روزنامہ جنگ لندن نے ۱۴ جولائی ۱۹۹۲ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع کی ہے کہ شاہ جہاں مسجد ووکنگ (لندن) کے سابق امام حافظ بشیر احمد مصری گزشتہ روز ۷۸ برس کی عمر میں لندن کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خبر میں حافظ صاحب مرحوم کا تعارف ماحولیات اور تحفظ حیوانات کے ایک مسلم ماہر کی حیثیت سے کرایا گیا ہے جنہوں نے اس شعبہ میں نمایاں تحقیقی خدمات سرانجام دی ہیں اور اسلام میں حیوانات کے ساتھ برتاؤ کے موضوع پر ان کے مقالہ کو بین الاقوامی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حافظ صاحب مرحوم کا ایک اور تاریخی تعارف بھی ہے جو قادیانی مسلم کشمکش کے حوالہ سے ہے اور جس کے تذکرہ کے بغیر نہ حافظ صاحب مرحوم کا تعارف مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی ’’مسلم قادیانی کشمکش‘‘ کی تاریخ کی تکمیل ہوتی ہے۔
حافظ بشیر احمد مصری ۱۹۱۴ء میں قادیان میں ایک ممتاز قادیانی شیخ عبد الرحمان مصری کے ہاں پیدا ہوئے جن کا تعلق لاہور کے ایک ہندو گھرانے سے تھا لیکن وہ ہندو ازم چھوڑ کر قادیانیت کے فریب کا شکار ہوگئے تھے اور ان کا شمار قادیانی جماعت کے سرکردہ حضرات میں ہوتا تھا۔ حافظ بشیر احمد نے قادیان کے ماحول میں پرورش پائی اور مرزا غلام احمد قادیانی کے خاندان کو قریب سے دیکھا جو ان کی قادیانیت بلکہ نفس مذہب سے برگشتگی کا باعث بن گیا۔ انہوں نے اپنی مطبوعہ یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اس وقت کے قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین محمود اور نام نہاد ’’خاندان نبوت‘‘ کے دیگر سرکردہ افراد کی جنسی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کے ایسے ہوشربا مناظر ان کے مشاہدہ میں آئے کہ ایک وقت میں مذہب اور خدا کی ذات سے بھی ان کا اعتقاد اٹھ گیا اور وہ دہریت کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ مرزا بشیر الدین محمود کے ’’جنسی معرکوں‘‘ کا ذکر بابائے صحافت مولانا ظفر علی خانؒ نے بھی ’’زمیندار‘‘ میں باربار کیا ہے اور اس موضوع پر خود قادیانی امت کے افراد کے اعترافات پر مشتمل ’’تاریخ محمودیت‘‘ کی شہادت موجود ہے۔ ایک دور میں اس کتاب کی اشاعت پر پابندی تھی اس لیے یہ ’’شہر سدوم‘‘ اور ’’ربوا کا راسپوٹین‘‘ کے نام سے بھی چھپ چکی ہے، اس میں ان افراد کے حلفیہ بیانات ہیں جو مرزا بشیر الدین محمود اور اس خاندان کے دیگر سرکردہ حضرات کی ’’جنسی ہوس‘‘کا شکار ہوئے۔
یہ مرزا بشیر الدین محمود کے بھر پور شباب کا زمانہ تھا اور حافظ بشیر احمد مصری کی اٹھتی جوانی تھی اس لیے انہیں بھی ’’مخصوص گینگ‘‘میں شامل کر لیا گیا لیکن وہ زیادہ دن اس ماحول کو برداشت نہ رکھ سکے۔ پہلے کچھ عرصہ ذہنی تذبذب کا شکار رہے پھر ساری صورت حال باپ کے سامنے رکھ دی۔ شیخ عبد الرحمان کے لیے بھی یہ صورتحال خلاف توقع تھی لیکن تحقیق پر بیٹے کی باتیں درست ثابت ہوئیں تو مرزا بشیر الدین محمود کے نام پے در پے خطوط میں ان سے مطالبہ کیا کہ وہ برأت ثابت کریں ورنہ خلافت سے دستبردار ہوجائیں۔ مرزا محمود نے شیخ عبد الرحمان مصری اور ان کے خاندان کو قادیانی جماعت سے نکالنے اور معاشرتی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ اس دوران حافظ بشیر احمد مصری پر قادیان میں قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس میں ان کا ایک ساتھی جاں بحق ہوگیا۔ اس خاندان کی حفاظت کے لیے حکومت کو پولیس کی گارد مقرر کرنا پڑی اور مجلس احرار اسلام نے بھی ان کے گھر کے سامنے حفاظت کے لیے رضاکاروں کا کیمپ لگا دیا۔ یہ اس صدی کے چوتھے عشرہ کی بات ہے اور اس دور کے اخبارات ان واقعات کے تذکرہ سے بھرے پڑے ہیں۔ حافظ منیر احمد نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اس دور میں ان کے ذہن پر دہریت کا غلبہ ہوگیا تھا حتیٰ کہ ایک موقع پر باپ نے اپنے لیے دعا کرنے کی تلقین کی تو جواب دیاکہ کس سے دعا کروں جس کا کوئی وجود ہی نہیں (معاذ اللہ)۔
شیخ عبد الرحمان مصری نے قادیانیت کے دائرہ میں رہتے ہوئے مرزا بشیر الدین محمود کے مخالف دھڑے لاہوری گروپ میں شمولیت اختیار کرلی اور اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ جبکہ حافظ بشیر احمد مصری کا رابطہ مجلس احرار اسلام کے راہنماؤں سے ہوا جو ان کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں اس حوالہ سے امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ، چودھری افضل حق اور مولانا مظہر علی اظہر کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ بالاخر ۱۹۴۰ء میں امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ انہیں لے کر تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا محمد الیاس دھلویؒ کے پاس حاضر ہوئے اور حافظ بشیر احمد نے ان کے ہاتھ پر قادیانیت سے تائب ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ قبول اسلام کے بعد حافظ صاحب مرحوم کا رابطہ قادیانی جماعت اور اپنے خاندان دونوں سے کٹ گیا اس لیے ۱۹۴۱ء میں ہندوستان چھوڑ کر مشرقی افریقہ چلے گئے جہاں بیس سال قیام کیا۔ پھر ۱۹۶۱ء میں برطانیہ چلے گئے، اس دور میں ووکنگ کی شاہ جہاں مسجد اس علاقہ کی مرکزی جامع مسجد کی حیثیت رکھتی تھی جو قادیانیوں کے تصرف میں تھی، اسے چند مخلص مسلمانوں نے بے حد تگ و دو کے بعد قادیانیوں کے تسلط سے چھڑا یا اور حافظ بشیر احمد اس مسجد کے پہلے مسلمان امام مقرر ہوئے۔ حافظ صاحب کو یہاں بھی قادیانیت سے معرکہ آرائی کا سامنا کرنا پڑا جس میں وہ کامیاب رہے چنانچہ وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ:
’’خدا نے جو سب سے زیادہ مسرت بخش اسلام کی خدمت کرنے کی مجھے توفیق دی وہ یہ تھی کہ ووکنگ مسجد کی امامت سے مستعفی ہونے سے قبل ایسے حالات پیداکرنے میں کامیاب ہوگیا کہ اس مسجد اور مرکز میں اب کبھی بھی کسی مرزائی امام کا تقرر نہیں ہوسکتا‘‘۔
۱۹۶۸ء میں ووکنگ مسجد کی امامت سے الگ ہوگئے اور مسلم ممالک کا بائی روڈ سفر شروع کیا جو تقریباً تین سال جاری رہا، اس دوران چالیس سے زیادہ ممالک میں گئے اور مسلم ممالک کے حالات کا مشاہدہ کیا ۔ قادیانی امت کے موجودہ سربراہ مرزا طاہر احمد نے تین سال قبل دنیا بھر کے مسلم راہنماؤں کو مباہلہ کی دعوت دی تو اس کی ایک کاپی حافظ بشیر احمد مرحوم کو بھی بھجوائی۔ حافظ بشیر احمد صاحب نے یہ چیلنج مرزا طاہر احمد کے نام ایک کھلے خط کی صورت میں قبول کیا لیکن مرزا طاہر احمد نے میدان مباحثہ میں آنے کی ہمت نہ کی۔
حافظ بشیر احمد مرحوم کے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ شکوک پھیلائے جاتے رہے کہ ان کے عقائد اب بھی لاہوری مرزائیوں سے ملتے جلتے ہیں لیکن ۱۹۶۸ء میں مناظر اسلام حضرت مولانا لال حسین اختر کی برطانیہ آمد کے موقع پر دونوں کی گفت وشنید ہوئی اور مولانا لال حسین اختر نے تحریری طور پر ان شکوک کو رد کیا او رکہا کہ وہ صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔
راقم الحروف کی ملاقات حافظ بشیراحمد مصری مرحوم سے ۱۹۸۵ء یا ۱۹۸۶ء میں لندن کی سالانہ ختم نبوت کے موقع پر ہوئی، کچھ زیادہ گفت و شنید کا موقع نہیں ملا لیکن یہ سعادت کیا کم تھی کہ زندگی میں اس تاریخی شخص کو دیکھنے کا موقع مل گیا جس نے اس دور میں مرزا قادیانی کے نام نہاد ’’خاندان نبوت‘‘کو بے نقاب کرنے کی جرأت کی جب قادیانیت کے خلاف بات کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ بہرحال حافظ بشیر احمد مرحوم تحفظ حیوانات اور ماحولیات کے ماہر ضرور تھے اور اس شعبہ میں ان کی خدمات یقیناً وقیع ہوں گی لیکن وہ ہماری مذہبی تاریخ کا بھی ایک جرأت مندانہ اور باحوصلہ کردار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، ان کی نیکیاں قبول کریں، غلطیوں کی معافی دیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔