کوالالمپور کانفرنس اور امت مسلمہ کی صورتحال

   
تاریخ : 
۲۴ دسمبر ۲۰۱۹ء

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں مسلم حکمرانوں کی سہ روزہ عالمی کانفرنس مختلف اہم اعلانات کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی ہے جس سے مسلم دنیا کے معاملات ایک نیا رخ اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اور کچھ مسائل جن پر اب تک بعض حلقوں میں گفت و شنید کا ماحول پایا جاتا تھا ان پر اب قدرے وسیع دائرے میں بحث و مباحثہ کا سلسلہ چل نکلا ہے، جو وقت کی ضرورت بھی ہے کہ مسلم امہ کی موجودہ صورتحال اور اس کے بیشتر مسائل و مشکلات کے حل نہ ہو سکنے کی وجوہ و اسباب پر بحث و تمحیص بہرحال دن بدن ناگزیر ہوتی جا رہی ہے۔ ان میں سے چند امور پر ہم ابتدائی طور پر کچھ گزارشات پیش کرنا چاہ رہے ہیں۔

پہلا مسئلہ تو عالم اسلام میں قیادت کے بحران کا ہے جو اب سے ایک صدی قبل خلافت عثمانیہ کے خاتمہ سے شروع ہوا تھا اور اس کی سنگینی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے بعد اس کی صحیح صورت یہ تھی کہ عالمی نقشہ پر سعودی عرب کے نام سے نمودار ہونے والی نئی ریاست عرب ہونے کی وجہ سے اور حرمین شریفین کی خدمت کا اعزاز رکھنے کے باعث خلافت کا عنوان اختیار کرتی، جس کا سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز بن سعودؒ کو مشورہ بھی دیا گیا تھا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو عالم اسلام کو عالمی قیادت کا تسلسل مل جاتا کہ خلافت عثمانیہ نے عربوں سے ہی خلافت حاصل کی تھی اور صدیوں تک حجاز مقدس سمیت بہت سے مسلم اور عرب ممالک اس خلافت کے پرچم تلے اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مگر سعودی عرب نے خلافت کی بحالی کی بجائے سلطنت کا ٹائٹل پسند کیا، جس کے اسباب و عوامل کچھ بھی ہوں مگر نتیجہ یہ سامنے آیا کہ امت مسلمہ عالمی قیادت کے سائے سے محروم ہو گئی۔ اور سعودی عرب اپنے دینی تشخص، حرمین شریفین کی خدمت، اور دنیا کے مختلف حصوں میں امت مسلمہ کے مسائل میں مخلصانہ تعاون کے باعث احترام اور تعظیم کا مقام حاصل کرنے کے باوجود قیادت کی ضروریات کو پورا نہ کر سکا۔ اس لیے اس خلا کو پر کرنے کے لیے متبادل ذرائع کی تلاش امت مسلمہ کی ضرورت بن گئی۔ اس دوران ہردلعزیز سعودی حکمران شاہ فیصل شہیدؒ نے اپنے ملی کردار، دینی حمیت اور ملت اسلامیہ کی اجتماعیت کے لیے جدوجہد کی وجہ سے عالم اسلام میں محبوبیت کا ایسا مقام پا لیا تھا کہ ان سے مسلم امہ نے عالمی سطح پر قیادت کی بجا طور پر توقعات وابستہ کر لیں مگر ان کی شہادت نے یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔

دوسرا مسئلہ عالم اسلام کی داخلی وحدت اور خودمختاری کا ہے کہ امت مسلمہ عالمی قوتوں کی کشمکش اور اثر و رسوخ کے دائروں سے ہٹ کر اپنے فیصلے خود اپنی ملی ضروریات و مفادات کی بنیاد پر کرنے کی پوزیشن حاصل کر لے۔ مگر یہ اب تک نہیں ہو سکا کہ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کے دوران اکثر مسلم ممالک خود کو ان کے باہمی تقسیم کے دائروں سے محفوظ نہ رکھ سکے، حتٰی کہ غیر جانبدار تحریک اور تیسری دنیا کا نعرہ بھی ہمارے کام نہ آیا۔ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ سرد جنگ کے خاتمہ پر امریکہ کی کامیابی کے ثمرات سے تو ہم کوئی حصہ حاصل نہ کر پائے مگر ذمہ داریوں اور نقصانات کا بوجھ ہم پر زیادہ سے زیادہ ڈالنے کی روش اب تک جاری ہے، اور بظاہر ہم اس کے احساس و ادراک تک سے بیگانہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ جبکہ اصل ضرورت عالمی طاقتوں کی کسی بھی نوعیت کی کشمکش اور لابنگ کی دلدل سے امت مسلمہ کو نجات دلانے اور اپنے فیصلے امت مسلمہ کی بنیاد پر کر سکنے کا ماحول پیدا کرنے کی ہے۔ اس سلسلہ میں مسلم ممالک کے درمیان تعاون و اشتراک کی راہ ہموار کرنے کے حوالہ سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اپنے قیام کے بعد امید کی ایک کرن ثابت ہوئی تھی اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی تھیں، مگر وہ بھی آہستہ آہستہ عالمی طاقتوں کے مسلط کردہ نظام کا ایک حصہ دکھائی دینے لگ گئی اور مجموعی طور پر زبانی جمع خرچ کے سوا اس سے کسی عملی کام کی توقع نہ رہی۔

ایک مسئلہ کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کے شریک نہ ہونے کا بھی ہے کہ شرکت کا وعدہ کرنے کے باوجود عین وقت پر اس سے معذرت کر لی گئی جس کی مختلف توجیہات کی جا رہی ہیں۔ مگر ہمیں اس موقع پر ایک پرانی بات یاد آگئی کہ قیام پاکستان کے بعد جب ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید کو عالمی سرد جنگ کے دو حریفوں روس اور امریکہ دونوں نے دورہ کی دعوت دی تو انہوں نے روس سے معذرت کرتے ہوئے امریکہ کی دعوت قبول کر لی تھی، جس سے اس وقت کی عالمی کشمکش میں پاکستان امریکی کیمپ کا حصہ بن گیا تھا، اور کہا جاتا ہے کہ اس ساری گیم کا مبینہ کردار اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان تھے۔ ہمیں موجودہ حکومت کا یہ فیصلہ بھی اسی قسم کا لگتا ہے حتٰی کہ اگر غور کیا جائے تو اب بھی بیک ڈور میں چودھری ظفر اللہ خان کی لابی ہی متحرک دکھائی دیتی ہے، البتہ معروضی صورتحال جس کا تذکرہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے کیا ہے اس سے پاکستان کا رویہ ’’مرضی‘‘ کی بجائے ’’مجبوری‘‘ کا لگتا ہے کہ کمزور معاشی صورتحال اور قرضوں کی جکڑ نے ہمیں کوئی بھی اہم قومی فیصلہ اپنی مرضی سے کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔

بہرحال اس تناظر میں کوالالمپور کانفرنس کے فیصلے اور اعلانات عالم اسلام کی موجودہ صورتحال میں نئے امکانات کا جو منظر پیش کر رہے ہیں ان کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور ہم ڈاکٹر مہاتیر محمد کو اس جرأت رندانہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے امت مسلمہ کے لیے ان کے نیک عزائم میں پیشرفت اور کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter