فکری بیداری کے مختلف دائرے اور ہماری ذمہ داری

   
۲۹ و ۳۰ مئی ۲۰۰۸

راقم الحروف نے ۳۰ اپریل سے ۱۴ مئی تک برطانیہ کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور لندن، برمنگھم، مانچسٹر، گلاسکو، نوٹنگھم، شیفیلڈ، ڈنز، والسال، برنلی اور بریڈ فورڈ میں ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ اجتماعات سے خطاب کیا، جن میں راقم نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اسلامی تہذیب اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے ساتھ وابستگی پر قائم رہیں اور اپنی زندگیوں کو شریعت کے احکام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، قرآن کریم کی حرمت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس و تقدس کے حوالہ سے اپنے جذبات کا ملکی قانون اور اخلاقیات کے دائرہ میں رہتے ہوئے اظہار کرتے رہیں، اپنی نئی نسل کو دین کے ساتھ وابستہ رکھنے اور اپنے تہذیبی تشخص اور شناخت کو برقرار رکھنے کی طرف خصوصی توجہ دیں، دوسرے باشندگانِ وطن کے ساتھ اپنے تعلقات اور اپنے امیج کو بہتر بنانے کی کوشش کریں، انہیں اسلام کی تعلیمات سے متعارف کرانے اور اسلام کی دعوت دینے کا اہتمام کریں، عالم اسلام کو درپیش مسائل اور ملت اسلامیہ کی مشکلات کے حل کے لیے حالات کے تقاضوں کے مطابق ملکی دستور و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی نہ کسی انداز میں ضرور کردار ادا کریں اور دینی حلقوں، مراکز اور اداروں کی جدوجہد کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں۔

دورے کے اختتام پر ورلڈ اسلامک فورم نے ۱۳ مئی کو ابراہیم کمیونٹی کالج وائٹ چیپل لندن میں ایک خصوصی فکری نشست کا اہتمام کیا، جس کی صدارت فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کی اور نظامت کے فرائض مولانا مفتی عبد المنتقم سلہٹی نے سرانجام دیے، جبکہ لندن کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد اس میں شریک ہوئی، اس نشست سے راقم الحروف کے خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اب سے سترہ اٹھارہ برس پہلے ہم نے ورلڈ اسلامک فورم تشکیل دیا اور احباب کو توجہ دلائی کہ وہ دینی جدوجہد کے حوالے سے آج کے دور کی ضروریات اور تقاضوں کا ادراک حاصل کریں اور ان کو سامنے رکھ کر اسلام اور مسلمانوں کے لیے اپنی محنت کو مؤثر بنائیں، تو ہماری یہ آواز اجنبی سی محسوس ہو رہی تھی اور یوں لگتا تھا کہ شاید کوئی بھی ہماری اس آواز کو سنجیدگی کے ساتھ سننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ لیکن آج بحمد اللہ تعالٰی ہم مطمئن ہیں کہ اس آواز کو دھیرے دھیرے پذیرائی حاصل ہو رہی ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں بہت سے دوست اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ ہم نے کوئی انوکھی بات نہیں کی تھی، صرف یہ عرض کیا تھا کہ آپ دین کے جس شعبے میں کام کریں، اسی میں کام کریں اور اپنے ذوق کے مطابق کریں، البتہ سلیقے سے کریں اور آج کے معروضی حالات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر کریں۔

ہمیں دین کے حوالے سے کسی جدوجہد سے اختلاف نہیں ہے، کوئی جہاد کے عنوان سے کام کر رہا ہے، کوئی دعوت و تبلیغ کے دائرے میں مصروف عمل ہے، کوئی ختم نبوت کے تحفظ کا محاذ سنبھالے ہوئے ہے، کوئی تدریس و تعلیم کے شعبے میں سرگرم ہے، کوئی سلوک و احسان کے ذریعے امت کی خدمت کر رہا ہے، کوئی حضرات صحابہ کرامؓ کے تقدس و ناموس کے تحفظ کے لیے محنت کر رہا ہے، کوئی امت میں فکری بیداری پیدا کرنے کے لیے کام کر رہا ہے، کوئی مغربی فلسفہ و ثقافت کی یلغار سے امت کو خبردار کرنے اور بچانے کو اپنا مقصد بنائے ہوئے ہے، اور کوئی امت میں رونما ہونے والے فکری، اخلاقی اور اعتقادی فتنوں سے امت کو بچانے کی فکر میں ہے۔ یہ سب دین کے کام ہیں اور دینی جدوجہد کے شعبے ہیں، جس کا ذوق جس شعبے سے ہم آہنگی رکھتا ہو، اسے اسی میں کام کرنا چاہیے، لیکن اسے اپنے شعبے کے بارے میں وقت کے تقاضوں کا ادراک ضرور حاصل کرنا چاہیے، معروضی حالات کو سامنے رکھنا چاہیے اور مکمل شعور، ادراک اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا چاہیے البتہ اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ وہ دوسرے دینی شعبوں میں کام کرنے والوں کی نفی نہ کرے، ان کی تحقیر نہ کرے بلکہ سب کو باہمی تعاون ومفاہمت کے ساتھ اپنے اپنے کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔

ہمارا اپنا شعبہ امت کو مغرب کے فلسفہ و ثقافت کی یلغار سے آگاہ کرنا اور اس کے مقابلہ کے لیے علماء کرام اور دینی کارکنوں کو تیار کرنا ہے۔ اور علماء کرام کو تعلیم، تبلیغ اور ابلاغ کے جدید ذرائع کے استعمال کی طرف متوجہ کرنا ہے جس کے لیے ہم گزشتہ اٹھارہ برس سے کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالٰی کا شکر ہے کہ ہماری بات اب دوستوں کو سمجھ آ رہی ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں اس سمت میں کام شروع ہو گیا ہے۔ ہم نے اس جدوجہد کے آغاز میں کہا تھا کہ ہم فکری بیداری پیدا کرنا چاہتے ہیں، لیکن آج میں اس سے اگلی بات کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں مختلف دائروں میں اور مختلف سطحوں پر دینی بیداری اور فکری بیداری کی جو لہر دکھائی دے رہی ہے اور شعور و ادراک کا جو احساس بیدار ہو رہا ہے، اسے صحیح ٹریک پر رکھنے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟ دنیا میں دینی بیداری بھی بڑھ رہی ہے اور فکری شعور میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، ہمیں اس سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے دیکھنا ہے کہ اسے صحیح رخ پر رکھنے اور غلط ٹریک پر جانے سے بچانے کے لیے ہم نے کیا کرنا ہے اور ہم پر اس کی کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میں اسے تین حصوں میں تقسیم کروں گا۔ اسے آپ تین دائرے بھی کہہ سکتے ہیں اور تین سطحوں سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں:

  1. ان میں سے پہلی سطح تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل میں دین سے وابستگی اور اس سے واقفیت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کے اسباب میں آپ مختلف چیزوں کا ذکر کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں میں دینی رجحانات میں اضافے کا سبب مسجد و مدرسہ کا نظام بھی ہے، دعوت و تبلیغ کا وسیع نیٹ ورک بھی ہے، مسلمانوں پر مسلسل ڈھائے جانے والے مظالم کا ردعمل بھی ہے، اور سوسائٹی کی مذہب سے لاتعلقی کے تلخ نتائج کا احساس بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کے اسباب شمار کیے جا سکتے ہیں۔ سبب کوئی بھی ہو، مگر یہ امر واقعہ ہے کہ مسلم نوجوان میں دین سے وابستگی اور اس سے واقفیت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس رجحان کو صحیح رخ پر رکھنے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟ نوجوانوں کو دین سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے میڈیا، تعلیم اور لابنگ کے جو ذرائع میسر ہیں، ان میں ہمارا یعنی دین کی جدوجہد کرنے والے روایتی حلقوں کا تناسب کیا ہے اور جدید دانشور یعنی متجددین ان نوجوانوں کے ذہنوں میں شک کا بیج بونے کے لیے جو کچھ کر رہے ہیں، اس کے تدارک کے لیے ہمارا کردار کیا ہے؟

    میرے نزدیک آج کا سب سے بڑا فتنہ ’’تشکیک‘‘ ہے۔ مغرب کی نمائندگی کرنے والے یا مغربی فکر و فلسفہ سے مرعوب و متاثر دانشوروں کی تکنیک اس دور میں یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو دین کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں اور قرآن کریم کے حوالے سے ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ وہ ان کے سامنے دین کی کسی بات سے صاف انکار نہیں کریں گے، لیکن دین کا کوئی نہ کوئی مسئلہ ان کے سامنے رکھ کر اس کے حوالے سے شک کا بیج ان کے ذہنوں میں ڈال دیں گے۔ وہ جواب کے لیے علماء سے رجوع کرتے ہیں تو مناسب تیاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کا جواب نہیں دے پاتے، جس سے شک اور زیادہ پختہ ہو جاتا ہے اور وہ نوجوان ایمان اور یقین کی پٹڑی سے اتر کر شکوک و شبہات کی دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ آج کے نوجوانوں کے ذہنوں میں دین کے حوالے سے، دین کے احکام و مسائل کے حوالے سے، اور سوسائٹی کے ساتھ دین کے تعلق کے حوالے سے سینکڑوں شبہات ہیں، بے شمار ایسے شکوک و شبہات ہیں جو ان کے ذہنوں میں ڈالے گئے ہیں۔ ہماری یعنی علماء کرام کی اس کے بارے میں تیاری نہیں ہے، مطالعہ نہیں ہے، تحقیق نہیں ہے، بلکہ سرے سے واقفیت ہی نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم انہیں ڈانٹ دیتے ہیں یا گمراہی کا فتوٰی جڑ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں آج کی نئی مسلمان پود میں ذہنی خلفشار بڑھتا جا رہا ہے۔

  2. دوسری سطح یہ ہے کہ مسلم ممالک میں اسلامی شریعت کے ساتھ وابستگی کے عمومی رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بین الاقوامی اداروں کی سروے رپورٹیں بتاتی ہیں کہ مسلم ممالک کی رائے عامہ اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس کا احساس و ادراک ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کو ہے اور اس نے اس کا حل تلاش کر لیا ہے کہ مسلمانوں میں فقہی اسلام یعنی ’’مولوی کے اسلام‘‘ کی بجائے ’’صوفی اسلام‘‘ کو متعارف کرایا جائے۔ ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ مولوی قاعدہ ضابطہ کی بات کرتا ہے، حلال و حرام کی بات کرتا ہے، اور شرعی احکام کے نفاذ کی بات کرتا ہے، جبکہ صوفی نفس کی اصلاح کی بات کرتا ہے اور فرد کو خدا سے جوڑنے پر محنت کرتا ہے، اس لیے وہ مغرب کے Individualism (انفرادیت) کے فلسفہ سے زیادہ قریب ہے اور اسے سیکولرازم کے ساتھ ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔

    مغرب اس معاملے میں الٹی زقند لگا کر داراشکوہ کے دور میں چلا گیا ہے۔ لیکن اسے یہ مغالطہ ہے، اس لیے کہ ہمارے ہاں جنوبی ایشیا میں تصوف کی نمائندگی داراشکوہ نہیں بلکہ مجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کرتے ہیں اور اس کے ہوتے ہوئے تصوف کو انڈویجولزم اور سیکولرزم کے لیے استعمال کرنے کا کوئی امکان موجود نہیں۔ مگر میں آپ حضرات کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جدوجہد اور فکرمندی کا ایک میدان یہ بھی ہے کہ مسلم معاشروں میں اسلامی شریعت کی عملداری کے رجحانات کو باقی رکھنے اور انہیں سبوتاژ ہونے سے بچانے کے لیے ہمیں کام کرنا ہے اور انہیں غلط ٹریک پر چڑھانے کی سازش کو ناکام بنانا بہرحال ہماری ذمہ داری ہے۔

  3. دنیا میں دینی بیداری اور فکری بیداری کی تیسری سطح یا تیسرا دائرہ یہ ہے کہ خود مغرب میں آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی اور مذہب کے معاشرتی کردار کی بحالی کے رجحانات رونما ہو رہے ہیں، اور مغربی دانشوروں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ مذہب صرف فرد کی نہیں بلکہ سوسائٹی کی بھی ضرورت ہے اور اس پر مسلسل کام ہو رہا ہے۔ شہزادہ چارلس کے لیکچروں میں وجدانیات کی طرف واپسی، سابق برطانوی وزیر اعظم جان میجر کی ’’بیک ٹو بیسز‘‘ کی مہم، اور آرچ بشپ آف کنٹربری کے بیانات میں شرعی احکام کے تذکرہ کو میں اسی پس منظر میں دیکھتا ہوں۔ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سے شواہد موجود ہیں جو نشاندہی کرتے ہیں کہ مغرب میں ’’مذہب بیزاری‘‘ کے عمل کو نہ صرف بریک لگ گئی ہے بلکہ ’’ریورس گیئر‘‘ بھی لگ گیا ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کا صحیح ادراک حاصل کریں اور اپنی دانش اور صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال میں لا کر مذہب کے بارے میں اعلیٰ ترین سطح پر اس فکری بیداری کو صحیح رخ دینے کے لیے اسلام کی فطری تعلیمات کو آج کی زبان و اصطلاحات میں اور آج کی نفسیات کے مطابق دنیا کے سامنے لانے کا اہتمام کریں۔ یہ ہمارا فریضہ بھی ہے اور آج کی انسانی سوسائٹی کا ہم پر حق بھی ہے۔

اس لیے میں علماء کرام اور ارباب فکر و دانش سے عرض کروں گا کہ وہ فکری بیداری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف سطحوں پر نظر آنے والی فکری بیداری کو صحیح رخ پر رکھنے کے لیے بھی کردار ادا کریں اور معروضی حقائق و حالات سے مکمل واقفیت کے ساتھ اس سلسلے میں اپنی محنت کے خطوط کا تعین کریں۔ ورلڈ اسلامک فورم کا یہی پیغام ہے اور ہم اسی پیغام کو دنیائے اسلام تک پہنچانے کے لیے اپنی بساط کے مطابق جدوجہد کر رہے ہیں۔

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ علماء کرام کو عصری تقاضوں سے روشناس کرانا اور جدید ذرائع ابلاغ کو اسلام کی دعوت اور تعلیمات کے فروغ کے لیے استعمال کرنا ورلڈ اسلامک فورم کے بنیادی اہداف ہیں اور ہم اس میں بحمد اللہ تعالیٰ مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مغربی تہذیب کے چار بنیادی عناصر ہیں: (۱) یونانی فلسفہ (۲) رومی سیاست و قانون (۳) یورپین قبائل کی مشرکانہ اور توہم پرستانہ رسوم و رواجات (۴) مادہ پرستی پر مبنی لذت پرستی اور تعیشات۔

یونانیوں کے ہاں مابعد الطبعیات یا آخرت کا کوئی تصور نہ تھا، آج بھی مغرب کے ذہن و فکر پر ارسطو اور افلاطون کا اثر غالب ہے۔ یہ دونوں فلسفی حقیقت کبریٰ یعنی خدا کے شعور سے محروم تھے، افلاطون اپنے مکاشفات میں الجھ کر رہ گیا اور ارسطو عقل کلی اور عقل جزئی میں امتیاز نہ کر سکا۔ مغرب ہمیشہ روح کی حقیقت سے ناواقف رہا، اس کی ساری بحثیں نفس کے متعلق تھیں۔ مغرب کی ساری مادی ترقی درحقیقت عیسائیت کے روحانی تشدد کا ردعمل اور انتقام ہے اور مغرب نے یہ سائنسی اور علمی ترقی عیسائیت کے خلاف لڑ بھڑ کر حاصل کی۔

مغرب کی نشاۃ ثانیہ ۱۴۵۰ء تا ۱۷۰۰ء کے دور کا نعرہ تھا کہ ”جو عقل کے خلاف ہے وہ خدا کے خلاف ہے۔“ خالص عقلی اور مادی ذہن نے مغرب کو دوبارہ یونانی فلسفہ کی گود میں ڈال دیا، صنعتی انقلاب سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کا باعث بنا، سرمایہ داری نے جاگیرداری کی جگہ لے لی، دنیا میں نوآبادیاتی نظام قائم کیا گیا۔ جب سرمایہ نے عالمگیریت کی شکل اختیار کی تو عالمگیریت مقصد بنی۔ گلوبلائزیشن نوآبادیاتی نظام کی نئی شکل ہے، اس کا یک نکاتی منصوبہ مغرب کا ورلڈ ویو WORLD VIEW یعنی کائنات و حیات کے بارے میں مغربی فکر و فلسفہ کو غالب کرتا ہے۔ مارکیٹ اکانومی یا مارکیٹ فورس دراصل وسائل پر قبضے کا خوش نما عنوان ہے۔ مغرب کی سول سوسائٹی مارکیٹ سوسائٹی ہے اور جمہوریت سرمایہ داروں کی باندی ہے، الیکشن سرمائے کا کھیل ہے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بدولت سرمایہ گلوبل (عالمگیر) ہو گیا ہے۔ اس کے لیے عالمی ریاست کی ضرورت ہے جو صرف امریکا پوری کر سکتا ہے، گلوبلائزیشن کے معنی امریکی قوانین و ضوابط اور تہذیب کا عالمی نفاذ ہے۔ بینکار یا سرمایہ دار آج کا جھوٹا خدا اور مالک ہے جو دنیا پر مکمل عملداری چاہتا ہے۔ عالمی استعمار کا تقاضا ہے کہ کوئی ریاست خود انحصاری حاصل نہ کر پائے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کو مکمل اجازت ہو کہ وہ کسی بھی ملک کے قومی اثاثے خرید سکیں۔ آج کی جمہوری حکومتیں قومی اثاثے بیچ کر خوشی مناتی ہیں اور ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نیاز مندی پر فخر کرتی ہیں، اس سے تمام اقوام براہ راست عالمی سرمایہ داروں کے ماتحت آ گئی ہیں۔ اس عالمی تہذیبی، عسکری اور سیاسی غلبہ میں اصل قوت سرمایہ ہے جو پوری دنیا سے نچڑ کر امریکا کی طرف بہہ رہا ہے، ترقی پذیر اقوام کو اسلحہ، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کی صنعتیں لگانے کی اجازت نہیں ہے، یہ سب کچھ مغرب سے خریدنا فرض ہے، تاکہ مغربی تہذیب کو چیلنج کرنے والی تہذیب پیدا نہ ہو سکے۔

یہ آج کا حقیقی چیلنج ہے اور سب سے بڑا خطرہ ہے جس کا شعور اور احساس بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور ورلڈ اسلامک فورم اس چیلنج اور خطرہ کی طرف علماء کرام، دینی کارکنوں اور اربابِ علم و دانش کو توجہ دلانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے، تاکہ وہ آج کے عالمی حالات کے تناظر میں اپنی محنت اور تگ و تاز کی ترجیحات اور دائرہ کار کا صحیح طور پر تعین کر سکیں۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۹ و ۳۰ مئی ۲۰۰۸ء)
   
2016ء سے
Flag Counter