خاندانی نظام کے حوالے سے ایک نشست سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قرآن کریم نے نکاح کے مقاصد یہ بیان کیے ہیں ’’ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسافحین ‘‘ (النساء۲۴) ۔ پہلی شرط یہ کہ ’’ان تبتغوا باموالکم‘‘ خاوند بیوی کی تمام مالی ذمہ داریاں قبول کرے گا تو نکاح ہو گا۔ نکاح کے ساتھ خاوند کو بیوی اور ہونے والی اولاد سب کے خرچے کی ذمہ داری لینا ہو گی۔ اس میں مہر، نفقہ اور وراثت سب شامل ہیں۔ نکاح کے مقاصد میں دوسری شرط یہ ذکر فرمائی ’’محصنین غیر مسافحین‘‘ کہ باقاعدہ گھر بساؤ گے، صرف شہوت اور خواہش پوری کرنا مقصد نہیں ہو گا۔ ایک اور آیت میں تیسری شرط یہ لگائی ’’ولا متخذی اخدان‘‘ (المائدہ ۵) کہ جو کچھ ہو گا آن ریکارڈ ہو گا، خفیہ طور پر دوستیاں نہیں ہوں گی۔
ایک عورت کسی کے نکاح میں آئی ہے تو اس کے سب اخراجات خاوند کے ذمہ ہیں۔ یہ ذمہ داری قبول کیے بغیر اگر نکاح کر لیا جائے تو بھی خاوند کے ذمے معروف اخراجات واجب ہیں۔ ایک آیت کریمہ میں یہ بھی بتایا ہے کہ نفقہ کا معیار کیا ہو گا۔ خاوند اپنی مالی حیثیت کے مطابق بیوی اور اولاد پر خرچ کرنے کا پابند ہے۔ اگر مالدار ہے تو اس حیثیت سے اور تنگ دست ہے تو اس حیثیت سے۔ اور حدیث میں بھی ہے کہ اگر خاوند اپنی حیثیت کے مطابق گھر والوں پر خرچ نہیں کرتا تو وہ حق تلفی کر رہا ہے۔ اور اگر بیوی اور اولاد اس کی حیثیت سے زیادہ مانگتے ہیں تو وہ زیادتی کر رہے ہیں۔ ’’لینفق ذو سعۃ من سعتہ ومن قدر علیہ رزقہ فلینفق مما اٰتاہ اللہ‘‘ کہ وسعت والا خاوند اپنی وسعت کے مطابق خرچہ کرے، اور جس کا رزق تنگ ہے تو جو اللہ نے اس کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔
اس کے بعد فرمایا ’’لا یکلف اللہ نفساً الا ما اٰتٰہا‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کسی معاملے میں کسی آدمی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ ہر معاملے میں یہی اصول ہے کہ کسی کی حیثیت سے بڑھ کر اس پر ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی۔ اگر کسی آدمی کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ اگر کوئی کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو اس پر قیام فرض نہیں ہے، بیٹھ کر پڑھ لے۔ اگر کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا تو قضا کر لے۔ خرچے کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی اصول بیان فرمایا ہے کہ اگر مالی وسعت ہے تو اس کے مطابق خرچ کرو، اور اگر تنگدستی ہے تو اس کے مطابق خرچ کرو۔ اللہ تعالیٰ آدمی کی وسعت کے مطابق پابندیاں لگاتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا ’’سیجعل اللہ بعد عسر یسرًا‘‘ (الطلاق ۷) حالات ایک جیسے نہیں رہتے، کچھ عرصہ تنگی کا گزرے تو اس کے بعد آسانیاں بھی آتی ہیں۔
یہ حیثیت کیا ہے اور اس کا تعین کون کرے گا؟ اس حوالے سے قرآن مجید نے یہ ذکر کیا ہے ’’متاعاً بالمعروف‘‘ کہ اس علاقے اور ماحول میں جو خرچہ معروف ہے وہ دینا ہو گا۔ گاؤں میں گاؤں کی حیثیت سے، شہر میں شہر کی حیثیت سے، امریکہ میں امریکہ اور برطانیہ میں برطانیہ کی حیثیت سے۔ پھر فرمایا ’’حقاً علی المحسنین‘‘ (البقرہ ۲۳۶) یہ خرچہ دینا اختیاری نہیں ہے، یا خاوند کا احسان نہیں ہے بلکہ اس پر واجب ہے۔
علاقے کے عرف کے مطابق خاوند کے ذمے خرچہ دینا واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ نکاح ہو جائے اور ایجاب قبول ہو جائے لیکن مہر مقرر نہ ہو تب بھی مہرِ مثل واجب ہوتا ہے۔ یعنی اگر مہر مقرر کیا ہو تو وہ دینا واجب ہے، اور اگر مقرر نہ کیا ہو تو وہ مہر دینا واجب ہو گا جو اس عورت کے خاندان کی عورتوں کا عام طور پر مہر ہوتا ہے۔ اسے مہرِ مثل کہتے ہیں۔ نفقہ میں بھی جس ماحول میں رہتے ہیں اس کے عرف کا اعتبار ہو گا۔ اگر خاوند بیوی اور اولاد کو خرچہ نہیں دے گا تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گنجائش دی ہے کہ بلا اجازت اس کے مال میں سے خرچہ وصول کیا جائے۔
حضرت ابو سفیانؓ اور ان کی اہلیہ حضرت ہندہؓ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔ حضرت ابو سفیانؓ سردار اور چودھری تھے لیکن مزاج کے لحاظ سے اتنے سخی نہیں تھے۔ اس بات کا تعلق مزاج سے ہوتا ہے، بعض لوگوں کے پاس مال ہوتا ہے لیکن خرچ کرنے کو جی نہیں چاہتا، اور بعض لوگوں کے پاس نہیں ہوتے تب بھی خرچ کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اگر ہوں تو خرچ کروں۔ یہ الگ بات ہے کہ بڑا چودھری وہی ہوتا ہے جس کا ڈیرہ بڑا ہو۔ اور بڑا ڈیرہ وہ ہوتا ہے جہاں چائے، لسی اور حقہ ملے۔ جس ڈیرے پر یہ نہ ملے وہاں کوئی نہیں جاتا۔ یہ معاشرتی روایت ہے، شہروں میں بھی اور دیہاتوں میں بھی۔
اس پر ایک تاریخی واقعہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ بڑے آدمی تھے، خلافت کا اعلان کر دیا اور خلیفہ بن گئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ان کے رشتہ دار اور قریبی تھے لیکن انہوں نے بیعت نہیں کی۔ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ نے بیعت نہیں کی تو انہوں نے کہا کہ آپ کھلاتے پلاتے نہیں ہیں تو بیعت کیوں کرتا؟ میں جس ڈیرے پر جاتا ہوں وہاں کھانے پینے کو ملتا ہے۔
اپنے اپنے علاقے کا رواج ہوتا ہے۔ اس پر ایک لطیفہ ذکر کر دیتا ہوں۔ ۱۹۷۰ء کی بات ہے، بنگلہ دیش کے ایک بزرگ حضرت مولانا شمس الدین قاسمی یہاں دورے پر آئے تو دو دن میرے پاس رہے۔ اس وقت بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا۔ وہ مشرقی پاکستان میں جمعیۃ علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل تھے۔ میں جو خدمت کر سکتا تھا اپنی حیثیت کے مطابق کی۔ پورا دن گزر گیا، انہوں نے کہا کہ آپ نے ہماری مہمانی نہیں کی۔ میں نے کہا کہ میں نے تو اپنی حیثیت کے مطابق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناشتہ، کھانا، چائے وغیرہ سب ٹھیک تھا لیکن آپ نے ہماری مہمانی نہیں کی۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کمی رہ گئی ہے۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ آپ نے پان تو کھلایا ہی نہیں۔ بنگالیوں کی مہمانی پان ہوتا ہے جیسے پنجابیوں کے ہاں حقہ اور پٹھانوں کے ہاں نسوار، یہ علاقائی کلچر ہوتا ہے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ حضرت ابو سفیانؓ کی اہلیہ محترم حضرت ہندہؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! ابو سفیان گھر کا خرچہ پورا نہیں دیتے، میرا اور بچوں کا جو خرچہ دیتے ہیں وہ کافی نہیں ہوتا، تو کیا میں ان کے مال میں سے اپنے طور پر کچھ نکال سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں نکال سکتی ہو، لیکن شرط لگا دی ’’بالمعروف‘‘ کہ عرف کے مطابق جتنا خرچہ بنتا ہے وہ تم نکال سکتی ہو زیادہ نہیں۔ یعنی بتائے بغیر خاوند کی جیب ٹٹول سکتی ہو۔
یہ واقعہ امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے تو اس پر باب کیا قائم کیا ہے؟ امام بخاریؒ نے یہ نہیں کہا کہ اگر خاوند خرچہ نہیں دیتا تو بیوی اس کے مال میں سے لے سکتی ہے، بلکہ یہ عنوان قائم کیا کہ مظلوم کو حق حاصل ہے کہ وہ ظالم سے اپنا حق چپکے سے وصول کر لے۔ اگر کوئی ظالم حق نہیں دے رہا تو مظلوم اس کے مال میں سے اپنا حق وصول کر سکتا ہے۔ اس عنوان کے تحت یہ واقعہ ذکر کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق گھر میں پورا خرچہ نہ دینے والے کو امام بخاریؒ ظالم کہہ رہے ہیں اور جس گھر میں بیوی بچوں کو پورا خرچہ نہیں ملتا وہ مظلوم ہیں۔
گھر کا خرچہ دینا خاوند کے ذمے ہیں اور گھر کے کام کاج بیوی کے ذمہ ہیں۔ یہ تقسیمِ کار ہے۔ بیوی اگر کاموں میں کوتاہی کرے گی تو حق تلفی ہے، خاوند خرچے میں کوتاہی کرے گا تو حق تلفی ہے۔
مالی ذمہ داریوں میں مہر اور نفقہ کے بعد تیسرا دائرہ وراثت کا ہے کہ عورت کو خاوند کے فوت ہونے کی صورت میں وراثت ملے گی۔ باپ فوت ہو تب بھی اور بعض صورتوں میں بیٹا یا بھائی فوت ہو تب بھی عورت کو وراثت ملے گی۔ وراثت کے مسائل میں یہ بات عرض کرتا ہوں کہ وراثت کے مسائل بدلتے رہتے ہیں، شرعاً نہیں بلکہ صورتاً۔ رشتہ داروں کی فہرست کے مطابق حصے طے ہوتے ہیں، اس فہرست کے بدلنے سے حصے بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً اگر اولاد نہیں ہے تو خاوند کی جائیداد میں بیوی کا چوتھا حصہ ہے، اور اگر اولاد ہے تو آٹھواں حصہ ملے گا۔ بیوی فوت ہو جائے اور اولاد نہ ہو تو خاوند کو اس کی آدھی جائیداد ملے گی، اولاد ہونے کی صورت میں خاوند کو چوتھا حصہ ملے گا۔ اس لیے وراثت اپنے طور پر تقسیم نہیں کرنی چاہیے بلکہ ورثاء کی فہرست بنا کر کسی ذمہ دار مفتی صاحب سے پوچھیں کہ اس صورت میں شریعت کیا کہتی ہے اور کس کا کتنا حصہ بنتا ہے؟ میں خود وراثت کے مسئلے کو ہاتھ نہیں لگایا کرتا بلکہ کہتا ہوں کہ کسی تجربہ کار اور ماہر مفتی صاحب کے پاس جا کر انہیں رشتہ داروں کی ساری فہرست دے کر پوچھا جائے تو وہ شریعت کے مطابق طے کریں گے کہ کس کا کتنا حصہ بنتا ہے۔
ہمارے ہاں وراثت کے مسئلے میں بہت کوتاہی ہوتی ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے دور میں یہاں عورت کو وراثت ملتی ہی نہیں تھی، انہوں نے اس پر بہت لکھا ہے۔ حضرت تھانویؒ نے پشاور سے کلکتہ تک باقاعدہ مہم چلائی اور علماء کی ڈیوٹی لگائی کہ عورتوں کو وراثت میں حصہ دلاؤ۔ علماء لوگوں کے پاس جاتے تھے، جیسے تبلیغی جماعت والے جاتے ہیں۔ اس مسئلے کا زیادہ ہدف پنجاب ہے، ہمارے ہاں اب بھی بہن کو حصہ نہیں ملتا اور بیٹی کو وراثت نہیں ملتی۔ ہم نے وراثت نہ دینے کے کئی بہانے بنا رکھے ہیں کہ اسے جہیز دے دیا تھا اب اور کیا مانگتی ہے؟ یا اس نے تو معاف کر دیا ہے۔ یہ دو تو ہمارے پکے بہانے ہیں اور دونوں شرعاً غلط ہیں۔ عورت کا جو حصہ بنتا ہے وہ اس کا حق ہے۔ اگر عورت کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جائے گا تو ترمذی شریف کی روایت کے مطابق حدیثِ قدسی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں جس نے وارثوں میں سے کسی کو دنیا میں حصہ نہیں دیا تو قیامت کے دن پہلے کٹوتی کر کے اس کو حصہ دلواؤں گا باقی حساب بعد میں کروں گا۔ میں اسے یوں بیان کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وراثت کا حصہ میں نے مقرر کیا ہے، تم کون ہوتے ہو نہ دینے والے، خود دے دو ورنہ میں دلوا دوں گا۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر نکاح کرنا ہے تو پہلے مالی ذمہ داریاں قبول کرو۔ مہر دینا پڑے گا، نفقہ کی ذمہ داری لینا پڑے گی اور وفات کی صورت میں تیسرا دائرہ وراثت کا ہے وہ بھی عورت کو ملے گی۔ میں نے خاندانی نظام کے حوالے سے اصولی بات یہ ذکر کی ہے کہ گھر کے معاملات انتظام اور دیکھ بھال عورت کی ذمہ داری ہے جبکہ بیوی بچوں کے اخراجات خاوند کے ذمہ ہیں۔