نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں پینٹاگون کی عمارت سے اغوا شدہ طیاروں کے ٹکرانے سے جو قیامتِ صغرٰی بپا ہوئی ہے اس پر سب سے زیادہ حقیقت پسندانہ تبصرہ خود امریکہ کے ایک پروٹسٹنٹ مذہبی راہنما جیری فالول نے کیا ہے، جسے روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں ’’کرسچیئن براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک‘‘ کے حوالے سے ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’نیویارک اور واشنگٹن میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری حقوقِ نسواں اور شہری آزادی کے گروپوں پر عائد ہوتی ہے اور ہم جنس پرست، اسقاطِ حمل کے حامی، بت پرست اور سیکولر لوگ بھی اس ذمہ داری میں شریک ہیں، اور امریکی زمین پر ان بدترین اور دہشت ناک حملوں کے شاید ہم پوری طرح مستحق تھے۔ یہ خونریز حملے مزید تباہی کی محض ابتدا ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ اسی طرح پردے اٹھاتا رہا تو امریکہ کے دشمنوں کو وہ کچھ کرنے کا موقع ملے گا جس کے شاید ہم مستحق ہیں۔ سول لبرٹیز یونین اس صورتحال کی ذمہ دار ہے اور اسقاطِ حمل کا بھی اس میں عمل دخل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا تمسخر نہیں اڑایا جا سکتا۔ جب ہم چالیس ملین معصوم بچوں کو ضائع کر دیں گے تو اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کو ناراض ہی کریں گے۔ اسی طرح بت پرستی کرنے والے، اسقاطِ حمل اور حقوقِ نسواں کے حامی، ہم جنس پرست جنہوں نے ایک متبادل لائف سسٹم بنا رکھا ہے، اور وہ سب لوگ جنہوں نے امریکہ کو سیکولر بنانے کی کوشش کی، ہم ان لوگوں کو ہی ان واقعات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔‘‘
گویا پروٹسٹنٹ راہنما جیری فالول نے آسمانی تعلیمات کی روشنی میں ان حقیقی اسباب کی نشاندہی کی ہے جو قوموں کی بربادی اور ان پر اس قسم کے خداوندی عذاب کا باعث بنتے ہیں۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے صحیح بات کہی ہے اور درست سمت امریکی قوم کی راہنمائی کی ہے۔ لیکن امریکی معاشرہ تو ایک عرصہ ہوا آسمانی تعلیمات سے دستبردار ہو کر سوسائٹی کی اجتماعی عقل و خواہش کو اپنا حاکمِ مطلق قرار دے چکا ہے، اس کے لیے ان نصیحتوں کی کیا حیثیت باقی رہ گئی ہے؟