آج کے ذرائع ابلاغ ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر اور اخبارات و جرائد نے فحاشی، عریانی اور بدکاری کو فروغ دینے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی باشعور شخص سے مخفی نہیں ہے۔ فلمیں اور ڈرامے قتل و غارت، جنسی انارکی اور بے حیائی کے فروغ کا سب سے مؤثر ذریعہ بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محتاط اور معاملہ فہم علمائے اسلام ذرائع ابلاغ کے افادی پہلوؤں کو نظرانداز کرنے کا الزام سہتے ہوئے بھی عام مسلمانوں کو ٹی وی اور وی سی آر سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی کی اسکرین جن مناظر کو لوگوں کے سامنے لا رہی ہے ان کا غالب حصہ نئی نسل کی بربادی کا سبب بن رہا ہے۔ اس سلسلہ میں روزنامہ پاکستان لاہور ۱۷ مئی ۱۹۹۶ء میں شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیے۔
’’امریکی اداکارہ اور ماڈل گرل ٹیری کوئیلے نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سے وہ کسی ایسے اشتہار کے لیے ماڈلنگ نہیں کرائے گی جس سے بچوں اور نوجوانوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔ اس نے کہا کہ میں نہیں جانتی تھی کہ نوجوان ٹی وی اور فلموں میں خوبصورت لڑکیوں کو دیکھ کر کتنے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے جذبات کی برانگیختگی انہیں کیا کیا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس نے کہا کہ حال ہی میں وہ ہوائی جہاز میں آ رہی تھی وہاں اس نے دو لڑکوں کی گفتگو سنی جو اداکارہ شیرون سٹون سے بہت متاثر تھے اور آپس میں جو کچھ کہہ رہے تھے وہ انتہائی شرمناک اور تکلیف دہ تھا۔ جب میں نے ان لڑکوں کو ایسا کرنے سے منع کیا تو پہلے تو وہ گھبرائے لیکن بعد میں مجھے پہچان کر کہنے لگے کہ ہم کیا کریں ہم مجبور ہیں، اور ہمیں ایسی باتوں پر مجبور کرنے والی آپ اداکارائیں ہیں۔ ٹیری کوئیلے نے کہا تب سے ہی میں نے فیصلہ کر لیا کہ جذبات بھڑکانے والے اشتہاروں اور فلموں میں کام نہیں کروں گی۔‘‘
یہ تاثرات کسی مذہبی راہنما یا کسی اصلاحی تحریک کے لیڈر کے نہیں، ایک اداکارہ کے ہیں جو خود ٹی وی اور فلم کے نظام کا حصہ ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے۔ اسلام نے اسی لیے بدکاری سے منع کرتے ہوئے اس کے دواعی و اسباب کی بھی ممانعت کر دی ہے کہ جو چیز بدکاری کا کسی درجہ میں سبب یا ذریعہ بن سکتی ہو وہ بھی حرام ہے۔ اور قرآن کریم نے زنا سے منع کرتے ہوئے ’’زنا نہ کرو‘‘ کی بجائے ’’زنا کے قریب مت جاؤ‘‘ کا حکم دیا ہے، جو انسانی فطرت اور انسانی معاشرہ کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔ اور آج کی انسانی سوسائٹی آزادی کی آخری حدوں کو چھو کر دن بدن فطرت کے تقاضوں کی طرف واپس لوٹ رہی ہے۔ اے کاش کہ مغربی دنیا کے ان نئے رجحانات تک مسلمان ملکوں کے ان دانشوروں کی رسائی بھی ہو جائے جو آج مسلم معاشرہ کو نام نہاد آزادی کی اس دلدل کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے نکلنے کے لیے خود مغرب راستے کی تلاش میں ہے۔