جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان کے اس بیان پر امریکہ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ نے اسامہ بن لادن یا طالبان کے خلاف کوئی کارروائی کی تو پاکستان میں امریکی باشندے محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس پر برطانیہ نے مولانا موصوف کو ویزا دینے سے معذرت کر دی ہے اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ کے ذمہ دار حضرات نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کر کے ان سے اس سلسلہ میں وضاحت طلب کی ہے۔ جبکہ اخباری اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے اپنے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے امریکی سفارت کاروں سے کہہ دیا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان پر بلاجواز فضائی حملے کر سکتا ہے اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجاہدین کو نشانہ بنا سکتا ہے تو پاکستان میں امریکی باشندوں کے تحفظ کی ضمانت دینا بھی مشکل ہے۔
امریکہ اس وقت ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ کے نعرے کے ساتھ دنیا کے واحد چوہدری کی حیثیت سے اپنا یہ حق سمجھتا ہے کہ وہ جسے چاہے اور جب چاہے اپنی جارحیت کا نشانہ بنائے اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو۔ گزشتہ سال افغانستان اور سوڈان پر امریکی فضائی حملے اسی فرعونیت کا شاہکار تھے اور اب پھر وہ عرب مجاہد اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کے عنوان سے افغانستان پر نئے حملوں کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس لیے ہمارے خیال میں مولانا فضل الرحمان نے امریکہ کو یہ انتباہ کر کے اہل حق کی صحیح ترجمانی کی ہے اور اس پر وہ بلاشبہ مبارکباد اور تحسین کے مستحق ہیں۔
اس کے ساتھ ہم ایک اور گزارش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جب جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑوں کے قائدین مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق مل کر امارت اسلامی افغانستان کی شرعی حکومت کی حمایت و امداد کر رہے ہیں، خلیج عرب سے امریکی فوجوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے عظیم عرب مجاہد اسامہ بن لادن کا ساتھ دے رہے ہیں اور امریکی عزائم کی مذمت میں پوری جرأت کے ساتھ پیش پیش ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اس متفقہ پالیسی کو مؤثر طور پر آگے بڑھانے کے لیے دونوں متحد ہو جائیں؟ ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ جمعیۃ علماء اسلام کے اتحاد کی طرف وہ جو قدم بھی بڑھائیں گے ملک بھر کے اہل حق کی انہیں بھرپور تائید حاصل ہوگی، اور ایسا ہونے کی صورت میں اہل حق کی طاقت ایک بار پھر مجتمع ہو کر عالمی استعمار کے مکروہ عزائم اور مذموم ارادوں کی راہ میں ناقابل تسخیر دیوار بن جائے گی۔