دینی مدارس میں تحقیق و صحافت: موجودہ صورتحال اور آئندہ لائحہ عمل

   
۲۵ جولائی ۲۰۰۴ء

۲۱ جولائی ۲۰۰۴ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شیخ زاید اسلامک سنٹر میں مندرجہ بالا عنوان پر ایک سیمینار میں شرکت و خطاب کا موقع ملا۔ اس راؤنڈ ٹیبل سیمینار کا اہتمام انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد نے شیخ زاید اسلامک سنٹر کے تعاون سے کیا۔ اس کی صدارت پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد نے کی اور اس میں ملک کے سرکردہ ماہرین تعلیم، محققین اور صحافیوں نے شرکت کی، جن میں ڈاکٹر قیوم قریشی، ڈاکٹر ظہور احمد اظہر، مولانا حافظ عبدالرحمٰن مدنی، پروفیسر عبد الجبار شاکر، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ڈاکٹر اکرم چودھری، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، ڈاکٹر مسکین علی حجازی اور ڈاکٹر احسن اختر ناز بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد کے جناب خالد رحمان نے سیمینار کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے شرکاء کو بتایا کہ دینی مدارس کے حوالہ سے انسٹیٹیوٹ کی طرف سے ایک عرصہ سے اس نوعیت کے سیمینار منعقد ہو رہے ہیں، جن کا مقصد دینی مدارس کے تاریخی کردار کی وضاحت و اعتراف، ان کے بارے میں عالمی سطح پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ، ان کے نصاب و نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے تجاویز پیش کرنا اور مختلف مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور اس غرض کے لیے ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی اس قسم کے اجتماعات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

سیمینار میں ساٹھ کے لگ بھگ اصحاب فکر و دانش نے شرکت کی اور مختلف عنوانات پر مقالات پیش کیے گئے، جن پر شرکاء نے تفصیلی گفتگو کی اور دینی مدارس میں تحقیق و تصنیف اور صحافت کے فروغ کے بارے میں اپنے تاثرات و احساسات پیش کرنے کے علاوہ اصلاح احوال اور مزید پیشرفت کے لیے مختلف تجاویز کا جائزہ لیا۔

ڈاکٹر مسکین علی حجازی نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ برصغیر میں اردو صحافت کا باقاعدہ آغاز علماء کرام سے ہوا تھا اور اگر آپ نصف صدی قبل کی صحافت کا جائزہ لیں گے تو آپ کو اس خطہ میں بڑے بڑے صحافی علماء کرام کی صف میں ہی ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ آج کے دور میں دینی مدارس میں صحافت کا معیار باقی نہیں رہا، لیکن دوسرے قومی شعبوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے اور زوال و ادبار کے اثرات ہر طرف اسی طرح نظر آ رہے ہیں۔

ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر رفیق احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ دینی مدارس کی اہمیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور ان سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ ایک سروے کے مطابق ملکی آبادی کے تقریباً انتالیس فی صد افراد بنیادی دینی تعلیم یا معلومات کے لیے ان مدارس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس لیے اب یہ زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ دینی مدارس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جائے، ان کے ڈھانچہ کو اور زیادہ مضبوط و مستحکم کیا جائے اور مختلف مکاتب فکر سے دینی مدارس کے وفاقوں کے درمیان تعاون و اشتراک کا دائرہ بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دور کلچر اور ثقافت کے فروغ اور کشمکش کا ہے، اس لیے دینی مدارس میں اس پر بحث کی جائے اور اسے تدریس و مطالعہ کے ذریعہ طلبہ کے علم میں لایا جائے۔

بہاولپور اسلامی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قیوم قریشی نے کہا کہ اگر یہ دینی مدارس نہ ہوتے تو ڈیڑھ سو سالہ غلامی کی طویل تاریک رات میں کوئی اذان دینے والا نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی ہمیں جنازہ پڑھانے والا ملتا۔ آج اگر ہم نماز، روزہ اور دیگر اسلامی اقدار سے وابستہ ہیں تو یہ صرف دینی مدارس کی وجہ سے ہے اور دینی مدارس کے اس تاریخی کردار کا ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جدید علوم کو سیکولر قرار دے کر دینی مدارس سے الگ نہ رکھا جائے، بلکہ دینی مدارس میں ان کی تدریس و مطالعہ کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لیے مدارس کی درجہ بندی کی جائے اور بعض مدارس کو تحقیق کے لیے مخصوص کر کے انہیں وسائل اور مواقع مہیا کیے جائیں۔

ماہنامہ ”محدث“ لاہور کے مدیر حافظ حسن مدنی نے بتایا کہ دینی مدارس میں تحقیق کا کام اعلیٰ سطح پر ہو رہا ہے اور مختلف مدارس میں نہ صرف دارالافتاء قائم ہیں، بلکہ بڑی بڑی لائبریریاں موجود ہیں، رسائل و جرائد شائع ہو رہے ہیں، تخصص کے مختلف شعبوں میں طلبہ سے تحقیقی مقالات لکھوائے جاتے ہیں اور تصنیف و تالیف کے مستقل شعبے قائم ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر احسن اختر ناز نے دینی مدارس کی طرف سے شائع ہونے والے جرائد پر ناقدانہ تبصرہ کیا اور کہا کہ اگرچہ ان جرائد کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، لیکن مواد اور پیغام کے حوالہ سے ان میں کوئی کشش نہیں ہے اور طباعت کا معیار بھی دیگر جرائد سے فروتر ہے۔ ان میں سے بیشتر جرائد صرف جامعات، مسلکوں اور درگاہوں کے ترجمان ہیں، زبان غیر مانوس ہوتی ہے، اظہار شدت پسندانہ ہوتا ہے اور عمومی اور معیاری تحقیق کی بجائے ان جرائد کی پالیسی پر مسلکی یا شخصی چھاپ نمایاں ہوتی ہے، جبکہ اشاعت کا دائرہ بھی بہت کم اور صرف عقیدت مند حلقے تک محدود ہے اور عام لوگوں میں ایسے جرائد و رسائل کی اشاعت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ دلچسپی لیتے ہیں۔

ڈاکٹر محمود الحسن عارف نے کہا کہ مدارس میں ہر سطح کے ادارے ہیں۔ حفظ قرآن کریم کے ابتدائی مدارس سے بڑے بڑے جامعات تک سب کو مدارس میں شمار کیا جاتا ہے اور ان سب سے تحقیقی کام کی توقع رکھنا غلط ہے۔ تحقیق کا کام تو بڑے بڑے جامعات میں ہوتا ہے اور ہو رہا ہے۔ ان جامعات سے فارغ ہونے والے فضلاء ملک کی مختلف یو نیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آتے ہیں تو عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ان کی ذہنی استعداد اور صلاحیت دوسرے طلبہ سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کی بنیاد دینی مدارس کے تعلیم و تربیت کے نظام پر ہے اور اسی ماحول کی تربیت کی وجہ سے وہ یونیورسٹیوں میں سے آ کر کارکردگی اور معیار میں دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں۔

راقم الحروف نے اپنی گزارشات میں مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیا اور عرض کیا کہ دینی مدارس میں تحقیق و صحافت کے حوالہ سے بہت سے کام ہو رہے ہیں، مثلاً:

  1. دارالافتاء قائم ہیں۔
  2. تخصص کے شعبے ہیں۔
  3. تصنیف و تالیف کا کام وسیع پیمانے پر موجود ہے۔
  4. سینکڑوں دینی جرائد شائع ہو رہے ہیں۔
  5. قرآن کریم کی تفاسیر، احادیث کی شروحات اور فقہ کی کتابوں کے تراجم ہو رہے ہیں۔
  6. مختلف یونیورسٹیوں میں دینی مدارس کے فضلاء نے سینکڑوں کی تعداد میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے ہیں۔
  7. بہت سے دینی مدارس نے اپنی اپنی ویب سائٹس قائم کر رکھی ہیں۔
  8. علمی مجالس کے ذریعہ اجتماعی تحقیق کا ذوق بھی بڑھ رہا ہے۔

مگر اس کے ساتھ بہت سے منفی پہلو بھی ہیں، جن پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے، مثلاً:

  1. تحریروں میں مسلکی اور شخصی فکر کی برتری کا رجحان غالب ہے۔
  2. باہمی مسلکی اور فقہی مباحث میں بسا اوقات زبان کا معیار بہت پست ہوتا ہے۔
  3. عالمی تحقیقی اداروں، تحقیق اور ریسرچ کے جدید اسلوب، ذرائع، مواد اور طریق کار سے استفادہ ہمارے ہاں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
  4. لائبریریوں کی حالت تسلی بخش نہیں ہے، تحقیق کی ضرورت کی کتابیں اکثر مدارس میں میسر نہیں ہیں اور جہاں موجود ہیں وہاں اساتذہ اور طلبہ کی ضرورت اور سہولت کے مطابق کتابوں تک رسائی نہیں ہے۔
  5. نسل انسانی کا معاشرتی ارتقاء، تاریخ، نفسیات، تقابل ادیان ، تہذیب و ثقافت اور دیگر ضروری علوم ہماری تدریس و مطالعہ کے دائرہ سے خارج ہیں۔

راقم الحروف نے اپنی گزارشات تحریری مضمون کی صورت میں پیش کیں جو الشریعہ اگست میں شائع ہو رہا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس میں آخر میں یہ گزارش کی ہے کہ ہمیں خود احتسابی کے جذبہ کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینا چاہیے اور دینی مدارس کے وفاقوں کو الگ الگ طور پر اور پھر اجتماعی حیثیت سے بھی اس صورتحال پر غور کر کے اصلاح احوال کی صورت اختیار کرنی چاہیے۔

چائے کے تھوڑے سے وقفہ کے ساتھ یہ نشست کم و بیش پانچ گھنٹے جاری رہی اور دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر اصحاب دانش نے کھلے دل کے ساتھ متعلقہ امور پر بحث و مباحثہ میں حصہ لیا اور دونوں طبقوں کو ایک دوسرے کے نقطہ نظر اور پوزیشن کو سمجھنے میں مدد ملی۔ اس کامیاب سیمینار پر شیخ زاید اسلامک سینٹر اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز دونوں شکریہ اور تبریک کے مستحق ہیں۔ اس قسم کے اجتماعات کا اہتمام اگر بڑے بڑے مدارس میں بھی ہو تو ان کی افادیت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter