غالباً ۵۶ء یا ۵۷ء کا واقعہ ہے میں گکھڑ کے پرائمری سکول میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک روز جمعہ کے موقع پر ایک بزرگ تشریف لائے، ان کے ساتھ ایک قاری صاحب تھے۔ حضرت والد محترم مدظلہ نے ان صاحب کو جمعہ کے اجتماع میں کچھ کہنے کا موقع دیا، انہوں نے قرآن کریم صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے اور حفظ قرآن کریم کی اہمیت مختصر لفظوں میں بیان کی۔ ان کے ساتھی قاری صاحب نے قرآن کریم کی چند آیات کی تلاوت فرمائی اور ان صاحب نے مسجد کے نمازیوں سے کہا کہ اگر آپ حضرات اس مسجد میں قرآن کریم کی تعلیم کا مدرسہ قائم کرنے پر آمادہ ہوں تو قاری صاحب کی آدھی تنخواہ ہم دے دیا کریں گے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بزرگ گکھڑ سے تین میل دور جی ٹی روڈ پر واقع گتہ مل کے مالک سیٹھی محمد یوسف صاحب ہیں اور ان کے ساتھ قاری صاحب گتہ مل کالونی کی مسجد کے خطیب مولانا قاری عبد الحفیظ ہیں جن کا تعلق شیدو شریف اکوڑہ خٹک سے ہے۔
سیٹھی محمد یوسف صاحب کی ترغیب پر گکھڑ میں مدرسہ تجوید القرآن کے نام سے حفظ قرآن کریم کی درسگاہ قائم ہوئی اور قاری اعزاز الحق امرہویؒ بطور استاذ تشریف لائے۔ اس مدرسہ کے ابتدائی طلبہ میں ایک میں بھی تھا جسے سکول سے اٹھا کر حضرت والد صاحب مدظلہ نے قرآن کریم حفظ کرنے کے لیے اس مدرسہ میں داخل کرا دیا تھا۔ سیٹھی صاحب مرحوم نے قرآن کریم کے مدارس کے قیام کو اپنی زندگی کا مشن قرار دے رکھا تھا۔ اس مقصد کے لیے تعلیم القرآن ٹرسٹ قائم تھا اور اس کے ذریعہ انہوں نے پاکستان کے مختلف حصوں میں مذکورہ بالا ترغیب کے ساتھ حفظ قرآن کریم کے مدارس کے قیام کی مہم چلائی۔ بعد میں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں آنے سے قبل مجھے گتہ مل کالونی کی مسجد میں کم و بیش ڈیڑھ دو سال خطابت کے فرائض سرانجام دینے کا موقع ملا تو اس کام سے زیادہ واقفیت حاصل ہوئی اور معلوم ہوا کہ تعلیم القرآن ٹرسٹ کے تحت ملک بھر میں کم و بیش گیارہ سو مدارس کی امداد کی جاتی ہے۔ یہ مدارس آہستہ آہستہ خود کفیل ہوتے گئے اور ٹرسٹ کی مدد بھی کم ہوتے ہوئے چند مدارس تک محدود رہ گئی۔ مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان میں حفظ قرآن کریم اور تجوید کے ہزاروں مدارس کے قیام کے پیچھے الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم کی اس محنت کو بنیادی کردار کی حیثیت حاصل ہے۔
سیٹھی صاحب ایک نو مسلم باپ کے فرزند تھے۔ ان کے والد سیالکوٹ روڈ گوجرانوالہ پر واقع بستی ترگڑی کے ہندو خاندان سے تعلق رکھتے جو مسلمان ہوئے اور خدمت قرآن کو نہ صرف اپنا مشن بنایا بلکہ اپنے بیٹے کو مستقل طور پر اس کام پر لگا دیا۔ آخر عمر میں سیٹھی صاحب مرحوم کی توجہ سعودی عرب میں حفظ قرآن کریم کے مدارس قائم کرنے پر مبذول ہوگئی تھی اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں اس وقت قرآن کریم کے حفظ اور قراءت کا جو ذوق پورے عالم اسلام کے لیے قابل فخر اور لائقِ تقلید مقام حاصل کر چکا ہے اس کی شروعات بھی سیٹھی محمد یوسف صاحب مرحوم کے ہاتھوں ہوئی۔ اس کی تفصیل اعظم گڑھ انڈیا کے معروف علمی جریدہ ’’معارف‘‘ کے مئی ۱۹۹۰ء کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک مکتوب میں ملاحظہ کریں جو جناب عبد الملک جامی نے ’’مکتوب مدینہ منورہ‘‘ کے طور پر تحریر فرمایا تھا۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ایک موقع پر اہل لاہور سے خطاب کے دوران شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی خدمتِ قرآن کریم اور اس کے عالمگیر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ لاہوریو! اگر تم قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے پر آمادہ نہ ہوگے تو دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے ایک سکھ گھرانے میں مولانا احمد علی کو پیدا کر کے انہیں قرآن کریم کے علوم کی اشاعت کے کام پر لگا دیا ہے۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے والد محترم بھی نومسلم تھے اور سکھ سے مسلمان ہوئے تھے۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ ان کے گاؤں ’’جلال‘‘ اور سیٹھی محمد یوسف مرحوم کے والد کے گاؤں ’’ترگڑی‘‘ میں چند میل کا فاصلہ ہے اور دونوں کے مسلمان ہونے کا زمانہ بھی ایک ہے۔ جناب عبد الملک جامی کا مکتوب ملاحظہ کیجئے اور قرآن کریم کے اعجاز کی آج کے دور میں ایک زندہ شہادت پڑھ کر ایمان تازہ کیجئے۔
۱۶/۱۷ رمضان المبارک چہار شنبہ (یوم الاربعاء)
محب گرامی قدر جناب مولانا ضیاء الدین اصلاحی!
وفقنا اللہ وایاکم لما یحب ویرضیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں ابھی حرم شریف سے آرہا ہوں، وہاں آج ہمارا حفلہ سنویہ (سالانہ جلسہ) تھا۔ جلسہ یہاں دارالقضاء کی اصطلاح ہے، ہمارے ہاں کہتے ہیں آج ’’پیشی‘‘ ہے، یہاں کہتے ہیں آج ’’جلسہ‘‘ ہے۔
’’ہمارا‘‘ کی تشریح یہ ہے کہ یہ عاجز پچیس برس جس کام میں مشغول رہا وہ جماعۃ تحفیظ القرآن کا کام تھا۔ آج جو تقریر (رپورٹ) سنائی گئی اسی میں بتایا گیا کہ اس وقت ہمارے ۱۳۵ مدرسے ہیں للبنین (ذکور)، لڑکیوں کے اس کے علاوہ ہیں۔ لڑکوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار سے اوپر ہے اور لڑکیوں کی چھ ہزار سے زیادہ ہے۔ جن لڑکوں نے اس سال پورا قرآن حفظ کرنے میں کامیابی حاصل کی ان کی تعداد ۴۵ ہے۔ دس پاروں میں پاس ہونے والے تین سو ہیں اور پانچ پاروں میں کامیاب ہونے والے پانچ سو۔ یہ صرف مدینہ منورہ کے مدارس کے اعداد و شمار ہیں۔ پچھلے دنوں جدہ گیا تھا وہاں معلوم ہوا کہ طلبہ کی تعداد ۱۸ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اور اس وقت یہ مدارس سعودی عرب میں اقصیٰ جنوب سے اقصیٰ شمال تک پھیلے ہوئے ہیں۔ طلبہ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوگی۔ ہمارے ملک فہد صاحب جو اب ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں، یعنی رسمی و سرکاری طور پر ان کا یہی خطاب ہے، اس شخص کو بھی حفظِ قرآن سے بہت دلچسپی ہے۔ کئی سال سے اعلان فرما دیا ہے کہ قید خانوں میں جو قیدی قرآن مجید حفظ کر لے گا اس کی آدھی مدت معاف کر دی جائے گی۔ اس طرح قید خانوں میں لوگ حفظ کرنے پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ یہاں یہ مدارس نائٹ اسکول کے طور پر ہیں، دن میں بچے اپنے اسکولوں میں جاتے ہیں، عصر سے مغرب تک ہمارے ہاں آتے ہیں۔ بعض مدرسے عشاء تک بھی ہیں اور چند ایسے بھی ہیں جو سارا دن جاری رہتے ہیں۔
جو بات اصل کہنے کی ہے وہ ہے کہ ان مدارس کی بنیاد ایک پاکستانی تاجر نے رکھی، وہ بھی ایک لاعلمی کی بنا پر۔ رمضان کے مہینہ میں (پچیس برس پہلے) وہ مکہ مکرمہ آئے ہوئے تھے، وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ کچھ لوگ قرآن ہاتھ میں لے کر نماز (نوافل) کی امامت کرا رہے ہیں۔ شوافع کے یہاں چونکہ یہ جائز ہے وہ اس میں مضائقہ نہیں سمجھتے، اور انسان کی طبعی سہولت پسندی کے اسی جواز نے ان کے ہاں حفظِ قرآن تقریباً ختم کر دیا۔ یہ سارے علاقے، شافعی علاقے جو میں نے جنوبی ہند (مدراس) سے لے کر ملایا، سنگاپور، انڈونیشیا، تھائی لینڈ تک دیکھے وہاں یہی عالم پایا۔ وجہ شافعی مسلک جو ان ملکوں میں عام ہے۔ انڈونیشیا میں قراءت کا زور ہے، عورتیں بھی خوب قاری ہوئی ہیں مگر حافظوں کا کال ہے۔ ہاں یہ پاکستانی تاجر جن کے دفترِ حساب میں لاکھوں کا اجر و ثواب لکھا جا رہا ہے خود ایک نومسلم باپ کے بیٹے تھے۔ ان کا نام محمد یوسف سیٹھی تھا اور ان کے والد جو ہندو سے مسلمان ہوئے تھے ان کا نام عبد الرحیم رکھا گیا تھا۔ درحقیقت یہ ان کے والد ہی کی وصیت تھی جس کی تعمیل میں انہوں نے پاکستان میں قرآن مجید کے مدرسے کھلوانے شروع کیے تا آنکہ وہاں بھی طلبہ کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ سیٹھی صاحب مرحوم کا مقصود صرف حفظِ قرآن نہیں تھا بلکہ قرآن فہمی اور اس پر عمل بھی ان کی اسکیم میں داخل تھا۔
خیال فرمائیں کہ جب میں نے آغاز کار میں بعض مدارس طلبہ کی قلت مدرسین کی عدم قابلیت، اہل محلہ کی غفلت و بے اعتنائی کی بنا پر بند کر دیے تو مرحوم سیٹھی صاحب نے فرمایا ’’بھائی میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ اگر ایک بچے نے مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھ لی تو میرا تو پیسہ وصول ہوگیا‘‘ ۔قرآن فہمی کے ضمن میں مدارس میں برابر مذاکرات اور محاضرات کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ اب سے پچیس برس پہلے حرم شریف کے علاوہ کہیں کسی مسجد میں تراویح نہیں ہوتی تھی، اب یہ ہے کہ ۱۳۵ مسجدوں میں تو مدینہ منورہ میں تراویح ہو رہی ہے اور اسی طرح دوسرے شہروں میں۔ یہ ہمارے ہی بچے ہیں جو ان مساجد میں جا کر تراویح پڑھاتے ہیں۔ اس سال مسجد قبا، مسجد میقات، مسجد الشہداء (امیر حمزہ) جو شہر کی سب سے شاندار وسیع و عریض مساجد ہیں، ہمارے ہی طالب امامت کرا رہے ہیں۔ بلکہ خود حرم شریف میں بھی ہمارا تعلیم و تربیت یافتہ طالب تراویح پڑھا رہا ہے اور وہ ایسے والہانہ انداز میں پڑھتا ہے کہ لوگ اس کے عاشق ہو گئے ہیں۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ تراویح (حرم شریف) کے لیے کسی ہندی یا پاکستانی الاصل بلکہ غیر عربی کو منتخب کیا گیا ہو۔ اس مقری کا نام محمد ایوب ہے اور ان کے باپ جو برما سے ہجرت کر کے آئے تھے ابھی حیات ہیں، برما کی بجائے ان کا پاسپورٹ پاکستانی تھا۔
بڑی ناسپاسی ہوگی اگر میں اس موقع پر مرحوم و مغفور الشیخ محمد صالح قزاز صاحب کا ذکر نہ کروں جو بعد میں رابطہ عالم اسلامی کے امین العام ہوگئے تھے، یوسف سیٹھی اگر بانی اول ہیں تو یہ بانی ثانی ہیں۔ سیٹھی صاحب نے جب اپنی اسکیم ان کے سامنے رکھی تو اس کے عاشق ہوگئے اور تن من دھن ہر طرح سے اس پر قربان۔ انہی کا دم تھا، ان ہی کا اثر و رسوخ کہ سیٹھی صاحب کو سارے ملک میں کام کرنے کی اجازت مل گئی۔ صالح قزاز صاحب جن کا ابھی اسی سال انتقال ہوا مرتے دم تک اسی کام میں منہمک رہے۔ سیٹھی صاحب کے انتقال کو شاید سات سال ہوئے، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی زید مجدہم فرماتے تھے کہ سیٹھی صاحب کا جس کمرہ (کراچی) میں انتقال ہوا وہ بوقت وفات قدرتی خوشبو سے بھرا ہوا تھا۔
یہ بھی امر واقعہ ہے کہ نومسلمین میں ایمان کی تازگی ہوتی ہے جوش و خروش ہوتا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا جوش و خروش اور قوت عملی دنیا کو معلوم ہے۔ مولانا احمد علی لاہوریؒ کے والد بھی نومسلم تھے، کتنا انہوں نے کام کیا۔ مولانا علی میاں بھی ان کے شاگرد ہیں اور عند اللہ قبولیت کی یہ نشانی کہ چھ ماہ تک ان کی قبر سے خوشبو آتی رہی۔ تبلیغی جماعت جو اس وقت دنیا میں مشہور ہے، مولانا الیاسؒ کے بعد اس کے دوسرے بانی حاجی عبد الرحمان ایک بنیے کے بیٹے تھے، خود مسلمان ہوئے اور پھر چودہ سو آدمیوں کو مسلمان کیا۔ پھر مسلمان کر کے چھوڑ نہیں دیا، شادی بیاہ، کام کاج، روزگار سے لگانا، تعلیم لانا سب کام کرتے تھے۔ اور ہاں ہمارے علامہ شبلیؒ بھی تو بالآخر ایک نومسلم خاندان سے تھے اور یوں تو علامہ اقبالؒ بھی۔
یہ بات خیال میں رہے کہ اب ہر شہر کی جماعت خود کفیل ہے اور جب سے جامعہ محمد بن سعود (ریاض) نے ان جماعتوں کو اپنی تنظیم میں لے لیا ہے آدھا خرچہ وہ دیتی ہے۔ اس سال ہمارا بجٹ ۴۵ لاکھ (سعودی ریال) کا تھا۔ ایک غیر متعلق بات ہے محض معلومات کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ اس سال پاکستان سے (رمضان میں) عمرہ کے لیے ۵۵ ہزار آدمی آئے ہیں، ۲۲ لاکھ کی درخواست تھی حکومت انتظام نہیں کر سکی، فال نیک ہے۔ اس تعداد کی رسمی یعنی سرکاری تصدیق ابھی نہیں ہو سکی ورنہ یوں افواہ تو ستر ہزار تک ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
عبد الملک جامی