آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد ۔ نئی سفارتی صف بندی کی ضرورت

   
۴ اگست ۲۰۲۰ء

وزیرخارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیا ہے اور دیگر پروگراموں کے علاوہ قومی سطح پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی ترتیب بھی بتائی ہے، جو آج کی دنیا میں جذبات کے اظہار کی ایک صورت سمجھی جاتی ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں ہے اور ان شاء اللہ تعالٰی اس میں شریک ہوں گے، مگر کیا اس سے مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیریوں کی مظلومیت میں کمی کا کوئی راستہ نکل آئے گا؟ یہ محل نظر بات ہے اور ہم سب کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

کشمیر کا مسئلہ اصلاً یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیر اور جموں وغیرہ کے جو علاقے ایک ریاست کے طور پر ڈوگرہ راجہ کے تسلط میں تھے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کشمیری عوام کی جدوجہد پہلے سے جاری تھی، اس خطے کے جغرافیائی محل وقوع، آبادی کے تناسب اور عوامی جذبات تینوں حوالوں سے یہ استحقاق بنتا تھا کہ اسے پاکستان میں شامل کیا جائے۔ مگر ڈوگرہ راجہ نے ان تینوں معروضی حقائق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا جسے کشمیری عوام نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کر دی۔ ڈوگرہ راجہ کے زیر تسلط ریاست جموں، کشمیر، گلگت، بلتستان وغیرہ کے لوگ ہتھیار بکف ہو کر میدان میں نکل آئے اور جنگ کرتے ہوئے سری نگر کے دروازے تک جا پہنچے۔ اس مرحلہ میں بھارت کی درخواست پر اقوام متحدہ درمیان میں آئی اور دونوں فریقوں سے جنگ بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے یہ طے کیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق راجہ کا نہیں کشمیری عوام کا ہے، جس کے لیے آزادانہ استصواب رائے کا اہتمام ضروری ہے، تاکہ کشمیری عوام اپنی آزادانہ مرضی کے ساتھ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں شامل ہو جائیں۔ چنانچہ جموں و کشمیر کے مجاہدین آزادی کو سری نگر اور جموں کے دروازے پر یہ کہہ کر آگے بڑھنے سے روک دیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ آزادانہ رائے شماری کا اہتمام کروائے گی اور کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں گے۔

اس جنگ میں بھارتی فوجیں راجہ کی مدد کے لیے وادی میں داخل ہوئیں اور پاکستان کی مسلح افواج مجاہدین کی مدد کے لیے آگے بڑھیں اور دونوں ملک اس قضیہ میں عملاً فریق بن گئے۔ تب سے ان دونوں ملکوں کے درمیان دو بڑی جنگوں کے علاوہ کشمیری عوام کی مسلح مزاحمت کی تحریک مسلسل جاری ہے۔ ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں مسلح بھارتی افواج بھاری تعداد میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ مجاہدین آزادی کو ناکام کرنے کے لیے فوج کشی کے تمام حربے ان کے زیراستعمال ہیں۔ دوسری طرف آزاد کشمیر میں پاکستانی افواج موجود ہیں لیکن کشمیری عوام کے ساتھ ان کی کسی نوعیت کی محاذ آرائی نہیں ہے بلکہ وہ بھرپور باہمی اعتماد کے ساتھ ان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔

اس حوالہ سے میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ اس سے بھی اپنے مستقبل کے بارے میں کشمیری عوام کی مرضی کھلے بندوں دیکھی جا سکتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی موجودگی اور آزاد کشمیر و شمالی علاقہ جات میں پاکستانی افواج کی موجودگی ایک حقیقت ہے۔ مگر دونوں طرف کے عوام کا طرزعمل سب کے سامنے ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کا بھارتی افواج کے ساتھ اور آزادکشمیر کے عوام کا پاکستانی فوج کے ساتھ طرزعمل کیا ہے۔ اگر کوئی باشعور بین الاقوامی کمیشن دونوں طرف صرف اس بات کا کھلے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لینے کی زحمت کر سکے تو اپنے مستقبل کے بارے میں کشمیری عوام کے جذبات و احساسات کا اندازہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔

اس لیے مسئلہ کشمیر کا اصل حل صرف اور صرف یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے ستر سال قبل کشمیری عوام کے ساتھ آزادانہ استصواب رائے کا جو وعدہ کیا تھا اور جس سے وہ اب بھی انکاری نہیں ہے، اس وعدہ کی جلد از جلد تکمیل کرائی جائے۔ جبکہ عملی صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ اب بھی اس وعدہ سے منحرف نہیں ہے اور استصواب رائے کمیشن اس کی طرف سے باقاعدہ موجود ہے، مگر بعض بالادست عالمی طاقتوں کے مفادات اس کے کام میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جس کا المناک ترین پہلو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے جبر و تشدد نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور غیر جانبدار بین الاقوامی حلقوں اور اداروں کے مطابق کشمیریوں کو جبرًا غلام بنائے رکھنے کے لیے بھارت ظلم و جبر کی آخری حدوں کو بھی کراس کر رہا ہے۔

ان حالات میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ضروری ہے جو مسلسل ہوتے رہنا چاہیے، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو اس کا طے شدہ کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی مؤثر صورت نکالے۔ کیس واضح ہے، انتظامات موجود ہیں، اور جس نے اہتمام کروانا ہے خود اس کا کوئی انکار نہیں ہے، تو اس میں پیشرفت کے راستے تلاش کرنا اور اس کے عملی اظہار کی صورتیں نکالنا بہرحال اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالہ سے بھی کہ وہ اس کیس میں خود فریق ہے، اس حوالہ سے بھی کہ کشمیری عوام اپنے جائز حق کے لیے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں، اس طور پر بھی کہ جغرافیائی، نظریاتی، ثقافتی اور تاریخی حوالوں سے کشمیریوں کا یہ جائز حق ہے کہ وہ پاکستان کا حصہ بنیں، اور اس وجہ سے بھی کہ دنیا کے سب سے بڑے عالمی فورم اقوام متحدہ نے ان سے اس بات کا بار بار وعدہ کر رکھا ہے۔

یہ مسئلہ نہ حکمران پارٹی کا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا ہے، بلکہ مشترکہ قومی مسئلہ ہے، ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم اور عالم اسلام کا بھی مسئلہ ہے۔ ہمارے خیال میں عالمی ماحول میں پاکستان کی سفارتی جدوجہد لابنگ اور میڈیا دونوں حوالوں سے نئی صف بندی کا تقاضا کر رہی ہے، جو قومی ماحول میں، قومی جذبہ کے ساتھ اور قوم کے تمام طبقات کی بھرپور شرکت کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اگر ہم کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن مناتے ہوئے اپنی سیاسی اور سفارتی جنگ کی نئی صف بندی کی کوئی مؤثر صورت نکال سکیں تو کشمیریوں کے ساتھ حقیقی یکجہتی یہی ہو گی، اللہ تعالٰی سب کو اپنے حصے کا کام کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter