لندن بم دھماکے۔ انجام کیا ہوگا؟

   
تاریخ : 
۱۵ جولائی ۲۰۰۵ء

اِدھر اسامہ بن لادن کی تلاش میں خفیہ ادارے منگلا ڈیم کے کنارے جا پہنچے ہیں اور اُدھر لندن میں خوفناک بم دھماکوں نے چار درجن سے زائد انسانوں کی جانیں لے کر مغرب کو خوف و ہراس کی ایک نئی فضا سے دوچار کر دیا ہے۔ میرپور آزادکشمیر میں منگلا ڈیم کے کنارے سیاکھ نامی بستی میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے علی الصبح ایک دینی مدرسہ کو اچانک آپریشن کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں فراہم کی گئی معلومات کے مطابق سیاکھ کے دینی مدرسہ جامعہ ابراہیمیہ میں اسامہ بن لادن چھپے ہوئے ہیں۔

جامعہ ابراہیمیہ اس علاقہ کے ایک بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد ابراہیم سیاکھویؒ کی یاد میں قائم ہے جو اب سے پون صدی قبل نہ صرف اس علاقہ بلکہ پورے جموں و کشمیر اور پونچھ کے سرکردہ علمائے کرام میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے بھائی مولانا عبد اللہ سیاکھویؒ اس دور کے اہم دینی و سیاسی رہنماؤں میں سے تھے اور آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا۔ منگلا ڈیم بننے کے بعد جب اس علاقہ کی بڑی آبادی ترک وطن کر گئی اور اس کا ایک بڑا حصہ برطانیہ میں جا کر آباد ہوا تو مولانا محمد ابراہیم سیاکھویؒ کے فرزند و جانشین مولانا منظور عالم سیاکھویؒ بھی برطانیہ چلے گئے اور نوٹنگھم میں مسلمانوں کی دینی رہنمائی اور تعلیم و تدریس کے کاموں میں آخر دم تک مصروف رہے۔ مولانا منظور عالمؒ کے ایک فرزند مولانا رضاء الحق سیاکھوی نوٹنگھم میں مدنی مسجد کا نظام چلا رہے ہیں اور مدنی ٹرسٹ کے تحت نوٹنگھم میں طالبات کے لیے جامعہ الہدیٰ اور شیفیلڈ میں اسی نام سے طلبہ کے لیے ایک معیاری اور دینی درسگاہ کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔

مولانا رضاء الحق کے چھوٹے بھائی مولانا مسعود الحق سیاکھوی، جو برٹش نیشنلٹی رکھتے ہیں اور ان کی اہلیہ بھی برطانوی شہری ہیں، نوٹنگھم چھوڑ کر سیاکھ آگئے ہیں اور اپنے دادا مولانا محمد ابراہیم سیاکھویؒ کے قائم کردہ دینی مرکز کے احیاء اور جامعہ ابراہیمیہ کے نام سے ایک بڑی دینی درسگاہ کی ترقی و آبادی میں کئی سالوں سے مصروف ہیں۔ مجھے ان کی دعوت پر ایک بار سیاکھ جانے کا اتفاق ہوا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ انہوں نے سہولتوں والی زندگی ترک کر کے اپنے خاندان کے پرانے دینی مرکز کو آباد کرنے کو ترجیح دی ہے۔ وہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بھی پڑھتے رہے ہیں اور میرے والد محترم کے شاگردوں میں سے ہیں، آل جموں و کشمیر جمعیۃ علماء اسلام سے وابستہ ہیں اور جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔

مولانا مسعود الحق سیاکھوی سے میری ۷ جولائی کو پلندری آزاد کشمیر میں دارالعلوم تعلیم القرآن کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ تین روز قبل علی الصبح پولیس اور خفیہ اداروں کے سینکڑوں اہلکاروں نے اچانک ان کے مدرسہ پر دھاوا بول دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں چند غیر ملکی بھی تھے۔ انہوں نے مدرسہ کے کمروں میں گھس کر کونے کونے کی تلاشی لی، چھت پر چڑھ کر پوزیشنیں سنبھال لیں، اساتذہ اور طلبہ کو ہراساں کیا اور چھوٹے چھوٹے طلبہ کو گھسیٹ کر کمروں سے نکالا۔ اس کاروائی سے پوری بستی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ان سے اس کاروائی کا سبب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ معلومات فراہم کی گئی ہیں کہ اس مدرسہ میں اسامہ بن لادن یا ان کے قریبی ساتھی چھپے ہوئے ہیں۔ مگر دو تین گھنٹے کی چھان بین کے بعد مدرسہ میں کسی قسم کی کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ملی تو وہ چپکے سے واپس چلے گئے۔

دارالعلوم تعلیم القرآن کے سالانہ جلسے کی ایک نشست میں ریاست آزاد جموں و کشمیر کے صدر میجر جنرل (ر) سردار محمد انور خان بطور مہمان خصوصی شریک تھے۔ میں نے بھی اسی نشست سے خطاب کیا۔ اس موقع پر دارالعلوم تعلیم القرآن کے مہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان کے فرزند مولانا سعید یوسف خان نے صدر آزاد کشمیر کی موجودگی میں اس کاروائی پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ اس قسم کی کارروائیاں دینی مدارس کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کی حکومت اور اس خطہ کے علماء اور دینی مدارس کے درمیان بے اعتمادی پیدا کرنے کی سازش کے مترادف ہیں، اور آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد کی موجودہ نازک اور حساس صورتحال میں یہ بہت بڑے خطرے کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب دینی مدارس حکومت سے ایسے معاملات میں تعاون کر رہے ہیں اور ان کی کھلی پیشکش موجود ہے کہ اگر کسی مدرسہ کے بارے میں کوئی شک ہو تو اس کے لیے خفیہ کاروائی کرنے اور اچانک دھاوا بولنے کی بجائے شریفانہ طریقے سے اسے چیک کیا جا سکتا ہے اور ہر دینی مدرسہ کی قیادت اس سلسلہ میں مکمل تعاون کرنے کے لیے تیار ہے تو پھر اس کے بعد سیاکھ کے جامعہ ابراہیمیہ کے خلاف اس اچانک اور خفیہ آپریشن کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ صدر آزادکشمیر سردار محمد انور خان نے اپنے خطاب میں اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ وہ اس کاروائی کا اپنے طور پر جائزہ لیں گے۔

بہرحال ایک طرف تو یہ ہو رہا ہے کہ افغانستان کے طول و عرض میں اسامہ بن لادن کی تلاش میں ناکامی کے بعد اس مہم کے لیے کام کرنے والے خفیہ اہلکار منگلا ڈیم کے کناروں کی چھان بین میں مصروف ہیں مگر دوسری طرف لندن بم دھماکوں سے لرز اٹھا ہے۔ دنیا کے اس بڑے ثقافتی اور سیاسی مرکز میں گزشتہ ہفتہ زیر زمین ریلوے کے تین استیشنوں اور ایک لوکل بس میں جو دھماکے ہوئے ہیں ان میں کم و بیش پچاس کے لگ بھگ افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے جن میں سے بعض کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ لندن جیسے پر امن شہر میں ان اچانک دھماکوں نے نہ صرف برطانیہ بلکہ پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

جہاں تک ان دھماکوں کا تعلق ہے دنیا کا کوئی بھی باشعور شخص اس قسم کی کسی کاروائی کی حمایت کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے کہ سول آبادی اور لاتعلق شہریوں کو اس طرح کے حملوں کا نشانہ بنانا سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاذ جنگ پر بھی ان عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے جو لڑائی میں براہ راست شریک نہ ہوں، تو خالص سول آبادی میں شہریوں کے اس قتل عام کی حمایت کیسے کی جا سکتی ہے؟ اس لیے دنیا بھر میں لندن کے ان دھماکوں کی مذمت کی جا رہی ہے اور اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

البتہ اس کی ذمہ داری کے حوالے سے مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں۔ مسلح کاروائیاں کرنے والے دو مسلمان گروپوں نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور عالمی میڈیا بھی اپنی خبروں اور تبصروں میں اسی طرح کا تاثر دے رہا ہے کہ یہ شاید اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ یا اسی طرز پر کام کرنے والی کسی اور مسلم تنظیم کی کارروائی ہے۔ لیکن نائن الیون کے امریکی سانحہ کی طرح سیون سیون کے مذکورہ برطانوی حادثہ کے بارے میں بھی یہ بات کہنے والوں کی کمی نہیں ہے کہ یہ ایک اعلیٰ سطح کی پلاننگ کا نتیجہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف مغرب کی اس جنگ میں شدت پیدا کرنا ہے جو دہشت گردی کے خاتمے کے عنوان سے لڑی جا رہی ہے، اور جس میں انسانی معاشرے میں اسلامی نظام کی بالادستی اور جہاد کے حوالے سے کام کرنے والے مسلمان گروہ اس جنگ کا سب سے بڑا نشانہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عالمی سطح پر یہ بات نئے سرے سے اجاگر ہو رہی ہے کہ جسے دہشت گردی قرار دے کر مغرب اس کے خلاف مسلح جنگ میں مصروف ہیں، اسے تشدد کے ساتھ ختم کرنا ممکن نہیں ہے، اور اس کے حقیقی اسباب و محرکات کو ختم کیے بغیر اس مبینہ دہشت گردی پر قابو پانے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔

مبینہ طور پر ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ ان کی یہ کاروائی عراق میں امریکی فوج کی کاروائیوں اور ان میں برطانوی فوج کی شرکت کا ردعمل ہے اور وہ اس کے ذریعے برطانوی حکومت سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ عراق سے اپنی فوج واپس بلا لے۔ یہ بات برطانوی پارلیمنٹ کے رکن جارج گیلووے نے بھی کہی ہے اور انہوں نے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برطانوی شہریوں کو مزید آزمائش میں ڈالنے کی بجائے عراق سے برطانوی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کریں۔

ان دھماکوں کا ایک اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ یہ عین اس وقت بپا کیے گئے ہیں جب برطانیہ ہی کے ایک علاقے سکاٹ لینڈ میں G۸ کے سربراہوں کی کانفرنس جاری تھی۔ گویا اس کاروائی کا مقصد صرف برطانیہ کو نہیں بلکہ دوسرے یورپی ملکوں کو بھی یہ پیغام دینا تھا کہ وہ عراق میں امریکی افواج کی مسلح کاروائیوں میں شرکت کا فیصلہ واپس لیں اور عراق سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ چنانچہ اٹلی کی طرف سے اس عندیے کا اظہار سامنے آگیا ہے کہ وہ عراق سے اپنی فوج واپس بلانے پر غور کر رہا ہے۔

ہمارے خیال میں اس مسئلہ کا اصل حل یہی ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کی فوج کشی کا ساتھ دینے والے ممالک ہر معاملے میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کی پالیسی پر نظر ثانی کریں اور پوری صورتحال کا ازسرنو جائزہ لیں۔ امریکہ ہر مسئلہ کو طاقت کے زور پر حل کرنے کے درپے ہے، اس نے اقوام متحدہ یا عالمی برادری سے ’’دہشت گردی‘‘ کا کوئی متفقہ مفہوم اور تعریف طے کرائے بغیر اپنے ہر مخالف کو دہشت گرد قرار دینے کی روش اختیار کر رکھی ہے اور پورا عالم اسلام اس کی زد میں ہے۔ وہ مسلمانوں کو بندوق کی گولی کے ذریعے اپنے نظام، اپنی تہذیب اور اپنی بالادستی کے حق میں سرنڈر کرنا چاہتا ہے مگر دنیا بھر کے باغیر مسلمان اسے قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ آنکھیں بند کر کے امریکہ کا ساتھ دینے والے ملکوں اور اداروں کو مسلمانوں کا موقف اور پوزیشن سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس حقیقت کا بہرحال ادراک کر لینا چاہیے کہ مسلمانوں کو ان کے دین، تہذیب اور روایات سے طاقت کے بل پر دستبردار کرانے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ دنیا کو مسلمانوں کا جداگانہ تشخص بہرحال تسلیم کرنا ہوگا، ان کے فکر و فلسفہ اور روایات و اقدار کا احترام کرنا ہوگا، اور گولی اور طاقت کی بجائے ان سے استدلال اور منطق کی زبان میں بات کرنا ہوگی۔ ورنہ اس جنگ کا دائرہ روز بروز پھیلتا جائے گا اور ان لوگوں کی آواز بھی بتدریج مدھم ہوتی چلی جائے گی جو گولی کی بجائے دلیل کی زبان پر یقین رکھتے ہیں اور مغرب کے ساتھ باوقار مکالمے اور آزادانہ مفاہمت کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter