(ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ۲۶ دسمبر ۱۹۹۳ء کو مسجد باب الرحمت، پرانی نمائش، کراچی میں منعقدہ علماء کنونشن کا خطبۂ استقبالیہ۔)
قابلِ صد احترام علمائے کرام، مشائخ عظام و راہنمایانِ ملت!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے آپ سب بزرگوں کا شکرگزار ہوں کہ انتہائی مختصر نوٹس پر آپ حضرات اس اجتماع میں تشریف لائے، اللہ پاک آپ کو جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔
حضراتِ محترم! آج کے اس علماء کنونشن کے دعوت نامہ سے آپ حضرات کو علم ہو چکا ہے کہ یہ اجتماع عالمِ اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاملات میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور اس کے روز افزوں منفی اثرات سے پیدا شدہ صورتحال کا خالصتاً دینی نقطۂ نظر سے جائزہ لینے کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اکابر اہلِ علم علمائے حق کی تاریخی روایات کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے اس نازک اور حساس مسئلہ پر شرعی اصولوں کی روشنی میں امتِ مسلمہ کی راہنمائی کریں تاکہ علماء اور دینی کارکن اس کی بنیاد پر اپنی آئندہ جدوجہد اور تگ و تاز کی راہیں متعین کر سکیں۔
راہنمایانِ قوم! علمائے حق کی تاریخ شاہد ہے کہ امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر جب بھی بیرونی قوتوں کی دخل اندازی اور سازشوں سے سابقہ پڑا ہے، علمائے امت نے آگے بڑھ کر ملتِ اسلامیہ کی راہنمائی کی ہے۔ تاتاری یورش کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی جدوجہد، اکبر بادشاہ کے دینِ الٰہی کے خلاف حضرت مجدد الف ثانیؒ کا نعرۂ حق، مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کے مقابلہ میں حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کی مومنانہ تدبیریں، اور فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کا فتوٰی جہاد علمائے حق کی اسی جدوجہد کے سنگ ہائے میل ہیں جو آج بھی اسلام کی بالادستی اور امتِ مسلمہ کی خودمختاری کی منزل کی طرف ہماری راہنمائی کرتے ہیں اور تاریخ کے اسی تسلسل کے ساتھ حال کا رشتہ جوڑنے کے لیے آپ حضرات کو اس کنونشن میں شرکت کی زحمت دی گئی ہے۔
زعمائے ملت! امریکہ جو اس وقت سب سے بڑی عالمی قوت اور اسلام کے خلاف کفر کی تمام قوتوں کا نقیب ہے، عالمِ اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو سبوتاژ کرنے اور بے اثر بنانے کے لیے جو جتن کر رہا ہے وہ آپ جیسے اصحابِ دانش و فراست سے مخفی نہیں ہیں، اور اس کے یہ مقاصد اب کسی پر پوشیدہ نہیں رہے کہ
- عالمِ اسلام کے کسی ملک میں اسلامی نظریاتی حکومت قائم نہ ہونے پائے،
- کوئی مسلم ملک معاشی خود کفالت اور اقتصادی خودمختاری کی منزل حاصل نہ کر سکے،
- کوئی مسلم ملک ایٹمی توانائی سمیت دفاع کی کوئی جدید تکنیک مہیا نہ کر سکے،
- عالمِ اسلام کے اتحاد اور سیاسی یکجہتی کی کسی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے نہ صرف دنیائے کفر کی تمام قوتیں بلکہ عالمِ اسلام کی سیکولر لابیاں اور لادین قوتیں بھی امریکہ کے ساتھ شریکِ کار ہیں۔
اسی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکہ کی مداخلت بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ یہ مداخلت جو پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی اب بڑھتے بڑھتے یہ کیفیت اختیار کر گئی ہے کہ پاکستان عملاً امریکہ کی نوآبادی بن کر رہ گیا ہے، اور اس کی قومی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں امریکہ کی رضامندی کے بغیر اعلٰی سطح کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اس وقت عملی صورتحال یہ ہے کہ
- امریکہ نے پاکستان کی امداد کو ۱۹۸۷ء میں جن شرائط کے ساتھ مشروط کیا تھا، روزنامہ جنگ لاہور (۵ مئی ۱۹۸۷ء) میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے روکنے کے اقدامات واپس لینے کے علاوہ اسلامی قوانین کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے ان کے نفاذ سے باز رہنے کی شرائط بھی شامل ہیں، جن پر امریکہ بدستور قائم ہے اور پورا کرانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔
- ماہنامہ محقق لاہور (دسمبر ۱۹۹۳ء) کے انکشاف کے مطابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے آخری دور میں ’’شریعت آرڈیننس‘‘ جاری کیا تو امریکی حکومت نے اس قدر سخت باز پرس کی کہ حکومتِ پاکستان کو اس پر عملدرآمد نہ ہونے کی یقین دہانی کرانا پڑی اور امریکہ کو سرکاری طور پر مطلع کرنے کے علاوہ دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں کو بھی ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ ان حکومتوں کو اس سے آگاہ کر دیں۔
- اس کے ساتھ ہی سرکاری طور پر منظور کرائے جانے والے ’’شریعت بل‘‘ میں قرآن و سنت کی بالادستی سے حکومتی ڈھانچے اور سیاسی نظام کو مستثنٰی قرار دینے جانے پر اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر نے کھلم کھلا جس طرح اطمینان کا اظہار کیا وہ اس سلسلہ میں امریکی پالیسیوں کے رخ کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔
- پاکستان کو ایٹمی توانائی کے حصول سے روکنے اور اپنے دفاع کے لیے خاطرخواہ انتظام کے شرعی اور جائز حق سے محروم کرنے کے لیے امریکہ جو کچھ کر رہا ہے وہ آپ بزرگوں کے سامنے ہے،
- اور پاکستان کو اقتصادی طور پر محتاج اور اپاہج بنائے رکھنے کی امریکی پالیسی روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔
- کشمیر کو تقسیم کر کے امریکی فوجی اڈہ بنانے کا منصوبہ منظرِ عام پر آ چکا ہے،
- اور امریکہ نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت پاکستان کی فوج کو صومالیہ میں الجھا کر وہاں کی مسلم آبادی سے پاک فوج کو لڑانے اور افریقی مسلمانوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی راہ ہموار کی ہے اور اس کے اثرات بتدریج سامنے آ رہے ہیں۔
ان حالات میں آپ بزرگوں کو زحمت دی گئی ہے کہ اسلام کی بالادستی، عالمِ اسلام کے اتحاد، مسلمانوں کی خودمختاری، مذہبی آزادی اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے امتِ مسلمہ کی راہنمائی فرمائیں اور دینی جماعتوں، علماء اور کارکنوں کے لیے ایک ایسا واضح لائحہ عمل متعین فرمائیں جو امریکی استعمار کے تسلط سے عالمِ اسلام اور پاکستان کی حقیقی آزادی کی جدوجہد کی دینی بنیاد ثابت ہو۔
میں ایک بار پھر تشریف آوری پر آپ سب بزرگوں کا شکرگزار ہوں، فجزاکم اللہ احسن الجزاء۔