’’مجلس صوت الاسلام‘‘ جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی کے ڈائریکٹر مولانا جمیل فاروقی کی دعوت پر ۶، ۷، ۸ نومبر کو پشاور اور مردان میں حاضری کا موقع ملا۔ پشاور میں مجلس صوت الاسلام کا تربیتی مرکز مولانا محمد حلیم صدیقی کی نگرانی میں کام کر رہا ہے جہاں فارغ التحصیل علماء کرام کے لیے عصری مسائل اور ضروریات کے ادراک کے حوالہ سے ایک سالہ کورس ہوتا ہے۔ اس کلاس میں ’’انسانی حقوق اور اسلامی تعلیمات‘‘ کے موضوع پر تین چار نشستوں میں تفصیلی گفتگو ہوئی، جبکہ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد کی دعوت پر شیخ زید اسلامک سنٹر میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کی نشست میں ’’اسلامی تحقیق و مطالعہ کے حوالہ سے جدید تحدیات‘‘ کے عنوان پر کچھ گزارشات پیش کیں، اور اس سے اگلے روز مردان کی عبد الولی خان یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سر براہ مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی کی دعوت پر وہاں کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ اور طالبات سے بھی مذکورہ بالا عنوان پر گفتگو کا موقع ملا۔ پشاور یونیورسٹی اور مردان یونیورسٹی کی دونوں نشستوں میں عنوان ایک ہی تھا اور گفتگو بھی ملی جلی تھی اس گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ معزز اساتذہ کرام اور عزیز طلبہ و طالبات! ارباب فکر و دانش کے اس اجتماع میں شرکت اور گفتگو کا موقع فراہم کرنے پر محترم ڈاکٹر دوست محمد صاحب، مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی اور ان کے رفقاء کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔ مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ ان طلبہ و طالبات سے مخاطب ہوں جو تعلیم کا ایک دور مکمل کر کے تحقیق، ریسرچ اور مطالعہ کے نئے دور میں داخل ہوئے ہیں اور نسل انسانی کی راہنمائی کا فریضہ سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تحقیق و مطالعہ کے دائرے اور سطحیں تو بہت مختلف اور متنوع ہیں جو سینکڑوں شعبوں میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن چونکہ ہم شعبہ اسلامیات میں بیٹھے ہیں اور آپ سب حضرات کے موضوعات بھی اسی شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے میں ’’اسلامیات‘‘ اور ’’تحدّیات‘‘ کے دو پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا، اور آغاز ایک ایسے پہلو سے کروں گا جس کا اسلامیات کے ساتھ براہِ راست تعلق تو بظاہر دکھائی نہیں دیتا لیکن بالکل بے تعلق بھی نہیں ہے۔ وہ یہ کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں معاصر اقوام سے بہت پیچھے ہیں اور اس کا خمیازہ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔
تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ ہماری دو بڑی حکومتوں خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ارتقا کے دور میں جو بے توجہی اور غفلت برتی ہے، آج امت مسلمہ کو اس کے تلخ نتائج اور ثمرات کا سامنا ہے اور خدا جانے کب تک ہم اس صورتحال سے دو چار رہیں گے۔ اندلس میں مسلمان حکومتوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دی تھی اور کام کا آغاز کر دیا تھا، آج مغرب کی سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے ارتقا کی بنیاد اسی دور کی تحقیقات پر ہے، لیکن ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیادیں فراہم کر کے میدان سے ہٹ گئے اور اقتدار سے محروم ہو کر کارنر ہو گئے، جبکہ انہی بنیادوں پر مغرب نے سائنسی ترقی، صنعتی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی بلند و بالا عمارت کھڑی کر دی۔ خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت اگر اس طرف توجہ دیتیں تو ہم اس ورثہ کو سنبھال سکتے تھے لیکن انہیں ان کاموں کی فرصت نہیں تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اس میدان سے آؤٹ ہو گئے اور مسلسل دوسروں کے دست نگر ہیں۔
میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں امت مسلمہ کے معاصر اقوام سے پیچھے بلکہ بہت پیچھے رہ جانے میں صرف ہماری غفلت کار فرما نہیں ہے، بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر اجارہ داری حاصل کرنے والی قوموں کی اجارہ دارانہ ذہنیت کا بھی اس میں بڑا حصہ ہے۔ اسی وجہ سے آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ریسرچ، تحقیق اور تجربات کے مواقع مسلمانوں کو اس درجہ میں حاصل نہیں ہیں جو دوسری قوموں کو میسر ہیں۔ ایک خاص حد تک پہنچ جانے کے بعد کوئی نہ کوئی ریڈ لائن سامنے آجاتی ہے جو مسلمان محققین اور سائنس دانوں کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے اور ہم اس سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ڈاکٹر عبد القدیر خان ہیں جن کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ان خفیہ ریڈ لائنز کی نشاندہی کرتا ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کو ایک حد سے آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے قائم کی گئی ہیں، یہ ریڈ لائنز بظاہر نظر نہیں آتی لیکن جونہی کوئی مسلمان انہیں کراس کرنے کی طرف بڑھتا ہے ان کی لائٹس خوبخود جلنے لگ جاتی ہیں۔
اس صورتحال کے نقصانات کا اندازہ کرنا ہو تو ایک مثال سامنے رکھ لیں کہ اب سے ایک صدی قبل عرب ممالک میں تیل کے زیر زمین چشمے دریافت ہوئے تو ہم مسلمان زمین کے اندر سے تیل نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، تیل نکال کر اسے ریفائن کرنے کی صلاحیت سے محروم تھے، اور ریفائن کر کے اسے مارکیٹ کرنے کی صلاحیت بھی ہمارے پاس نہیں تھی۔ اس لیے ہم نے مغربی ممالک کی کمپنیوں کو بلایا اور یہ سارا کام ان کے حوالہ کر دیا۔ ان کمپنیوں کے سرمائے کو سنبھالنے کے لیے بینک آئے، پھر ان ملکوں کی فوجیں آئیں، اور آج جو کچھ ہو رہا یہ وہ سب کے سامنے ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اس جال سے نکلنے کے راستے تلاش کرنا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں معاصر اقوام کے ساتھ برابری کی سطح پر آنے کی محنت کرنا بھی ملی اور دینی ضروریات میں سے ہے اور آج کی تحدّیات اور چیلنجز میں سر فہرست ہے۔
اس کے بعد میں اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے تحدّیات کی طرف آؤں گا اور انہیں دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہوں گا۔ ایک حصہ یہ کہ اس وقت عالمی سطح پر جو ثقافتی کشمکش جاری ہے اور مغربی فلسفہ و ثقافت کی یلغار سے اسلامی شریعت کے احکام اور مسلمانوں کی ثقافتی روایات و اقدار کو جو خطرات لاحق ہیں ان کی نشاندہی اور ان کے سدباب کے لیے مطالعہ اور ریسرچ ہماری ملی ضروریات میں سے ہے، اور خاص طور پر انسانی حقوق کے عالمی منشور اور نظام و قانون کا تجزیہ اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان کی موافقت اور اختلاف کی حدود کا تعین اہم ترین علمی و فکری ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے، جس طرف ہمارے دینی علمی مراکز کے ساتھ جامعات اور یونیورسٹیوں میں اسلامک اسٹڈیز کے شعبوں کو بھی توجہ دینی چاہیے۔
- مغرب کے خاندانی نظام اور مسلمانوں کے خاندانی نظام میں کیا فرق ہے؟
- عورت اور مرد میں مساوات کے عملی مسائل کیا ہیں؟
- آزادی رائے اور آزادیٔ مذہب کے دائرے کیا ہیں؟
- ریاست و حکومت کا مذہب کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
- مذہبی اکثریت و اقلیت کے باہمی معاملات کے اصول کیا ہیں؟
- رفاہی ریاست کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور روایات کیا ہیں؟
- پارلیمنٹ کی خود مختاری اور قرآن و سنت کی بالا دستی کا باہمی جوڑ کیا ہے؟
- انسانی حقوق کے کون سے پہلوؤں کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمارے تحفظات ہیں؟
- اور مغربی جمہوریت اور اسلامی شورائیت میں حد فاصل کیا ہے؟
یہ اور اس نوعیت کے دیگر مسائل اس شعبہ میں ہمارے لیے ’’تحدیات‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں اور تحقیق و مطالعہ کے ذوق سے بہرہ ور حضرات کی توجہ کے طالب ہیں۔ یہ مسائل اور چیلنجز تو وہ ہیں جن سے ہم اس وقت نبرد آزما ہیں اور جن کے حوالہ سے عالم اسلام میں فکری و تہذیبی کشمکش جاری ہے۔ ان مسائل کا قرآن و سنت اور اسلامی روایات کی روشنی میں حل تلاش کرنا اور اس سلسلہ میں امت مسلمہ کی راہنمائی کرنا ہمارے علمی و فکری مراکز کی ذمہ داری ہے، لیکن میں اس سے آگے کے ایک اور مرحلہ کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مغربی دانش کی ایک سطح وہ ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کے خلاف صف آرا ہے اور اسلامی تعلیمات و روایات سے مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے، جبکہ ایک سطح مغرب کی فکر و دانش کی یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کے مستقبل کے تناظر میں قرآن کریم کی طرف رجوع کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے جس کے بارے میں چند حالیہ واقعات کو سامنے رکھنا مناسب ہو گا۔
کچھ عرصہ قبل عالمی معیشت کے بحران کے سلسلہ میں یہ خبر اخبارات کی زینت بنی کہ پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے اس بحران کا جائزہ لینے کے لیے اٹلی کے معاشی ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی، جنہوں نے عالمی معیشت کے مروجہ نظام کے بارے میں اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا کہ یہ نظام زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں ہے اور عالمی معیشت کو صحیح ٹریک پر لانے کے لیے ان معاشی اصولوں سے راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے ان کی مراد غیر سودی معاشی نظام ہے کیونکہ عالمی معاشی ماہرین ایک عرصہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ سود نے معیشت کو فائدہ دینے کی بجائے نقصانات دیے ہیں اور موجود معاشی عدم توازن جس کا دائرہ دن بدن پھیلتا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ سودی معیشت ہے۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ بات اور بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلامی بینکاری یعنی غیر سودی بینکاری کا رجحان خود مغربی ممالک کے بینکوں میں مسلسل بڑھ رہا ہے، غیر سودی سر مایہ کاری کو نسبتاً زیادہ محفوظ سمجھا جانے لگا ہے، اور مشارکت و مضاربت کی بنیاد پر غیر سودی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے لندن اور پیرس میں درون خانہ یہ کشمکش شروع ہو گئی ہے کہ اس کا مرکز کون ہو گا؟ اس وقت غیر سودی بینکاری کا بڑا مرکز لندن ہے جبکہ فرانس کی خواہش ہے کہ اس مرکزیت کو پیرس کی طرف لے جایا جائے۔ مجھے ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا مفتی برکت اللہ نے بتایا ہے، جو انڈیا سے تعلق رکھتے ہیں، فاضل دیوبند ہیں اور ایک عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ فرانس جو مسلمان عورت کے چہرے پر نقاب برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اس کی کابینہ نے گزشتہ دنوں اپنے معاشی قوانین میں ایسی تبدیلیوں کی منظوری دی ہے جن کا مقصد اسلامی بینکاری کی مرکزیت کو پیرس کی طرف کھینچ لے جانے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
مجھے اس سے اس وقت بحث نہیں ہے کہ جس اسلامی بینکاری کی مرکزیت کو اپنے پاس لے جانے کے لیے لندن اور پیرس میں کشمکش ہو رہی ہے اس کی اسلامیت کی سطح کیا ہے؟ میں صرف یہ بات محققین کی توجہ کے لیے پیش کر رہا ہوں کہ چونکہ مغرب کے نظام کی بنیاد صرف سرمایہ اور سرمایہ داری پر ہے اس لیے وہ محفوظ سرمایہ کاری اور دیگر معاشی مفادات کے لیے اسلامی بینکاری کو قبول کرنے میں بھی حجاب محسوس نہیں کرے گا۔ مغرب کو سرمائے سے غرض ہے اور سرمایہ دار کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ سرمایہ جدھر سے آئے اور جیسے بھی محفوظ رہے وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ چونکہ غیر سودی بینکاری میں معاشی مفادات نظر آنے لگے ہیں اس لیے اسلامی بینکاری کو راستہ دینے کے لیے مغرب کی بینکار سنجیدگی کے ساتھ متوجہ ہو رہے ہیں۔ اور میں اسے بھی مسلمانوں کے علمی مراکز، دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اسلامیات کے لیے تحدی اور چیلنج ہی تصور کرتا ہوں۔
اسی نوعیت کی ایک اور پیشرفت پر بھی نظر ڈال لیں کہ ماحولیات کا مسئلہ اس وقت عالمی توجہ کے اہم ترین مسائل میں سے ہے، فضا کی آلودگی، تابکاری اثرات، کیمیاوی اثرات اور پانی کی آلودگی مستقل مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے سائنسدان مسلسل ڈرا رہے ہیں کہ پینے کے قابل پانی کا حصول مستقبل قریب میں انتہائی مشکل ہو جائے گا اور فضائی آلودگی اسی طرح بڑھتی رہی تو سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔ گزشتہ سال جون میں اس مسئلہ پر نیویارک میں ایک عالمی کانفرنس ہوئی جہاں بین الاقوامی سطح کے ماہرین نے اس سلسلہ میں اپنے تجزیے اور تجاویز پیش کیں، اس موقع پر برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے بھی خطاب کیا اور ان کے خطاب کے جو جملے مختلف چھلنیوں سے گزرتے ہوئے امریکی پریس میں شائع ہوئے، ان میں سے ایک جملہ یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کو ماحولیات کے حوالہ سے کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے ان معاشرتی قوانین کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو قرآن کریم نے بیان کیے ہیں۔ اس کی تفصیل وہی بتا سکیں گے لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی طرف رجوع کی ضرورت اب عالمی سطح پر پھر سے محسوس ہونے لگی ہے جو اسلامی تعلیمات کے ماہرین سے توجہ کی طلبگار ہے۔
اس کے ساتھ اس بات کو بھی شامل کر لیں کہ مغربی ملکوں میں جو لوگ مسلمان ہو رہے ہیں ان کے بارے میں جہاں مغربی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے وہاں اس بات پر ریسرچ اور تحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے کہ مغربی ممالک اور یورپین نسلوں کے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کے اسلام قبول کرنے کی وجہ اور اس کے اسباب کیا ہیں؟ چنانچہ ایک معروف انگریز نو مسلم دانشور ڈاکٹر یحییٰ برٹ نے اسے باقاعدہ طور پر اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالہ کا موضوع بنایا ہے اور تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ یورپ میں قبول اسلام کرنے والے یورپین نسل کے لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی سب سے بڑی وجہ قرآن کریم کا مطالعہ اور اسٹڈی ہے۔ ڈاکٹر یحییٰ برٹ کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سال کے دوران یورپ میں یورپین نسلوں کے کم و بیش تیرہ ہزار افراد نے اسلام قبول کیا ہے اور ان میں اسی (۸۰) فیصد کے لگ بھگ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہے اور اس مطالعہ اور اسٹڈی کے نتیجے میں مسلمان ہوئے ہیں۔
اس لیے میں یونیورسٹیوں اور دینی مدارس میں تحقیق اور ریسرچ کے شعبوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ حال کے موضوعات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے ان امکانات پر بھی نظر رکھیں اور انسانی سوسائٹی کے مستقبل کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے تخصصات، ایم فل، پی ایچ ڈی اور دیگر دائروں میں تحقیقات کے نئے زاویوں اور پہلوؤں کی طرف توجہ دیں، یہ ہماری ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی ہے۔ مستقبل کے امکانات کو اجاگر کرنا اور متوقع خدشات و خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے صحیح سمت راہنمائی کرنا آج کے دور کی سب سے بڑی تحدی اور چیلنج ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر پورا اترنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔