۸ اکتوبر کو چناب نگر میں مجلسِ احرارِ اسلام پاکستان کی سالانہ کانفرنس سے خطاب کا موقع ملا جسے ضروری ردوبدل کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت خواجہ ناصر الدین خاکوانی، امیر محترم سید محمد کفیل شاہ بخاری، اکابر علمائے کرام، محترم بزرگو اور دوستو! حسبِ معمول سب سے پہلے دو باتوں پر مجلسِ احرارِ اسلام کا شکریہ ادا کروں گا۔ ایک تو اس پر کہ انہوں نے مورچہ قائم رکھا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ اس مورچے کو قائم رکھیں، میری یہاں حاضری صرف نسبت کو تازہ کرنے اور یہ بتانے کے لیے ہوتی ہے کہ کن بزرگوں اور کس قافلے سے ہماری نسبت ہے اور کس تسلسل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے اور تسلسل کو قائم رکھیں، اسی پر زندگی گزارنے کا موقع دیں اور اسی پر موت عطا فرمائیں، آمین۔
یہ مجلسِ احرار اسلام کی سالانہ کانفرنس ہے اور بہت اہم مقام پر ہے۔ کوئی تقریر کرنے کی بجائے اس وقت ہمیں قومی سطح پر دینی جدوجہد کے حوالے سے جو چیلنجز درپیش ہیں اور اس مورچے اور اس جیسے دیگر مورچوں کے حوالے سے جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے، ان کی ایک فہرست عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کہاں کہاں پھنسے ہوئے ہیں، کیا کیا مسائل درپیش ہیں، اور وہ مسائل کس سطح پر ہیں؟ پھر اپنی فکر اور سوچ کے مطابق اس کی وجہ عرض کروں گا کہ ہم کیوں پھنسے ہوئے ہیں؟ اور فیصلہ آپ پر چھوڑ کر اجازت چاہوں گا۔
ہمیں اس وقت سب سے پہلا مسئلہ دستورِ پاکستان کے حوالے سے درپیش ہے۔ اس سے پہلے ہم یہ کہتے آ رہے ہیں کہ دستور کی بالادستی اور پاسداری قائم ہونی چاہیے۔ طویل جدوجہد کے بعد ہم نے ۱۹۷۳ء میں ایک متفقہ دستور حاصل کیا تھا اور نافذ کیا تھا۔ وہ دستور دینی مکاتبِ فکر کے ہاں بھی متفقہ تھا، سیاسی جماعتوں کے ہاں بھی متفقہ تھا، اور علاقائی قومیتوں کے ہاں بھی متفقہ تھا، پوری قوم اس پر متفق تھی۔ مجموعی طور پر اب بھی متفق ہے۔ ہم اس بنا پر اب تک یہ کہتے آ رہے ہیں کہ دستور کی بالادستی اور عملداری قائم ہونی چاہیے، دستور کے مطابق ملک کا نظام چلنا چاہیے، اور تمام اداروں اور طبقات کو دستور کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ یہ ہمارا اصولی موقف ہے اور ہم یہ بات مسلسل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن انتہائی تکلیف کے ساتھ میں اپنے اس قلق کا اظہار کرنے پر مجبور ہوں کہ اب ہمیں دستور کی بقا اور تحفظ کی بات کہنا پڑ رہی ہے اور ایک سیاسی کارکن کے طور پر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ہمارا اگلا بڑا نعرہ اور جدوجہد کا عنوان یہی ہو گا۔ میری ان مقامات پر نظر ہے جہاں سے دستور کو سبوتاژ کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور ذہن سازی کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ دونوں طرف سے یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ ان سیکولر حلقوں کی طرف سے بھی جو دستور کو قائم نہیں دیکھنا چاہتے، اور بدقسمتی سے ان حلقوں کی طرف سے بھی جو دستور کی دفعات اور اسلامی شقوں کی عملداری نہ ہونے کے حوالے سے اپنے عدمِ اطمینان کا اظہار کر کے اس جانب سے بھی دستور کی رٹ کو چیلنج کرنے کی سوچ رکھتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے دونوں طرف سے دستور کو خطرہ نظر آ رہا ہے۔ اللہ میری بات غلط کرے لیکن شاید اب ہمیں قومی سطح پر بڑی جنگ دستور کے تحفظ کی لڑنی پڑے گی۔ میں آپ سے احرار کے فورم پر کھڑے ہو کر عرض کر رہا ہوں کہ اس کے لیے ابھی سے تیاری شروع کریں۔ دستور ملک کی وحدت کی علامت، ہمارے اسلامی تشخص اور ایمانی جذبات کی علامت ہے۔ خدانخواستہ کہیں سے بھی اس کو نقصان پہنچ گیا تو شاید عالمِ اسباب میں ہماری قوم دستور جیسی کسی دستاویز پر متفق نہ ہو سکے۔
ہمیں عالمی سطح پر جو دوسرا بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ عقیدہ ختم نبوت کی دستوری دفعات کا مسئلہ ہے، جس سے متعلق ہم سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے، یورپی یونین، آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی ادارے مطالبہ کر رہے ہیں کہ قادیانیوں کے خلاف جو دستوری اور قانونی فیصلے نافذ ہیں وہ واپس لیے جائیں، یا کم از کم غیر موثر بنائے جائیں۔ عالمی سطح پر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے ہم سے یہ مطالبہ جاری ہے۔ لیکن الحمد للہ دو مسئلے ایسے ہیں کہ جن پر قوم کسی کی بات نہیں سن رہی۔ نہ اقوام متحدہ کی بات سن رہی ہے اور نہ یورپی یونین کی بات سن رہی ہے۔ ان میں سے ایک ختم نبوت کا مسئلہ ہے اور دوسرا تحفظِ ناموسِ رسالت کا مسئلہ ہے۔ میرے جیسے کارکنوں کا یہی سہارا رہ گیا ہے کہ یہ ہماری آخری دفاعی لائن ہے جس کو کوئی کراس نہیں کر پا رہا۔ اللہ تعالیٰ اس دفاعی لائن کو سلامت رکھیں۔ قادیانیوں کے حوالے سے ۱۹۷۴ء کے بعد سے تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ جاری ہے، کئی دفعہ ان مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش بھی ہوئی ہے اور ایسے فیصلے ہوئے ہیں، لیکن آپ حضرات کی بیداری اور جرات و حوصلہ نے ان کے سامنے رکاوٹ ڈالی ہے۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی عوامی جذبات اور دینی حمیت اور غیرت ایسی کسی بھی کوشش کی راہ میں رکاوٹ بنے گی۔
تحفظِ ناموسِ رسالت کے مسئلے پر بھی ایسی ہی صورتحال ہے اور وہی تقاضے ہیں، بلکہ اب تو ایک تقاضا اور بڑھ گیا ہے۔ پہلے یہ مطالبہ تھا کہ توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون ختم کیا جائے۔ اب اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ مطالبہ ہے کہ موت کی سزا ہی سرے سے ختم کر دی جائے۔ چاہے وہ قصاص کے طور پر ہو، یا رجم کے طور پر ہو، یا توہین رسالت کے جرم پر ہو، سرے سے موت کی سزا ہی ختم کی جائے۔ شرائط اور دباؤ کے ساتھ ہم سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے اور ہم ایک عرصے سے اس دباؤ کا شکار ہیں کہ موت کی سزا ختم کر دو تو یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاملات صحیح ہو سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ تجارتی مراعات موت کی سزا ختم کرنے ساتھ مشروط ہیں، اب ہم اس مقام پر کھڑے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمیں شروع سے ہی خاندانی نظام کا مسئلہ درپیش ہے۔ اسے مشرقی کلچر، پاکستانی کلچر، یا مسلم کلچر کہہ لیں۔ ہماری ایک تہذیب اور ثقافت چلی آ رہی ہے، ہم اس پر قائم ہیں اور اپنی تہذیب و ثقافت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن خاندانی نظام کے قوانین میں مسلسل ترامیم کے ذریعے ہمارے اس ماحول کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ۱۹۶۲ء میں پہلا قانون آیا تھا اور اب قوانین پر قوانین آ رہے ہیں۔ میں صرف مثال کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا تفصیل کا موقع نہیں ہے کہ طریقہ واردات کیا ہے، قانون کا عنوان کچھ اور ہوتا ہے اور قانون کے اندر کچھ اور ہوتا ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ پہلے گھریلو تشدد کے خاتمے کے عنوان سے ایک قانون منظور اور نافذ ہوا۔ اس کی باقی تمام شقوں کو نظر انداز کرتے ہوئے میں صرف مثال کے طور پر ایک بات عرض کروں گا کہ گھریلو ماحول میں خاندان اور میاں بیوی کے درمیان تنازعات اور جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ میاں بیوی کے جھگڑے کو ختم کرنے کا پراسیس قرآن مجید نے بیان کیا ہے ’’ان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ وحکماً من اھلھا‘‘۔ قرآن پاک کہتا ہے کہ اگر میاں بیوی میں جھگڑا ہو جائے تو یہ جھگڑا پہلے عدالتوں میں نہ لے جائیں بلکہ گھر میں بیٹھ کر اس کو حل کریں اور خاندان کے اندر اسے طے کریں۔ میاں بیوی دونوں کا ایک ایک نمائندہ بیٹھ کر اسے طے کرے۔ قرآن مجید نے جو یہ طریق کار دیا کہ میاں بیوی کا کوئی جھگڑا اور تنازعہ باہر لے جانے کی بجائے گھر کی چار دیواری میں گھر کے ماحول میں طے کیا جائے، نئے قانون کے تحت یہ سارا پراسیس ختم کر دیا گیا ہے۔ میاں بیوی میں جھگڑا ہو جائے تو اب قانونی طریق کار یہ ہے کہ بیوی ایس ایچ او کو فون کرے اور وہ اس کے خاوند کو گرفتار کر کے کڑا ڈال دے، اور اس کے بعد عدالت میں خاوند سے پوچھا جائے گا کہ جھگڑا کیا ہے؟ یوں پورے کا پورا خاندانی نظام تتربتر کر دیا گیا ہے۔
ٹرانس جینڈر پرسن کا ایکٹ بھی ۲۰۱۸ء سے نافذ ہے۔ دوست پوچھتے ہیں کہ یہ قانون ۲۰۱۸ء میں نافذ ہوا تھا تو ابھی تک خاموشی کیوں رہی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک خاص تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ اس بات سے آپ اندازہ کر لیں کہ یہ قانون سینٹ اور قومی اسمبلی میں ۲۰۱۷ء میں پیش ہوا تھا، دو جماعتوں کے نمائندوں نے جمعیۃ علماء اسلام کی نعیمہ کشور اور جماعت اسلامی کی نمائندہ عائشہ سید نے فورم پر بڑی مضبوطی سے اس قانون کی مخالفت کی تھی، لیکن یہ قانون قومی اسمبلی کے آخری سیشن میں پاس ہوا اور اس کے بعد اسمبلی تحلیل ہو گئی جس کے ساتھ ہی ملک میں الیکشن کا ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور یہ سارا معاملہ الیکشن کے ہنگاموں کے نیچے دب گیا۔ یہ تکنیک اختیار کی گئی تاکہ کوئی بات نہ کر سکے، بعد میں اس کے پرت کھلتے گئے تو واضح ہوتا گیا کہ یہ کچھ ہوا ہے۔
اس کی مزید تفصیلات کا موقع نہیں ہے، لیکن ٹرانس جینڈر ایکٹ کیا ہے؟ مختصر عرض کروں گا کہ اس کا عنوان خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ خواجہ سرا قوم کا معذور طبقہ ہے جس کی تعداد پاکستان میں بہت کم ہے۔ اس کے لیے اوریجنل خواجہ سرا اور بتکلف خواجہ سرا بننے والوں کی تعداد کا تناسب دیکھنا پڑے گا۔ البتہ جو اصل خواجہ سرا ہیں، شریعت نے ان کے مسئلہ کا حل نکالا ہے کہ جس میں مرد کی علامتیں زیادہ ہوں وہ مرد شمار ہو گا، اور جس میں عورت کی علامتیں زیادہ ہوں وہ عورت شمار ہو گی۔ احکامِ شرعیہ میں یہ واضح طور پر موجود ہے۔ جبکہ خنثٰی مشکل جس کی جنس کی سمجھ نہ آ رہی ہو، فقہاء نے اس کے احکام بھی ذکر کیے ہیں۔
میں نے ڈاکٹر صاحبان کی ایک مجلس میں سوال کیا کہ باقی تمام متعلقہ مسائل میں میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے تو اس معاملے میں کیوں نہیں ہوتا؟ باقی بہت سی جسمانی معذوریوں کو طبی علاج کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ اس مسئلے کا سادہ سا حل ہے کہ جو چند افراد ملک میں ایسے ہیں تو اس کا میڈیکل حل نکالیں۔ مگر ہوا یہ ہے کہ چند خواجہ سراؤں کے مسئلے کو بنیاد بنا کر کہ ہم نے ان کی معذوری اور مجبوری کو حل کرنا ہے، پوری قوم کو خواجہ سرا بنانے کا پروگرام دے دیا گیا ہے۔ عنوان یہ ہے کہ ہم نے خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، جبکہ عملی طور پر پوری قوم کو خواجہ سرا بنانے کا ایجنڈا دے دیا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق ملک کا کوئی بھی مرد نادرا سے اپنے آپ کو عورت رجسٹر کروا سکتا ہے اور کوئی بھی عورت اپنے آپ کو مرد رجسٹر کروا سکتی ہے۔ جبکہ نادرا پابند ہے کہ وہ جو حلفیہ بیان دے، اس کے مطابق اسے رجسٹر کرے۔ میں نے یہ عرض کیا کہ ہمارا خاندانی نظام جسے ۱۹۶۲ء میں چھیڑنا شروع کیا گیا تھا، اسے چھیڑتے چھیڑتے اب ہم اس مقام پر آ گئے ہیں کہ مرد اور عورت کی جنس ہی مشکوک کر دی گئی ہے۔
میں نے چند قومی مسائل کا ذکر کیا ہے (۱) دستور پاکستان (۲) ختم نبوت کے قوانین (۳) ناموسِ رسالت کے تحفظ کا قانون، اور (۴) خاندانی نظام۔ اب میں اوقاف کی طرف آتا ہوں۔
انگریزوں کے دور میں جب برطانوی حکومت نے ۱۸۵۷ء میں یہاں قبضہ کیا تو اوقاف کے پرانے قوانین منسوخ کر دیے گئے تھے اور نئے قوانین نافذ کیے تھے۔ اس حوالے سے یہ تاریخی حقیقت عرض کرنا چاہوں گا کہ آزادی کی جنگ علماء اور دینی جماعتوں نے لڑی تھی، لیکن اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ مسلمانوں کے تشخص کی جنگ، اوقاف کی جنگ اور مسلمانوں کے اپنے خاندانی معاملات میں شریعت کے قوانین کی جنگ سر سید احمد خان نے لڑی تھی کہ مسلمان الگ قوم ہے، جس کا اپنا تشخص ہے، اپنی تہذیب ہے جسے محفوظ رہنا چاہیے۔ اور اردو زبان کے تحفظ اور اوقاف کی جنگ بھی انہوں نے لڑی۔ میں ریکارڈ کی بات سامنے لانا چاہوں گا کہ اس ملک میں مسلمانوں کے اوقاف مسلمانوں کے مذہبی قوانین کے دائرے میں رہنے چاہئیں، یہ لڑائی سر سید احمد خان، جسٹس امیر علی اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح نے لڑی۔ وائسرائے کی پیروی کونسل میں قائد اعظم کی تقریر ریکارڈ پر موجود ہے کہ اوقاف کے معاملات میں ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے تمام معاملات شریعت کے قانون کے مطابق طے کیے جائیں۔
اس جدوجہد کے نتیجے میں انگریزوں نے ہمیں یہ حق دیا تھا کہ وقف کے مسائل اور خاندانی نظام کے مسائل اسلامی شریعت کے مطابق ہوں گے۔ انگریزوں نے تو ہمیں یہ حق دے دیا تھا لیکن آج میں بڑے دکھ کے ساتھ عرض کروں گا کہ وہ مذہبی آزادی اور وقف کا تحفظ جو ہمیں انگریزوں نے دیا تھا اس اوقاف ایکٹ کے تحت ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ وہ حقوق جو سر سید احمد خان، جسٹس امیر علی اور قائد اعظم مرحوم نے سیاسی جنگ لڑ کر حاصل کیے تھے کہ ہمارے اوقاف کے قوانین اور خاندانی قوانین شریعت کے مطابق ہوں گے، آج گھریلو تشدد کے خاتمے کے عنوان سے اور اوقاف ایکٹ کے حوالے سے وہ تمام مذہبی آزادیاں ہم سے سلب کر لی گئی ہیں اور ہم خاموش تماشائی ہیں۔ یہ سب ابھی ہمارے سامنے ہوا ہے۔
قومی مسائل کی فہرست تو لمبی ہے۔ ان میں سے ایک مسئلہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ پاکستان بنتے ہی طے ہوا تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارے ملک کا معاشی نظام مغربی اصولوں پر نہیں ہو گا بلکہ اسلامی اصولوں پر ہو گا۔ قائد اعظم کا یہ خطاب ریکارڈ پر ہے۔ اس کے بعد ملک کے ہر دستور نے یہ وعدہ کیا کہ ہم سودی نظام سے ملک کو نجات دلائیں گے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور نے ضمانت دی کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کم سے کم عرصے میں سودی نظام کو ختم کرے۔ پھر اسلامی نظریاتی کونسل نے سودی نظام کے تعین اور اس کی متبادل صورتوں کا نظام مکمل کیا اور اس کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نے سودی قوانین کے خاتمے کا فیصلہ دیا، متبادل قوانین دیے اور پورا سسٹم دیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ سود کو ختم کیا جائے۔ لیکن اس کے بعد نظرثانی کی اپیل ہوئی اور فیصلہ دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں چلا گیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے انیس سال کے بعد فیصلہ دیا کہ وہ فیصلہ ٹھیک تھا اور حکومت سے کہا کہ سودی نظام ختم کرو۔
لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے موجودہ وزیراعظم نے ٹاسک فورس قائم کی ہے مگر بڑے تعجب سے یہ بات کہوں گا اور میں نے ٹاسک فورس کے ایک اہم ادارے کے بارے میں لکھا کہ جناب ! آپ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کی ٹاسک فورس کا حصہ بھی ہیں اور آپ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر کے سٹے آرڈر بھی لے لیا ہے۔ ادھر عملدرآمد کی میز پر بیٹھے ہیں اور ادھر عدالت میں سٹے لے کر کھڑے ہیں، یہ کیا تضاد ہے؟ جس سے اب پھر دوبارہ غیر معینہ مدت کے لیے سود کا معاملہ سرد خانے میں چلا گیا ہے۔
یہ میں نے چند مسائل کی ایک جھلک عرض کی ہے۔ باقی مسائل کی فہرست کو چھوڑتے ہوئے اب یہ عرض کروں گا کہ ان مسائل کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ایک مذہبی اور سیاسی کارکن کے طور پر میں اس کی جو وجہ سمجھتا ہوں وہ عرض کرتا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمارے قومی ادارے، اور کسی استثنا کے بغیر ہمارے تمام ریاستی ادارے نہ اسلام کے نظام میں سنجیدہ ہیں، نہ سودی نظام کے خاتمے میں، اور نہ ہی قومی خودمختاری کے حصول میں۔ انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سب ایڈہاک ازم اور ڈنگ ٹپاؤ کی پالیسی پر چل رہے ہیں کہ کسی طرح وقت گزارو۔ ان تمام مسائل کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے ان معاملات میں سیریس نہیں ہیں، ہماری سنجیدگی کا حال یہ ہے کہ ہم ٹاسک فورس میں بھی بیٹھے ہیں اور سٹے آرڈر کی اپیل میں بھی کھڑے ہیں۔
ان مسائل کی دوسری اور اصل وجہ بیرونی مداخلت ہے۔ ہم نے جتنے بھی اس طرح کے کام کیے ہیں سب بیرونی مداخلت پر کیے ہیں۔ ختم نبوت کے قوانین کو ختم کرنے کے لیے اندر سے آواز نہیں آئی بلکہ باہر سے آواز آ رہی ہے، بیرونی دباؤ ہے۔ ناموسِ رسالت کے قانون کو جس خطرے کا سامنا ہے وہ اندر سے ہے یا باہر سے ہے؟ خاندانی نظام کے حوالے سے جو قوانین بنائے گئے ہیں، یہ ہم نے طے کیے ہیں یا باہر سے آئے ہیں؟ اوقاف کے قوانین ہم نے بنائے ہیں یا باہر سے آئے ہیں؟ گھریلو تشدد کا قانون بھی بیرونی ادارے نے بھیجا ہے ، اور اسٹیٹ بینک کو بیرونی نگرانی میں دینے کا قانون آئی ایم ایف نے بھیجا ہے۔ یہ مسلسل بیرونی مداخلت ہے جو ہمارے قوانین کا حلیہ بگاڑ رہی ہے۔ اس لیے میں یہ عرض کروں گا کہ اب ہمیں ان ساری باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے بڑی جنگ بیرونی مداخلت کے خلاف لڑنی ہو گی کہ ملک کی قانون سازی بیرونی مداخلت سے پاک ہونی چاہیے، ورنہ دستور کی بالادستی بھی سوالیہ نشان ہے اور ملک کی خودمختاری بھی سوالیہ نشان ہے۔ ہمیں دستور کے تحفظ اور بالادستی کے لیے بیرونی مداخلت کے خاتمے اور دخل اندازی کا راستہ روکنےلیے بحیثیت قوم متحد ہونا ہو گا اور تمام طبقات، تمام جماعتوں اور تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، ورنہ خدانخواستہ یہ نئی ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔