انتخابات کی آمد آمد ہے، ۱۱ مئی قریب آ رہی ہے، لیکن ابھی تک انتخابات کا ماحول پیدا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ آج کی ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ کے استعمال کے حوالے سے پاکستان دنیا کی دیگر اقوام و ممالک سے بہت پیچھے، جبکہ اعداد و شمار کے لحاظ سے بالکل پچھلی صفوں میں کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ووٹ کا استعمال قانوناً لازمی نہیں ہے اور یہ وجہ تو عموماً بیان کی جاتی ہے کہ تعلیم کی شرح کم ہے اور رائے دہی کا شعور ابھی اس حد تک اجاگر نہیں ہوا، جو پاکستانی معاشرے کو دنیا کی دوسری قوموں کی صف میں کھڑا کر سکے۔ یہ تو الیکشن کمیشن نے ووٹ کے فارم میں خالی خانہ رکھنے کا فیصلہ یا ارادہ جلد واپس لے لیا، ورنہ عوام میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ضرور سامنے آ جاتی جو ووٹ ڈال کر بھی ووٹ نہ ڈالنے کی روایت قائم رکھتی اور ووٹ کے استعمال کی شرح اور کم ہو جاتی۔
ہمارے ملک میں ووٹ ڈالنے کی شرح اس قدر کم کیوں ہے؟ اس کے اسباب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور روایتی انداز سے ہٹ کر زمینی حقائق اور معاشرتی ماحول کو سامنے رکھ کر اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ ایک جمہوری ملک میں اگر عوام کو ووٹ ڈالنے اور رائے دینے میں دلچسپی نہ رہے تو اس ملک کا جمہوری ہونا بجائے خود سوالیہ نشان بن جاتا ہے، جس سے غیر جمہوری رویوں اور رجحانات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے معاشرے میں ووٹ کا شعور آگے نہیں بڑھا اور ہمارے ہاں بلدیاتی انتخابات اور قومی اسمبلی کے الیکشن کے نفسیاتی دائروں میں ابھی تک کوئی فرق اجاگر نہیں ہو رہا۔ ہم بلدیاتی الیکشن میں جائز طور پر یہ بات سامنے رکھ کر ووٹ دیتے ہیں کہ گلی، نالی، سیوریج اور گیس بجلی کے مسائل کون بہتر حل کرا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب کرتے وقت بھی ہماری ترجیحات یہی ہوتی ہیں۔
ووٹ دینے کے حوالے سے ہمارے اہداف اور مقاصد میں ان لوکل مسائل کے ساتھ ساتھ تھانہ کچہری کے مسائل بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ووٹ دینے والے کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اگر وہ تھانے کچہری کے کسی معاملے میں پھنس گیا تو اسے وہاں سے کون چھڑائے گا؟ جائز اور ناجائز کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور حق و ناحق کی کوئی تمیز نہیں ہوتی، بلکہ ناحق اور ناجائز معاملے میں کام آنے اور ساتھ دینے کا تقاضا سب سے پہلے ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں علاقائی ترقیاتی کام ایم این اے اور ایم پی اے کے فرائض منصبی قرار پا گئے ہیں اور کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی کارکردگی، صلاحیت اور لیاقت کا سب سے بڑا معیار یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے اپنے دور میں کتنے ترقیاتی کام کروائے ہیں؟ اس مقصد کے لیے انہیں سرکاری فنڈز دیے جاتے ہیں اور بھاری رقوم فراہم کی جاتی ہیں، جو بڑھتے بڑھتے اب سیاسی کارکنوں کو نوازنے، ممبران اسمبلی کو خوش رکھنے اور کرپشن کا دائرہ پھیلاتے چلے جانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔
شاید اسی پس منظر میں گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ممبران اسمبلی کو یہ یاد دلانے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ ان کا اصل کام قانون سازی ہے، فنڈز وصول کرنا نہیں۔ مگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں، یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ کے رکن کے لیے اب کم و بیش واحد معیار یہ رہ گیا ہے کہ وہ پارٹی کے ساتھ کس حد تک وفاداری نباہ سکتا ہے، فنڈز کو حاصل کرنے، کارکنوں کو نوازنے اور اسے پارٹی ترجیحات کے مطابق خرچ کرنے کی کتنی مہارت رکھتا ہے؟ جبکہ قانون سازی میں اس کی اہلیت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ پارٹی کی لیڈر شپ نے، جو عموماً شخصی یا زیادہ سے زیادہ خاندانی ہوتی ہے، اسے کس بل کے حق میں یا مخالفت میں ووٹ دینے کے لیے کہہ دیا ہے۔
چند سال قبل ایک ایوان نے کوئی قانون پاس کیا، میں نے ایوان کے ایک ممبر کو اس کے چند مضمرات کی جانب توجہ دلائی جو میرے توجہ دلانے کے بعد خود انہوں نے بھی محسوس کی اور میرے موقف سے اتفاق کیا۔ لیکن جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اس بل کے حق میں ووٹ کیسے دے دیا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے اس وقت مسودہ پڑھا ہی نہیں تھا، پارٹی لیڈر نے ووٹ دینے کا کہا اور میں نے ووٹ دے دیا، اس کے علاوہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے۔
ہمارے ایوانوں میں عام طور پر ایسے ہی ہوتا ہے۔ صوبائی اسمبلی سے لے کر سینٹ تک ایسے ارکان بہت کم ہوتے ہیں جو کسی بل کا مسودہ پڑھنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں، پھر اسے اسٹڈی کرنے اور اس کے بارے میں غور و فکر کر کے رائے قائم کرنے والوں کا تناسب اور بھی کم ہو جاتا ہے۔ غالب اکثریت صرف ہاتھ اٹھانے والوں کی رہ جاتی ہے، جس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر محض پارٹی لیڈر کے اشارے پر ادھر یا ادھر ہاتھ اٹھا دینا ہوتا ہے۔
اس تناظر میں ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو یہ دیکھتی ہے کہ ممبران اسمبلی کو اپنے اصل کام سے تو کوئی دل چسپی نہیں ہے اور وہ اسمبلی کی رکنیت کو اپنے اور لوگوں کے کام کرانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو اسے بھی ووٹ دینے میں دل چسپی نہیں رہتی، اور ہمارے خیال میں یہ بے اعتمادی بھی ووٹ کی شرح میں کمی کا ایک اہم سبب ہے۔
پھر ایک اور عمومی تاثر بن گیا ہے جو کم و بیش قومی تاثر کا رخ اختیار کرتا جا رہا ہے کہ الیکشن میں وہی خاندان اور گروہ ہمیشہ سامنے رہتے ہیں جو پاکستان بننے کے بعد سے، بلکہ اس سے بھی پہلے سے قومی سیاست پر اپنی اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہیں اور پارٹیوں کے لیبل بدل بدل کر انہی خاندان اور گروہوں کے افراد باری باری ان ایوانوں میں براجمان ہو جاتے ہیں۔ اس سے مایوسی کی ایک اور لہر ابھرتی ہے اور ووٹ دینے میں عام آدمی کی دل چسپی مزید کم ہو جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور اہم بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ حکومتوں کے بدلنے سے پالیسیوں میں تبدیلی کی کوئی شکل دکھائی نہیں دیتی۔ حکومتیں بدل جاتی ہیں، پارٹیاں بدل جاتی ہیں اور ایوان کی اکثریت بدل جاتی ہے، مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ انتخابات ہیں کہ قوم کی اکثریت نے پرویز مشرف کی پالیسیوں کو مسترد کر کے الیکشن میں ان کی مخالف پارٹیوں کو کامیاب کرایا تھا، مگر پالیسیاں اب تک پرویز مشرف کے دور ہی کی جاری ہیں۔ حتیٰ کہ پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد کے طور پر ایک نئی قومی پالیسی کے خطوط طے کیے جو ڈیپ فریزر کی نذر ہو گئے۔ بعد میں وزیر اعظم کی طلب کرده آل پارٹیز کانفرنس نے بھی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی توثیق کر دی، مگر معاملہ جوں کا توں رہا۔ اس لیے عام ووٹر یہ بھی سوچتا ہے کہ اگر ووٹ دینے اور حکومتیں تبدیل کرنے کے باوجود پالیسیوں کے دائرے وہی رہنے ہیں تو پھر ووٹ دینے کا فائدہ کیا ہے؟
ہمارے خیال میں جب تک ہماری سیاسی قیادتیں ان اسباب و عوامل کا جائزہ لے کر ان کے سدباب کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتیں، ووٹ کی شرح اسی طرح رہے گی اور الیکشن پر عام آدمی کا اعتماد قائم نہیں ہو سکے گا۔ ظاہر ہے اس ماحول میں غیر جمہوری رویوں کے سدباب کی کوئی عملی صورت ممکن نہیں ہے۔