۲۱ نومبر کو مدرسہ عثمانیہ سیٹلائٹ ٹاؤن جھنگ کے ایک جلسہ میں شریک ہونا تھا جو کہ عشاء کی نماز کے بعد تھا لیکن صبح نماز فجر کے بعد درس اور چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر جلدی گوجرانوالہ سے چل پڑا، خیال تھا کہ دو چار گھنٹے فیصل آباد میں گزاروں گا اور کچھ دوستوں سے ملاقات کر کے پچھلے پہر جھنگ چلا جاؤں گا۔ مگر سات بجے کے لگ بھگ گوجرانوالہ میں شیخوپورہ موڑ پر واقع فلائنگ کوچ کے اڈے پر پہنچا تو وہاں فیصل آباد کے لیے کوئی گاڑی موجود نہیں تھی جبکہ مسافر کافی تعداد میں کھڑے تھے، عملے کا شخص ان سے کہہ رہا تھا کہ اب کوئی گاڑی فیصل آباد نہیں جائے گی اور نہ ہی وہاں سے آئے گی اس لیے شیخوپورہ کی ویگن پر سوار ہو کر وہاں چلے جائیں، وہاں سے شاید فیصل آباد کی کوئی سواری مل جائے۔ شیخوپورہ کی ویگن اسی اڈے پر کھڑی تھی اور اس میں جگہ کم نظر آرہی تھی اس لیے میں نے پوچھنے میں وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور جلدی سے ویگن میں گھس گیا۔ ایک ہاکر کے ہاتھ میں اخبارات دیکھے تو ایک اخبار کی سرخی پر سرسری نظر پڑی جس میں ایک روز قبل فیصل آباد میں ہونے والی ڈکیتی کی خبر تھی اور اس واقعہ میں نصف درجن کے قریب افراد کی ہلاکت کا ذکر تھا، اس سے ذہن میں خیال آیا کہ شاید اس واقعہ کے حوالے سے فیصل آباد میں کوئی ہڑتال وغیرہ کا قصہ چل رہا ہوگا۔ چنانچہ اسی کیفیت میں شیخوپورہ پہنچے تو وہاں کے بتی چوک میں فیصل آباد کے لیے سواریوں کا ہجوم تھا مگر گاڑیاں ندارد۔ کچھ دیر وہاں گھومتا رہا پھر اچانک ایک بس آئی جس کے کنڈیکٹر نے فیصل آباد کی آواز لگائی تو دوسرے مسافروں کے ساتھ ساتھ میں بھی بس کی طرف لپکا اور تھوڑی سی تگ و دو کے بعد سوار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
جب ساڑھے دس بجے کے قریب فیصل آباد پہنچے تو یہ عقدہ کھلا کہ ڈکیتی کی واردات وغیرہ کا کوئی قصہ نہیں ہے بلکہ یہ صورتحال وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی تشریف آوری کی برکت سے ہے جو فیصل آباد موٹروے کی تعمیر کا افتتاح کرنے کے لیے پہنچنے والے ہیں، ان کے استقبال کے لیے مختلف علاقوں سے لوگوں کو لانے کی غرض سے انتظامیہ نے دو روز سے بسوں اور ویگنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر رکھی ہے، جو گاڑیاں اس پکڑ دھکڑ سے بچ گئی ہیں وہ پکڑے جانے کے خوف سے کونوں کھدروں میں دبکی کھڑی ہیں اور مسافر دو روز سے سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں۔ فیصل آباد میں کچھ وقت جامعہ مدینۃ العلم میں گزارا پھر اس کے بعد سنت پورہ میں جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مرکزی راہنما حضرت مولانا عزیز الرحمن انوری مرحوم کی وفات پر ان کے بیٹوں سے تعزیت کی۔ ظہر کی نماز پڑھ کر جھنگ کے لیے روانہ ہوا تو بسوں اور ویگنوں کے اڈوں پر نیم ہڑتال کی کیفیت بدستور موجود تھی۔ پاکستان شریعت کونسل کے راہنما حاجی ضیاء الدین صاحب جو نیو گرین مارکیٹ میں گلاس مرچنٹ ہیں، مجھے اپنی گاڑی میں مختلف اڈوں پر گھماتے رہے مگر جھنگ کے لیے کوئی سواری نہ ملی۔ پھر تین بجے کے بعد جب میاں محمد نواز شریف صاحب کا استقبال کرنے والا ہجوم واپس آیا تو میں جنرل بس اسٹینڈ سے جھنگ کے لیے بس میں سوار ہو سکا۔
وزیراعظم نے فیصل آباد پنڈی بھٹیاں موٹر وے کی تعمیر کا افتتاح تو کر لیا اور ان کے استقبال کے لیے ایک بڑا ہجوم بھی انتظامیہ اور ممبران اسمبلی نے جمع کر لیا لیکن اس دوران فیصل آباد کے شہریوں پر کیا بیتی؟ اس کا ذکر اس روز فیصل آباد سے شائع ہونے والے شام کے ایک اخبار نے اپنی رپورٹ میں ان الفاظ میں کیا ہے:
’’وزیراعظم پاکستان کے دورۂ فیصل آباد کے موقع پر بسیں اور ویگنیں استقبال کے لیے پکڑنے کے باعث سڑکیں ویران ہوگئیں اور لوگ بیس بیس میل کا سفر بھی موٹر سائیکل، رکشوں، تانگوں، گدھا گاڑیوں اور ٹرکوں پر کرتے رہے۔ جبکہ پولیس نے شادیوں کے لیے بک کی گئی درجنوں گاڑیاں بھی پکڑ لیں جس کے باعث براتیں ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر لے جانا پڑیں۔ فیصل آباد پولیس نے بسوں اور ویگنوں کے کاغذات چھین کر انہیں پولیس لائن اور اقبال اسٹیڈیم میں ۱۹ نومبر سے پابند کر رکھا تھا تاکہ وزیراعظم کے استقبال کے لیے دیہات سے لوگوں کو لایا جا سکے۔ بسوں اور ویگنوں کے سڑکوں پر فقدان کے باعث شادیوں کے سیزن میں تین روز تک لوگ جہاں تھے وہاں پھنسے رہے اور انتظامیہ کی پھرتیوں کو کوستے رہے۔ جبکہ سکول جانے والے بچوں اور دفاتر جانے والے ملازمین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
راقم الحروف ایک ماہ قبل ۲۴ اکتوبر کو بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کر چکا ہے جب مجھے مدرسہ اسلامیہ صادقیہ منچن آباد کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لیے جانا تھا، اوکاڑہ تک تو جیسے کیسے پہنچ گیا مگر وہاں سے آگے منچن آباد کے لیے اڈے پر کوئی بس یا ویگن موجود نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ سعودی عرب کے ولی عہد محترم شہزادہ عبد اللہ بن عبد العزیز لاہور تشریف لا رہے ہیں اور ان کے استقبال کے لیے لوگوں کو مختلف علاقوں سے جمع کرنے کی غرض سے انتظامیہ نے بسیں اور ویگنیں قابو کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے اوکاڑہ کا جنرل بس اسٹینڈ ایک ویرانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ عصر سے عشاء تک بس اسٹینڈ کے گرد چکر لگانے کے بعد ایک بس اس حالت میں ملی کہ وہ اندر سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی اور چھت پر بھی لوگ سوار تھے، بڑی مشکل سے کنڈیکٹر کی منت سماجت کے بعد بس کے اندر گھسنے اور کھڑے مسافروں کے درمیان سینڈوچ بنے رہنے کا موقع ملا، پھر ایک مسافر نے سفید داڑھی کا لحاظ کرتے ہوئے سیٹ خالی کر دی۔ مگر بس ایسی نیک بخت تھی کہ اس کی رفتار اور وقفہ وقفہ سے لمبے اسٹاپوں کے باعث بمشکل رات گیارہ بجے منچن آباد پہنچ پایا جبکہ مدرسہ صادقیہ کے مہتمم مولانا معین الدین وٹو مسلسل انتظار کے بعد میری آمد سے مایوس ہو چکے تھے۔
یہ واقعات نئے نہیں ہیں، جب بھی حکمرانوں کو کسی حوالہ سے بڑے ہجوم اور اجتماع کی ضرورت پڑتی ہے اس کے لیے اسی طرح کے حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس سے حکمرانوں کی وقتی سیاسی ضرورتیں تو پوری ہو جاتی ہیں، انتظامی افسران اور ممبران اسمبلی کو شاباش مل جاتی ہے، اور کچھ لوگوں کی انا کو نفسیاتی تسکین بھی حاصل ہو جاتی ہے، مگر غریب عوام کی جو درگت بنتی ہے اس کا اندازہ انہی لوگوں کو ہو سکتا ہے جو عوام میں رہتے ہیں اور انہی کے ساتھ میسر سفر کے ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہمارے محترم وزیراعظم غریب عوام کے لیے نظام میں تبدیلی اور انقلاب کی بات ایک عرصہ سے کر رہے ہیں، کیا وہ اپنے بے بس اور مجبور شہریوں کو اپنی انتظامیہ کے مسلط کردہ اس عذاب سے نجات دلانے کی کوئی صورت نکال سکتے ہیں؟