روزنامہ جنگ لاہور نے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۰ء کو مندرجہ ذیل خبر شائع کی ہے کہ
’’لندن (نمائندہ جنگ) اٹلی کی عورتوں کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ دن کے وقت ازدواجی زندگی سے باہر تعلقات قائم کر سکتی ہیں لیکن رات کے وقت انہیں گھر آنا ہو گا تاکہ ان کے خاوند کی عزت مجروح نہ ہو۔ یہ فیصلہ اٹلی کی سپریم کورٹ نے دیا ہے۔ مرد ججوں نے ایک ماتحت عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اٹلی میں عورتیں دن کے وقت خاوندوں سے بے وفائی تو کر سکتی ہیں لیکن اگر رات کو گھر لوٹ آئیں تو وہ زنا کی مرتکب نہیں ہوتیں۔ اٹلی میں ۱۹۶۸ء تک دوسرے مردوں سے جنسی تعلقات مجرمانہ اقدام تھا لیکن جب رومن کیتھولک کا اثر کم ہوا تو اسے آئینی عدالت نے آئین سے خارج کر دیا۔‘‘
اس سے مغرب کی آزادئ نسواں کی اس تحریک کے اصل مقاصد کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو مغربی ممالک میں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اور اسے مشرقی اور اسلامی ممالک میں درآمد کرنے کے لیے مغربی ادارے اور ان کے ہم خیال نام نہاد حلقے بالخصوص این جی اوز دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔
جہاں تک مذہبی روایات کا تعلق ہے، زنا مسیحی تعلیمات میں بھی اسی طرح کا سنگین جرم ہے جس طرح قرآن و سنت میں اس کی سنگینی بیان کی گئی ہے۔ اور بائبل میں بھی زنا کی سزا کے طور پر سنگسار کرنے کا ذکر موجود ہے، بلکہ بائبل میں کسی عورت پر بری نظر ڈالنے کو بھی زنا کے ساتھ شمار کیا گیا ہے۔ لیکن جب مغربی سولائزیشن کا مقصد ہی انسانی سوسائٹی سے مذہب کے وجود کو ختم کرنا اور انسانی زندگی کے اجتماعی معاملات سے مذہب کے کردار کو بے دخل کرنا ہے تو تورات، انجیل اور قرآن کریم کی مشترکہ تعلیمات کی بھی مغربی دانشوروں کے نزدیک کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ اور یہی وہ اصل نکتہ ہے جس پر آسمانی مذاہب (یہودیت، مسیحیت اور اسلام) کے سنجیدہ مذہبی دانشوروں کو غور کرنا چاہیے۔ کیونکہ جب تک وہ آسمانی تعلیمات اور مشترکہ مذہبی روایات و اقدار کے تحفظ کے لیے مل جل کر کوئی کوشش نہیں کریں گے، سراسر مذہب دشمنی پر مشتمل مغربی فلسفہ کی یلغار کو روکنا اور فطری اقدار کے ساتھ نسلِ انسانی کا رشتہ باقی رکھنا مشکل ہو گا۔