۲۳ جولائی ۱۹۹۹ء کی بات ہے راقم الحروف ابوبکر اسلامک سنٹر ساؤتھال کے گراؤنڈ فلور کے ہال میں جمعہ کی نماز پڑھا کر دوسری منزل پر اپنے کمرے میں جا رہا تھا کہ ایک صاحب میرے ساتھ لفٹ میں گھس گئے۔ انہیں میں پہلے سے جانتا ہوں اور ایک بار بھگت بھی چکا ہوں، وہ ساؤتھال کے علاقہ میں رہتے ہوئے پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ابوبکرؓ سینٹر ویلیئر روڈ کے ایک مکان میں ہوا کرتا تھا اور حسب معمول میرا قیام وہیں ہوتا تھا۔ یہ صاحب جمعہ کے لیے اکثر وہاں آتے تھے، ایک روز مجھے دعوت دی کہ ان کے ساتھ گھر جا کر کھانا کھاؤں۔ میں چلا گیا، انہوں نے گھر پہنچتے ہی مجھے بٹھایا، پانی وغیرہ سے تواضع کا آغاز کیا اور کاغذات کا ایک پلندہ اٹھا لائے۔ خیال ہوا کہ کسی معاملہ میں مشورہ کرنا چاہ رہے ہوں گے مگر انہوں نے کہا کہ یہ ان کا تازہ کلام ہے جو انہوں نے امت مسلمہ کی حالت زار پر ارشاد فرمایا ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنا کلام سنانا شروع کر دیا۔
میں اس درجہ کا سخن فہم تو یقیناً نہیں ہوں کہ کوئی شعر سن کر فنی اور ادبی حوالہ سے اس پر گفتگو کر سکوں مگر فکر و خیال کی ندرت اور نکتہ آفرینی سے حظ اٹھانے کا ذوق بحمد اللہ تعالیٰ کسی حد تک حاصل ہے۔ چنانچہ دو چار شعر سن کر ہی اندازہ ہوگیا کہ صاحب ابھی ’’تک بندی‘‘ کا مرحلہ بھی نہیں طے کر پائے۔ مجھے چونکہ ابھی کھانا کھانا تھا اس لیے کلام سنے بغیر کوئی چارہ نہ تھا مگر جب بات زیادہ آگے بڑھتے دیکھ کر درمیان میں پوچھا کہ ابھی کتنا کلام باقی ہے تو فرمانے لگے کہ سو کے لگ بھگ تو اشعار یہ ہیں اور اس سے کچھ زیادہ الماری میں پڑے ہیں۔ میں نے وقت کی قلت اور مصروفیت کا بہانہ بنا کر انہیں کلام کا سلسلہ مختصر کرنے کو کہا مگر وہ نہ نہ کرتے بھی ہاتھ والے پلندے کا نصف سے زیادہ حصہ سنا ہی گئے۔ اس کے بعد متعدد بار ایسا ہوا کہ مسجد میں یا بازار میں چلتے ہوئے کسی جگہ آمنا سامنا ہوا تو میں جان بوجھ کر کترا گیا کہ کہیں پھر کھانے کی دعوت نہ دے دیں۔
اس پس منظر میں ان صاحب کو لفٹ میں اپنے ساتھ کمرے کی طرف جاتے دیکھا تو پریشانی ہوئی، جلدی میں پوچھا کہ کوئی ارشاد؟ فرمانے لگے کہ میں نے ’’خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور اب میں مسلمانوں کا خلیفہ ہوں اس لیے آپ سے مشورہ کرنے آیا ہوں کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ عجلت میں اس وقت اور تو کچھ نہ سوجھا، پیشاب کی حاجت تھی اس لیے یہ کہتے ہوئے ٹوائلٹ میں گھس گیا کہ مجھے تو پیشاب تنگ کر رہا ہے آپ کا جو جی چاہے کریں۔ ٹوائلٹ سے نکلا تو وہ صاحب جا چکے تھے اس لیے ’’۔۔۔ ولے بخیر گزشت‘‘ کہتے ہوئے کلمہ شکر کہا اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
ان صاحب کی یہ حرکت تو کسی ذہنی اور نفسیاتی الجھن کا نتیجہ قرار دی جا سکتی ہے اور عام طور پر اس قسم کی حرکات نفسیاتی بیماریوں کا ہی ثمر ہوتی ہیں مگر میں عالم اسلام کے متعدد ایسے حضرات سے واقف ہوں جو کوئی ذہنی یا نفسیاتی پریشانی ظاہر کیے بغیر بڑی سنجیدگی کے ساتھ خلافت کا پرچم تھامے لوگوں کو اپنے گرد جمع ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض نے تو خلافت کا باقاعدہ دعویٰ کر رکھا ہے، کچھ ابھی تک ’’کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے‘‘کے مصداق تذبذب کی حالت میں ہیں، اور کچھ طلبگاران خلافت ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں جو ’’دعویٰ خلافت‘‘ کے لیے سازگار ہوں۔ دو سال قبل لندن کے ٹریفالیگر اسکوائر میں المہاجرون کی سالانہ دعوت اسلام ریلی میں ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جن کے والد محترم خواجہ جمال الدین آغا نے خلیفۃ المسلمین ہونے کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ وہ جرمنی میں رہتے تھے او رخلافت فرماتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد یہ نوجوان ان کے گدی نشین ہیں اور ذہنی طور پر خود کو خلیفۃ المسلمین ہی سمجھتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت اسلامیہ کا احیاء قیام ملت اسلامیہ کے دینی فرائض و واجبات میں سے ہے جسے ائمہ عظام نے پوری امت کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے اور اس وقت پوری کی پوری امت کسی فرد یا طبقہ کی استثناء کے بغیر اس اہم ترین دینی فریضہ کی تارک اور شرعاً گنہگار ہے۔ لیکن اس کا طریقہ یہ نہیں ہے جو آج کل دیکھنے میں آرہا ہے۔ آج کے دور میں خلافت کے قیام کی میری طالب علمانہ رائے میں ممکنہ صورت یہ ہے کہ
- مسلم ممالک میں اسلامی نظام و قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے،
- مکمل اسلامی نظام کو اپنانے والے مسلم ممالک مل بیٹھ کر عالم اسلام کی سطح پر اپنی کنفیڈریشن کے قیام کا اعلان کریں،
- اس کنفیڈریشن کا سربراہ خلیفۃ المسلمین کہلائے،
- کنفیڈریشن میں شامل تمام مسلم ممالک اسلامی امارات کی حیثیت سے خلافت اسلامی کے داخلی طور پر خود مختار یونٹ ہوں جنہیں دفاع، کرنسی، بین الاقوامی مواصلات، شرعی قوانین، اور خارجہ پالیسی کے علاوہ باقی تمام امور میں مکمل خودمختاری حاصل ہو۔
اس طرح تمام مسلم ممالک کی خودمختاری اور جداگانہ امتیازی تشخص کا احترام برقرار رکھتے ہوئے خلیفۃ المسلمین کی سربراہی میں عالم اسلام ایک قابل عمل اور باوقار وحدت کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک خلافت کے قیام کی جدوجہد کا صحیح اور فطری طریقہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کے دین دار حلقے اپنے اپنے ملک میں مکمل اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ کے لیے سنجیدہ محنت کریں اور اس کے ساتھ عالمی سطح پر خلافت اسلامیہ کے قیام کے لیے امت کی ذہن سازی کرتے رہیں تاکہ کم از کم آٹھ دس ممالک میں اسلامی حکومتوں کے قیام کے بعد خلافت کی طرف عملی پیش رفت کا جلد آغاز ہو سکے۔
اس کے علاوہ آج کے معروضی حالات میں ہمارے خیال میں خلافت اسلامیہ کے قیام کی کوئی دوسری صورت قابل عمل نہیں ہے۔ اس لیے جو حضرات یہ خیال کیے بیٹھے ہیں کہ وہ خلافت کے نام پر چند لاکھ مسلمانوں کو اپنے گرد جمع کر کے خلیفہ بن بیٹھیں گے اور پھر خدائی فوجدار بن کر لٹھ اٹھائے پوری دنیا سے اپنی خلافت منوانے کے لیے چل پڑیں گے، وہ خوش فہمی کا شکار ہیں۔ ایسے حضرات ایک ایسے سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جس کے دامن میں ان کے لیے صلاحیتوں اور توانائیوں کی بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خلافت اسلامیہ کے احیاء اور قیام کے لیے محنت و جدوجہد الگ چیز ہے جبکہ خلافت کے نام پر شخصی ادعا کے ساتھ اپنے گرد لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش اس سے بالکل مختلف عمل ہے۔ اول الذکر عمل دینی فریضہ اور اس کی ادائیگی کا خوبصورت احساس و جذبہ ہے جس کے ساتھ تعاون اور اس میں شرکت ہر مسلمان کی شرعی ذمہ داری ہے۔ جبکہ ثانی الذکر محنت پر ’’طالع آزمائی‘‘ کے سوا اور کوئی عنوان فٹ نہیں بیٹھتا۔
چنانچہ اسلام کے لیے کام کرنے والے رہنماؤں، کارکنوں اور حلقوں کو ان دونوں میں فرق کرنا ہوگا ورنہ شخصی دعویٰ کے ساتھ خلافت کی شرعی اصطلاح کی آڑ میں مذہبی پیشوائیت کے حصول کی روایت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آخر مرزا طاہر احمد بھی تو خلیفۃ المسیح الرابع اور امیر المومنین کہلاتے ہیں، اس لائن میں کچھ اور لوگوں کے لگ جانے سے خلافت کی مقدس اصطلاح کی مزید اہانت اور مسلمانوں کے دینی جذبات کے استحصال کے سوا اور کیا نتیجہ نکلے گا؟