بعد الحمد والصلوٰۃ۔ المرکز الاسلامی بنوں میں حاضری کی ایک عرصہ سے خواہش تھی مگر ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ حضرت مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمیؒ ہمارے پرانے ساتھیوں میں سے تھے، ہم نے جمعیۃ طلباء اسلام اور پھر جمعیۃ علماء اسلام میں ایک عرصہ تک اکٹھے کام کیا ہے، ان کا یہ کام تو خود میرے ذوق کا کام ہے کہ آج کے جدید مسائل کا علمی حل اجتماعی طور پر تلاش کیا جائے اور علمی مسائل میں باہمی مشاورت اور علمی مذاکرہ کو ذریعہ بنایا جائے۔ یہی حنفیت کی روح ہے اور حنفی فقہ کا امتیاز ہے جس کا ذوق اب بہت کم ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت میں حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ فاضل دیوبند اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہم نے اس طرز کے کام کا آغاز کیا اور خاصی پیشرفت کی تو آرزو پیدا ہوئی کہ پاکستان میں بھی اس طرح کام ہو۔
مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمیؒ نے فقہی امور پر علمی مباحثوں اور اجتماعات کا اہتمام کیا تو بے حد خوشی ہوئی اور تعجب بھی ہوا کہ جو کام کراچی، لاہور یا اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں ہونا چاہیے وہ بنوں جیسے پسماندہ اور دور دراز شہر میں ہو رہا ہے، بہرحال یہ مقدر کی بات ہے، اللہ تعالیٰ جس سے کام لے لیں۔ شاہ صاحبؒ نے زندگی میں ان اجتماعات کے لیے ہر بار دعوت دی مگر ہر بار کوئی نہ کوئی عذر حائل ہو جاتا تھا، ایک بار تو انہوں نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا مگر وہ حاضری آج نصیب ہو رہی ہے۔ جامعہ کا نظام دیکھ کر خوشی ہوئی ہے اور المرکز الاسلامی کی علمی سرگرمیوں سے تو آگاہی ہوتی ہی رہتی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی یہ دیکھ کر ہوئی ہے کہ مولانا سید نصیب علی الہاشمیؒ کا کام اور ذمہ داریاں ان کے ہونہار فرزند مولانا سید نسیم علی الہاشمی سلمہ نے سنبھال لی ہیں اور وہ انہی جیسا ذوق رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے مرحوم والد کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مجھے کہا گیا ہے کہ اساتذہ اور طلبہ کے سامنے کچھ معروضات پیش کروں، تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں ہے اس لیے اختصار کے ساتھ دو تین گزارشات پر اکتفا کروں گا۔
- پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں دینی و علمی خدمات کے لیے اپنے دور کے ماحول اور تقاضوں کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے ورنہ ہم دین اور علم کی صحیح خدمت نہیں کر پائیں گے۔ ہر دور میں ہمارے اکابر نے وقت کی ضروریات اور ماحول کو دیکھ کر اپنی ترجیحات اور طریق کار کا تعین کیا ہے اور آج بھی ہم سب کے لیے یہی صحیح راہ عمل ہے۔
- دوسری گزارش یہ ہے کہ ہمیں حالات کی تبدیلیوں پر نظر رکھنی چاہیے اور اپنے کام کی ترتیب اور درجہ بندی میں ان کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ میں گزشتہ نصف صدی کے دوران ہونے والی متعدد تبدیلیوں میں سے صرف دو کی طرف آپ حضرات کو متوجہ کرنا چاہوں گا۔
- کچھ عرصہ پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ ملک کے عام آدمی اور جدید پڑھے لکھے افراد کے سامنے دین کے بارے میں یا دینی مسائل کے حوالہ سے جو معلومات ہم پیش کرتے تھے وہ انہی معلومات پر انحصار کرتے تھے، ان کے پاس معلومات خود حاصل کرنے کے ذرائع نہیں ہوتے تھے، اس لیے وہ ہماری مہیا کردہ معلومات پر انحصار کر کے ہمارے فیصلے اور فتوے کو آنکھیں بند کر کے مان لیا کرتے تھے۔ آج یہ صورتحال نہیں ہے، معلومات حاصل کرنے کے بہت سے دیگر ذرائع عام لوگوں کو میسر ہیں، ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ اور جدید دانشوروں کے حلقوں نے عام آدمی کے گرد دین کے مسائل کے بارے میں معلومات کا متنوع اور وسیع حصار قائم کر دیا ہے۔ یہ معلومات صحیح ہوں یا نہیں اس سے قطع نظر وہ بہرحال عام آدمی تک پہنچتی ہیں، ہر پڑھا لکھا شخص ان کا ہماری مہیا کردہ معلومات سے موازنہ بھی کرتا ہے اور جو بات اس کے ذہن کو اپیل کرے وہ اسے قبول کر لیتا ہے۔ یہ ہمارے دور کا المیہ ہے کہ علم کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے مگر معلومات کا دائرہ دن بدن وسیع ہو رہا ہے، علم کے بغیر معلومات جو طوفان کھڑا کرتی ہیں وہ ہمارے اردگرد ہر طرف کھڑے ہو رہے ہیں مگر ہم اس تبدیلی کا احساس کیے بغیر اپنی پرانی طرز پر قائم ہیں جو آج کے دور میں کافی نہیں ہے۔ ہم آج کے لوگوں کو اور بالخصوص جدید تعلیم یافتہ حضرات کو ان معلومات کے ماحول سے الگ تو نہیں کر سکتے اور نہ ہی انہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ یہ معلومات حاصل نہ کریں، جس نوجوان کو اپنی میز پر بیٹھے انٹرنیٹ پر ہر زمانے کی، ہر علاقے کی اور ہر نوع کی معلومات حاصل کرنے کی سہولت میسر ہے، اسے آپ کی یہ بات کبھی اپیل نہیں کرے گی کہ وہ انٹرنیٹ نہ دیکھے اور ٹی وی پروگراموں اور اخبارات و جرائد کے فیچروں سے الگ تھلگ رہے۔ اس کے لیے آپ کو خود معلومات کے اس سمندر میں گھسنا ہو گا اور محنت کر کے ان وسیع تر معلومات کے تناظر میں دینی راہ نمائی کا اہتمام کرنا ہو گا۔
- دوسری تبدیلی ہمارے حالات میں یہ آئی ہے کہ آج کے متجددین کی تکنیک پہلوں سے مختلف ہے، آج آپ کو جدید دانشوروں اور متجددین کی طرف سے کسی بات کا دوٹوک انکار سننے کو نہیں ملے گا، وہ ہر بات کو ماننے کی بات کریں گے، قرآن و سنت اور فقہ و تاریخ میں سے کسی بات کی نفی نہیں کریں گے البتہ بہت اچھی گفتگو کرتے کرتے کسی جزوی مسئلہ کو عنوان بنا کر شک کا بیج اپنے سننے والوں کے دلوں میں ڈال دیں گے۔ مسئلہ کوئی اہم نہیں ہو گا، وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے، مگر اس کے حوالہ سے جو شک وہ پیدا کریں گے وہ خود مسئلہ بن جائے گا۔ مثلاً کوئی صاحب کسی ٹی وی چینل میں کسی دانشور کی متاثر کن گفتگو سنتے سنتے اس کی کسی بات سے دین کے کسی مسئلہ کے بارے میں شک میں پڑ گئے ہیں تو وہ اس شک کو دور کرنے کے لیے ظاہر ہے کہ اپنے قریب کے کسی عالم دین سے رجوع کریں گے، مگر اس غریب عالم کی اس مسئلہ پر تیاری نہیں ہو گی اور ہو بھی نہیں سکتی، اس لیے کہ جس نے شک ڈالا ہے اس نے پوری تیاری کے ساتھ ڈالا ہے اور پوری تکنیک کے ساتھ ڈالا ہے، اور جس سے وضاحت طلب کی جا رہی ہے اسے ہو سکتا ہے سرے سے اس مسئلہ کی نوعیت کا ہی علم نہ ہو۔
اب ہمارے پاس اس طرح کا کوئی نوجوان آجائے یا کوئی پڑھا لکھا دوست ہم سے ایسے کسی مسئلہ کے بارے میں سوال کرے تو عام طور پر طرز عمل کیا ہوتا ہے؟ یا تو ہم اس کو ڈانٹ دیں گے کہ اس طرح کے پروگرام کیوں دیکھتے ہو اور اس قسم کے لوگوں کی باتیں کیوں سنتے ہو؟ یہ بات ظاہر ہے اس کے سوال کا جواب نہیں ہے اور نہ ہی اس کو مطمئن کرے گی۔ اور یا پھر ہم کوئی ادھوری اور گول مول سی بات کسی تیاری اور دلیل کے بغیر اس سے کہہ دیں گے جس سے اس کا شک مزید پختہ ہو جائے گا، خود ہمارے بارے میں اس کا تاثر منفی ہو جائے گا، اور ہماری ثقاہت اور اعتماد مجروح ہو گا۔ جس کے نقصانات ہمارے لیے بھی ہیں اور دین کے لیے بھی، چنانچہ ہم اس صورتحال میں عام حلقوں اور پڑھے لکھے ماحول میں اپنا اعتماد کھوتے جا رہے ہیں۔
میری دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ سے گزارش ہے کہ وہ اس صورتحال پر نظر رکھیں اور حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے آنکھیں بند نہ کریں، مقابلہ بہت سخت ہے اور ہمارے خلاف مورچے بڑھتے جا رہے ہیں، ہم پرانے ہتھیاروں سے آج کی یہ جنگ نہیں جیت سکتے، ہمیں اپنی علمی تیاری کا دائرہ وسیع کرنا ہو گا اور طریق کار اور ترجیحات کا بھی از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔
ان گزارشات کے ساتھ میں جامعۃ المرکز الاسلامی کی دینی و علمی خدمات پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں اور مولانا سید نسیم علی شاہ الہاشمی اور ان کے رفقاء نیز جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت انہیں مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمیؒ کے لگائے ہوئے اس چمنستان کی آبیاری کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔