ڈاکٹر محمد مشتاق احمدکی کتاب ’’رویت ہلال: قانونی وفقہی تجزیہ‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ رؤیت ہلال کا مسئلہ ہمارے ہاں طویل عرصہ سے بحث ومباحثہ اور اختلاف وتنازعہ کا موضوع چلا آ رہا ہے اور مختلف کوششوں کے باوجود ابھی تک کوئی تسلی بخش اجتماعی صورت بن نہیں پا رہی۔ اکابر علماء کرام کی مساعی سے حکومتی سطح پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی قائم ہوئی تو امید ہو گئی تھی کہ اب یہ مسئلہ مستقل طور پر طے پا جائے گا، مگر ملک کے بیشتر حصوں میں اجتماعیت کا ماحول قائم ہو جانے کے باوجود بعض علاقوں میں انفرادیت کی صورتیں ابھی تک موجود ہیں اور میڈیا کی وسعت، پالیسی اور مزاج کے باعث قومی اجتماعیت کی وہ صورت نہیں بن رہی جس کی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے وجود میں آنے کے بعد توقع ہو گئی تھی۔
اس کے اسباب کسی حد تک فقہی اور شرعی ہونے کے ساتھ بڑی حد تک سیاسی اور معاشرتی بھی ہیں کہ حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان شرعی معاملات میں اعتماد کی وہ فضا وجود میں نہیں آ سکی جو اس قسم کے معاملات میں حکومتی احکام کی عمل داری قائم کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ ایک اسلامی یا کم از کم مسلم ریاست میں بہت سے معاملات میں حکومت ہی اتھارٹی ہوتی ہے جس کی فقہاء کرام نے مختلف معاملات میں صراحت کی ہے، لیکن اس اتھارٹی کے عملی اظہار کے لیے باہمی اعتماد کی فضا ناگزیر ہوتی ہے۔ بیرونی استعمار کے تسلط سے قبل مسلم ریاستوں میں سیاسی اور گروہی اختلافات وتنازعات کے باوجود یہ اعتماد پایا جاتا تھا کہ حکومت خود جیسی بھی ہو، شرعی معاملات میں گڑبڑ نہیں کرے گی اور علماء کرام کے مشورہ سے ہی شرعی مسائل کو طے کرے گی، حتیٰ کہ اکبر بادشاہ کے ’’دین الٰہی‘‘ کے عروج کے دور میں بھی عام لوگوں کے شرعی معاملات ان کے قاضیوں کے ذریعہ ہی طے کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ اعتماد بیرونی استعمار کے تسلط کے زمانے میں قائم نہیں رہا جس کا تسلسل آزادی کے بعد کے دور میں بھی جاری ہے اور اسی وجہ سے اس قسم کی بہت سی معاشرتی الجھنیں موجود ہیں جن میں سے ایک رؤیت ہلال کا مسئلہ بھی ہے۔ اکابر علماء کرام کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ایسے معاملات میں اجتماعیت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور تفرقہ وانتشار سے قوم کو ہر ممکن حد تک بچایا جائے، چنانچہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا قیام اکابر علماء کرام کی توجہ اور مساعی کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا اور کسی حد تک مرکزیت واجتماعیت کی صورت سامنے آ گئی تھی۔
خود میرا مشاہدہ ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے باضابطہ قیام سے پہلے گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کو علاقہ میں وہی پوزیشن حاصل تھی جو پشاور کی مسجد قاسم علی خان کو اس سلسلہ میں حاصل چلی آ رہی ہے۔ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ تعالیٰ کا شمار ملکی سطح پر اکابر علماء کرام میں ہوتا تھا اور وہ میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے استاذِ محترم تھے۔ انھیں پورے علاقہ میں مرکزیت ومرجعیت حاصل تھی۔ چاند دیکھنے کے لیے مرکزی جامع مسجد میں اس رات شہر کے بڑے بڑے علماء کرام جمع ہوتے تھے۔ رات گئے تک شہادتوں کا انتظار رہتا تھا اور بسا اوقات سحری کے وقت فیصلہ ہوا کرتا تھا۔ ارد گرد کے علماء کرام جامع مسجد کے فیصلے کے انتظار میں ہوتے تھے۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بار بار پوچھتے تھے کہ جامع مسجد گوجرانوالہ میں کیا اعلان ہوا ہے؟ لیکن جب مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی بن گئی اور اس نے کام شروع کر دیا تو جامع مسجد کی چاند رات کی رونقیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی گئیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر خود میں نے حضرت مفتی صاحبؒ سے پوچھا کہ رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے کے لیے علماء کرام کو بلانا ہے؟ تو انھوں نے فرمایا، کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جو فیصلہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کرے گی، ہم اس پر عمل کریں گے۔
مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اگرچہ اس سلسلہ میں مجاز اتھارٹی ہے، مگر اس کے فیصلوں اور طرز عمل سے علمی بنیاد پر اختلاف کی گنجائش ہر دور میں موجود رہی ہے جس کا اظہار مرکز گریز حلقوں کی طرف سے مسلسل ہوتا آ رہا ہے اور بحث ومکالمہ کے مختلف پہلو اس حوالے سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی صاحب علم اس مسئلہ کے تمام متعلقہ پہلوؤں کا فقہی اور علمی بنیاد پر جائزہ لے کر اس کے مجموعی تناظر کو سامنے لائیں تاکہ اس سلسلہ میں کوئی رائے آسانی کے ساتھ قائم کی جا سکے۔ بہت سے اصحاب علم نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور ان کی کاوشیں مسئلہ کو سمجھنے میں یقیناًمددگار ہیں، لیکن بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ قانون کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انھوں نے زیادہ وسیع تناظر میں اس مسئلہ کا جائزہ لیا ہے اور اس کی فقہی وفنی ضروریات کا احاطہ کرنے کے ساتھ معاشرتی ماحول اور قانونی صورت حال کو بھی سامنے رکھا ہے۔
وہ ایک مسلمہ علمی خاندان کے فرد ہیں، دینی اور عصری علوم پر یکساں نظر رکھتے ہیں، قانونی پیچیدگیوں اور موشگافیوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور معاشرتی ماحول کے تقاضوں سے بھی اچھی طرح باخبر ہیں۔ چنانچہ ان کی اس علمی کاوش میں ان کی یہ تمام خصوصیات جھلک رہی ہیں۔ انھوں نے جس عرق ریزی کے ساتھ اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، وہ لائق تحسین ہے اور اس کے حل کے لیے جو تجاویز پیش کی ہیں، وہ معروضی حالات میں بہت مناسب بلکہ ضروری ہیں اور ہم صرف ایک گذارش کے ساتھ ان کی تمام تجاویز کی تائید کرتے ہیں کہ مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ریاستی اداروں، عوام اور دینی حلقوں کے درمیان باہمی اعتماد کی ایسی فضا کا قائم کرنا بھی ضروری ہے جو شرعی معاملات میں حکومتی اقدامات کی عمل داری کو یقینی بنا سکے۔
دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت محترم ڈاکٹر پروفیسر مشتاق احمد صاحب کی اس علمی محنت کو اس مسئلہ کے حل کے لیے موثر ذریعہ بنائیں اور انھیں دنیا وآخرت میں قبولیت ورضا سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔