افغان صدر حامد کرزئی کی خوش فہمی اور غلط فہمی

   
۲۷ دسمبر ۲۰۰۱ء

بون معاہدہ میں تشکیل پانے والی عبوری افغان حکومت کے سربراہ حامد کرزئی اپنے منصب کا حلف اٹھانے سے قبل افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ سے ملاقات کے لیے روم گئے اور وہاں سے واپسی پر عبوری افغان حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق روم میں ایک گفتگو کے دوران انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وہ کٹھ پتلی ہیں اور کہا کہ وہ آزادی کے ساتھ کام کریں گے۔ انہوں نے اس گفتگو میں کہا ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے طالبان کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان صلح کرانے کے لیے پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور اس کی وجہ انتہا پسند طالبان تھے۔ حامد کرزئی نے کہا کہ میں الحمد للہ مسلمان ہوں، افغان معاشرے کو اچھی طرح جاتا ہوں، اسلامی روایات یہاں برقرار رہیں گی اور دینی مدارس پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ القاعدہ، اسامہ بن لادن، اور ملا عمر اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔

جہاں تک حامد کرزئی کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ ’’وہ کٹھ پتلی نہیں ہیں‘‘ اس کے حوالے سے اب تک کا پس منظر تو یہ ہے کہ افغانستان میں پانچ سال سے چلی آنے والی ایک حکومت کو فوج کشی اور خوفناک بمباری کے ذریعے ختم کر کے بون میں انہی جارح قوتوں کی مشاورت اور سرپرستی میں تشکیل پانے والے فورم میں انہیں عبوری افغان حکومت کا سربراہ چنا گیا ہے، وہ امریکی اتحاد کی فوجی قوت کے زور پر کابل میں اقتدار سنبھال رہے ہیں، اور ان کی حکومت کے تحفظ کے لیے برطانیہ کی زیر قیادت ایک کثیر الملکی فوج کی افغانستان میں موجودگی ضروری سمجھی جا رہی ہے۔ اس فضا میں اگر وہ اپنے کٹھ پتلی ہونے کی نفی کر کے خود کو خودمختار حکمران تصور کر رہے ہیں تو ان سے خوش فہمی کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔ کیونکہ وہ اس میں تنہا نہیں ہیں اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے مسلم حکمران اس خوش فہمی میں ان کے ساتھ شریک ہیں جو خود کو آزاد و خود مختار حکمران سمجھتے ہیں، لیکن جب خود اپنے ملکوں کی داخلی پالیسیوں کے حوالے سے عالمی قوتوں اور مغربی آقاؤں کے مفادات کی ’’ریڈ لائن‘‘ کے قریب پہنچ کر عبرتناک جھرجھری کے ساتھ انہیں یوٹرن لینا پڑتا ہے تو ان کی ساری آزادی اور خودمختاری کا مزہ کرکرا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے اگر ان خود مختار اور آزاد مسلم حکمرانوں کی صف میں ایک اور حکمران کا اضافہ ہو گیا ہے تو ہمارے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، جہاں اتنے سارے بھگت رہے ہیں وہاں ایک اور سہی!

البتہ افغانستان میں اسلامی روایات کو برقرار رکھنے اور ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن کے تاریخ کا حصہ بن جانے کی بات پر ہمیں حامد کرزئی سے کچھ عرض کرنا ہے، کیونکہ ان دو باتوں کا تعلق خوش فہمی سے نہیں بلکہ غلط فہمی سے ہے۔ اور اگر وہ اپنے اقتدار کا آغاز ہی اس قسم کی غلط فہمیوں سے کریں گے تو مستقبل کا سفر ان کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔

لگتا ہے کہ دیگر کئی مسلم حکمرانوں کی طرح حامد کرزئی نے بھی اس ’’مکسچر‘‘ کو اسلامی روایات سمجھ رکھا ہے جو غلامی اور زوال کے دور میں ملتِ اسلامیہ میں جنم لینے والی معاشرتی خرابیوں، مغربی کلچر کے ادھورے اثرات، اور علاقائی ثقافتوں کے باقی ماندہ نشانات کے اختلاط سے وجود میں آیا ہے، اور جو اس وقت مجموعی طور پر عالمِ اسلام کی ثقافت بن کر رہ گیا ہے۔ غالباً اسی ’’ملغوبہ کلچر‘‘ کو اسلامی روایات سمجھ کر حامد کرزئی انہیں برقرار رکھنے کی بات کر رہے ہیں، اور یہیں سے حامد کرزئی اور ان کے ہمنوا دیگر مسلم حکمران غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ دنیا بھر کا عام مسلمان جو قرآن کریم پڑھتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سنت سے واقفیت رکھتا ہے، وہ عملی طور پر قرآن و سنت سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، نظری اور فکری طور پر اس کے نزدیک اسلامی کلچر اور اسلامی روایات وہی ہیں جن کی جڑیں قرآن و سنت میں ہیں۔ اور دنیا کے کسی بھی بے عمل بلکہ بد عمل مسلمان سے بات کر کے دیکھ لیں، اسے آپ اسلامی روایات کے اس زندہ اور عملی سرچشمہ سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں پائیں گے۔

ہمارے حکمرانوں اور دانشوروں کو غلطی یہیں پر لگتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی موجودہ عملی صورتحال کو حتمی سمجھ لیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ جبکہ اصل چیز عقیدہ اور فکر ہے، اور موجودہ عالمی تناظر میں عام مسلمانوں کے عقیدہ و فکر اور عمل و کردار میں یہ واضح فرق موجود ہے کہ عملی طور پر وہ زیادہ سے زیادہ بے عملی بلکہ بد عملی کا شکار ہو سکتے ہیں، اور ایک عام انسان کی فطرت کے مطابق ہر قسم کی سہولت، آسائش اور گنجائش کے بھی خواہاں ہوں گے، لیکن جب بات عقیدہ و فکر اور کمٹمنٹ کی آئے گی تو وہ قرآن کریم کے کسی ایک جملہ اور سنتِ نبویؐ کے کسی ایک پہلو سے دستبرداری کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اور اگر خود بھی انہیں کسی مرحلہ پر اپنے عقیدہ اور موجودہ عمل میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا دو ٹوک فیصلہ کرنا پڑے تو مٹھی بھر مغرب زدہ افراد کے سوا باقی ساری امت کا فیصلہ عقیدہ کے حق میں ہو گا۔

اس لیے اگر حامد کرزئی افغانستان میں اسلامی روایات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو وہ اقدار و روایات وہی ہیں جن کی جڑیں قرآن و سنت میں ہیں اور جن کے اَحیا و نفوذ پر طالبان حکومت کو عالمی دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ اور اگر اسلامی روایات کے نام پر وہ ملغوبہ کلچر کو واپس لانا چاہتے ہیں جس میں قرآن کریم کی تلاوت اور رقص و سرور ساتھ ساتھ چلیں، عدالتوں میں شرعی قوانین کے ساتھ ساتھ بینکوں میں سودی نظام کا رواج ہو، اور نماز روزہ کے ورد کے ساتھ ساتھ جوئے اور حرام کاری کے اڈے بھی آباد ہوں، تو الگ بات ہے، مگر اسے اسلامی روایات اور کلچر کہنے کا حوصلہ حامد کرزئی ہی کر سکتے ہیں، کسی عام مسلمان میں شاید اتنی ہمت نہ ہو۔

باقی رہی یہ بات کہ حامد کرزئی کے خیال میں ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں تو یہ بھی ان کی غلط فہمی ہے۔ اس لیے کہ ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن دو افراد کا نام نہیں، بلکہ وہ ایک سوچ، فکر اور فلسفہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اور ان کے عسکری میدان میں پیچھے ہٹ جانے سے اس سوچ، فکر اور فلسفہ کا وجود ختم نہیں ہو گیا، بلکہ اس عسکری پسپائی نے انہیں نئے سرے سے اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے اور نئی صف بندی کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ حامد کرزئی کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ملا محمد عمر، اسامہ بن لادن اور ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں بلکہ کروڑوں ہمنواؤں کی یہ سوچ اور فکر حامد کرزئی کے ممدوح اور محسن امریکہ بہادر اور اس کے اتحادیوں کے اس ظلم و جبر اور تشدد و دہشت کا نتیجہ اور ردعمل ہے، جس کے ذریعے انہوں نے

  • عالمِ اسلام کے بے پناہ وسائل اور دولت پر قبضہ کر رکھا ہے،
  • مسلم ممالک کے جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم و صلاحیت میں ایک حد سے آگے بڑھنے کا راستہ روکا ہوا ہے،
  • عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے مسلم ممالک کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں کو اپنے مفادات کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے،
  • خلیج عرب میں فوجی قوت کے زور پر تیل کے چشموں پر قبضہ جمایا ہوا ہے،
  • وسطی ایشیا کے تیل اور معدنیات کے ذخائر پر قبضے کے لیے حامد کرزئی کے کندھے پر بندوق رکھ دی ہے،
  • اور دنیا کے کسی بھی خطہ میں کسی نظریاتی اسلامی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے اپنے تمام وسائل وقف کر رکھے ہیں۔

اس لیے جب تک عالمی استحصال، جبر و تشدد، دھونس، دھاندلی اور طاقت کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے مقاصد و مفادات حاصل کرنے کا یہ عمل موجود ہے، اس کا ردعمل بھی موجود رہے گا اور کسی نہ کسی طرح اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہے گا۔ سلطان ٹیپو شہیدؒ کی لاش پر کھڑے ہو کر جس انگریز جنرل نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘ وہ بھی اسی غلط فہمی کا شکار تھا کہ طاقت اور قوت ہی سب کچھ ہے، اور جنوبی ہندوستان کی اسلامی ریاست ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ کو ختم کر کے انگریز ہمیشہ کے لیے ہندوستان کے مالک ہو گئے ہیں۔ لیکن تاریخ نے اس کی غلط فہمی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہنے دی اور سلطان ٹیپوؒ کی زندہ اور متحرک سوچ نے مختلف رویوں میں فرنگی سامراج پر وقتاً فوقتاً چرکے لگا لگا کر اسے بالآخر جنوبی ایشیا سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس لیے ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن کے عسکری میدان سے ہٹ جانے کے باوجود ان کی سوچ، فکر، فلسفہ اور تحریک زندہ ہے اور اس وقت تک زندہ و متحرک رہے گی جب تک ملتِ اسلامیہ کے دینی تشخص، مسلم ممالک کی آزادی و خود مختاری اور عالمِ اسلام کے وسائل کی دولت کو امریکی اتحاد جیسے عالمی دہشت گردوں سے مکمل نجات اور آزادی حاصل نہیں ہو جاتی۔

   
2016ء سے
Flag Counter