے اختلافات کی اصولی حیثیت بدستور موجود ہے، مگر نقوی صاحب آیتِ تکمیلِ دین کے شانِ نزول کی بحث میں پڑ گئے ہیں کہ دین کی تکمیل کا اعلان کرنے والی آیتِ قرآنی فلاں موقع پر نازل ہوئی تھی اور اہلِ سنت کے فلاں فلاں بزرگوں نے بھی اس شانِ نزول کو تسلیم کا ہے۔ حالانکہ اس ساری تگ و دو کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ شانِ نزول کوئی بھی ہو نتیجہ تو ایک ہی ہے جس کا اعتراف خود نقوی صاحب نے اس مضمون میں کیا ہے کہ اہلِ تشیع حضرت علیؓ کی امامت پر یقین رکھتے ہیں اور پھر نقوی صاحب نے اس عقیدہ امامت کی وضاحت کی کوشش بھی فرمائی ہے۔ اس بات کا ذکر میں نے سابقہ مضمون میں اشارتاً کر دیا تھا کہ اہل تشیع جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علیؓ کی امامت کے قائل ہیں جو ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصوص ہے، ان کے نزدیک امام معصوم ہوتا ہے اور اس کی مذہبی ہدایات کو اس معنٰی میں وحی کا درجہ حاصل ہوتا ہے کہ اسے کسی اور دلیل سے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ اہل سنت کے نزدیک وحی، معصومیت اور آسمانی ہدایات جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہو چکی ہیں، آپؐ کے بعد کسی کو معصومیت کا درجہ حاصل نہیں ہے اور آپؐ کے بعد امامت نہیں بلکہ خلافت کا نظام ہے جو منصوص نہیں ہے بلکہ خلیفہ کا انتخاب امت کی صوابدید پر ہے۔ اب یہ ایک اصولی اور بنیادی اختلاف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین کے اجتماعی نظام اور امت کے جماعتی نظم کی اصولی بنیاد کے حوالہ سے ہے۔ میں اس پر بحث نہیں کر رہا کہ ان میں سے کون سا درست ہے اور کون سا درست نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک کے حق میں دلائل دے رہا ہوں، بلکہ صرف یہ ذکر کر رہا ہوں کہ یہ اختلاف موجود ہے اور اصولی ہے۔ خدا جانے میری یہ گزارش نقوی صاحب کے ذہن تک کیوں رسائی حاصل نہیں کر سکی اور وہ کنفیوژن کا شکار ہوگئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ امامت کے حوالہ سے اصولی اختلاف کو تسلیم بھی کر رہے ہیں اور میری گزارش کی تردید بھی ضروری سمجھ رہے ہیں۔

اسی طرح قرآن کریم پر ایمان کا معاملہ ہے، میں نے صرف یہ کہا ہے کہ اس پر اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان اصولی اختلاف ہے، اس سے زیادہ میں نے کچھ عرض نہیں کیا۔ مگر نقوی صاحب محترم اس مسئلہ میں بھی تفصیلات میں جانے پر مصر ہیں اور مناظرہ و مباحثہ کا اسلوب اختیار کر رہے ہیں۔ میں صرف اختلاف کے وجود کی بات کر رہا ہوں جبکہ وہ اس کے دلائل کی طرف دامن کھینچ رہے ہیں۔ مگر میں اب بھی اس موقف پر قائم ہوں کہ اختلافات پر مباحثہ کا فائدہ نہیں ہے اور اس سے کشیدگی کم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ ہوگا۔

البتہ اس حوالہ سے ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں کہ ۱۹۸۷ء میں پاکستان کے علمائے کرام اور دانشوروں کا ایک وفد ایران کی وزارت مذہبی امور کی دعوت پر ایران گیا جس میں راقم الحروف اور مولانا منظور احمد چنیوٹی بھی تھے۔ اس گیارہ روزہ دورے کے موقع پر تہران میں ایک تقریب بطور خاص قرآن کریم کے حوالہ سے منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی مقتدر ایرانی رہنما جناب آیت اللہ خزعلی تھے۔ تقریب میں دو بچوں نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور مہمان خصوصی نے ہمیں ان کوششوں سے آگاہ کیا جو ایرانی حکومت ملک میں قرآن کریم کی تعلیم کے فروغ کے بارے میں کر رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمارے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موجودہ قرآن کریم پر ہمارا ایمان نہیں ہے مگر یہ بات غلط ہے، ہم قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں، یہ کہہ کر جناب آیت اللہ خزعلی نے جیب سے قرآن کریم کا نسخہ نکالا اور اسے ہاتھ میں پکڑ کر کہا ’’ما ایمان داریم کہ این قرآن حق است نہ یک حرف کم نہ یک حرف زیاد‘‘۔ یعنی ہم ایمان رکھتے ہیں کہ یہ قرآن کریم حق ہے نہ اس میں کوئی حرف کم ہے اور نہ زیادہ ہے۔ اس پر مولانا منظور احمد چنیوٹی نے سوال کیا کہ ہمیں آپ کی زبان سے یہ بات سن کر خوشی ہو رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ آپ کی بنیادی کتابوں میں قرآن کریم کے تحریف شدہ ہونے کے بارے میں جو روایات ہیں ان کا کیا بنے گا؟ خزعلی صاحب نے جواب دیا کہ ان روایات کے ساتھ ہم وہی سلوک کرتے ہیں جو حضرات اہل سنت امام سیوطیؒ کی بیان کردہ ان روایات کے ساتھ روا رکھتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم کی اتنے ہزار آیات تھیں مگر اب موجودہ قرآن کریم میں آیات کی وہ تعداد نہیں ہے۔ چنیوٹی صاحب نے اس پر کہا کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے کیونکہ امام سیوطیؒ کی روایات کا اہل سنت کے اہل علم کے ہاں وہ درجہ نہیں ہے اور وہ بھی ایک دو روایات ہیں، مگر اہل تشیع کے ہاں تو حدیث کی مرکزی کتابوں ’’صحاح اربعہ‘‘ میں دو ہزار روایات ہیں جن میں قرآن کریم کو تحریف شدہ قرار دیا گیا ہے، اس لیے ان دونوں باتوں کو برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خزعلی صاحب نے جواب میں کہا کہ کچھ بھی ہو امام جعفر صادقؒ کا قول ہے کہ جو روایت قرآن کریم کے خلاف ہو اسے دیوار پر مار دو، اس لیے ہم ان سب روایات کو دیوار پر مارتے ہیں۔ مولانا چنیوٹی نے اس کے بعد کہا کہ ہم آپ کے اس ارشاد پر بہت خوش ہیں مگر ایک نکتہ کی اور وضاحت کر دیں کہ اہل سنت کے نزدیک جو شخص قرآن کریم کو تحریف شدہ مانتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ جناب آیت اللہ خزعلی نے اس کے جواب میں مسکراہٹ آمیز خاموشی اختیار کر لی اور بات اسی پر ختم ہوگئی۔

یہ واقعہ صرف اس لیے عرض کیا ہے کہ مسائل و اختلافات کا وجود بہرحال قائم ہے اور ان پر بحث میں پڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ضرورت ان اسباب و عوامل کی نشاندہی اور سدباب کی ہے جو پاکستان میں گزشتہ نصف صدی کے دوران کشیدگی میں اضافہ کا باعث بنے ہیں، ان کے بارے میں لیپا پوتی سے کام لینے سے بات نہیں بنے گی، حقائق و واقعات کو تسلیم کرنا ہوگا اور کشیدگی کے عوامل کو حقیقت پسندی کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کرنا ہوگی، اس کے سوا اس مسئلہ کا اور کوئی حل نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter