روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۵ فروری ۲۰۰۲ء کے کالم سرِراہے میں مندرجہ ذیل خبر نقل کی ہے کہ
’’ایک نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ امریکہ نے سعودی حکمرانوں سے عالمِ اسلام کی نامور دینی درسگاہ الجامعۃ الاسلامیۃ (مدینہ یونیورسٹی) بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے الزام لگایا ہے کہ پینٹاگون اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کرنے والوں میں سے زیادہ تر افراد اسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکہ ریاض، جدہ اور مکہ کی یونیورسٹیوں کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا کیونکہ اس کی نظر میں یہ یونیورسٹیاں بھی بنیاد پرستی پھیلا رہی ہیں۔ لیکن ابتدائی طور پر اس نے مدینہ یونیورسٹی کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ تو ابھی ابتدا ہے ورنہ امریکہ سے جو خبریں آ رہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے دانشور قرآن کو بھی دہشت گردی کی تعلیم دینے والی کتاب سمجھتے ہیں۔‘‘
اس سے قبل ہم عرض کر چکے ہیں کہ امریکہ کے سابق صدر کلنٹن نے خود سعودی عرب جا کر وہاں کے دانشوروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے نصابِ تعلیم میں تبدیلی کریں اور خاص طور پر اس میں عقیدہ کی تلقین کو ترک کر دیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام سے امریکی اتحاد نے گزشتہ اکتوبر سے دنیا بھر میں جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کے اصل مقاصد کیا ہیں، اور دہشت گردی کے خاتمہ کے عنوان سے امریکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کس چیز سے محروم کرنا چاہتا ہے۔
جہاں تک ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر حملوں کا تعلق ہے ان کی ہر باشعور شخص نے مذمت کی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حملے خلیج عرب کے حوالے سے امریکی پالیسیوں اور اس کے پون صدی کے مسلسل کردار کا ردعمل ہیں۔ اور ان حملوں کی وجہ مدینہ یونیورسٹی کی تعلیم نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجوں کی موجودگی، اس خطہ کے عوام پر جبر کی کیفیت، اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی مکمل پشت پناہی ہے۔ جس کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کا کی کوئی راہ نہ پا کر ممکن ہے کچھ نوجوان اس رخ پر چل پڑے ہوں، جس کا الزام مدینہ یونیورسٹی کے چند فارغ التحصیل طلبہ پر عائد کیا جا رہا ہے۔ ورنہ مدینہ یونیورسٹی سے اب تک جو ہزاروں طلبہ فارغ ہوئے ہیں وہ دنیا کے مختلف حصوں میں خاموشی اور وقار کے ساتھ دینی خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ اور چند افراد کے مبینہ اقدام کی ذمہ داری مدینہ یونیورسٹی اور اس کے فارغ التحصیل حضرات پر عائد کرنا کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں ہے۔ لیکن یہاں تو مسئلہ ہی اور ہے اور معاملہ انصاف اور اصولوں کی پاسداری کا نہیں بلکہ موقع سے فائدہ اٹھانے اور اس بہانے مسلمانوں کو دبانے اور دباتے چلے جانے کا ہے۔ جس کے لیے امریکہ بہادر ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد مسلسل سرگرمِ عمل ہے۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اور اداروں کو مسلمانوں سے اصل شکایت یہی ہے کہ وہ اپنے عقیدہ سے لاتعلق ہونے کے لیے کسی صورت میں تیار نہیں ہو رہے۔ اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر وہ عمل کریں یا نہ کریں مگر ان سے اعتقادی و ذہنی دستبرداری پر انہیں آمادہ کرنا کسی حالت میں ممکن نظر نہیں آ رہا۔ ان قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مدینہ یونیورسٹی، پاکستان کے دینی مدارس، اور عالم اسلام کی دیگر درسگاہیں مسلمانوں میں عقیدہ کی پختگی پیدا کر رہی ہیں اور قرآن و سنت کے ساتھ مسلمانوں کی بے لچک وابستگی کا باعث ہیں۔ جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ ان درسگاہوں کا وجود عقیدہ کی بدولت قائم ہے، اور ان درسگاہوں نے مسلمانوں میں عقیدہ پیدا نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کا عقیدہ اور قرآن و سنت کے ساتھ ان کی بے لچک وابستگی کی وجہ سے یہ درسگاہیں وجود میں آئی ہیں۔ اس لیے اگر خدانخواستہ یہ درسگاہیں ختم بھی ہو گئیں تو اس سے مسلمانوں کا عقیدہ ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ اپنے اظہار کے لیے کوئی اور راستہ نکال لے گا۔ جیسا کہ اس سے قبل برطانوی استعمار نے برصغیر میں ان درسگاہوں کا نظام ختم کر کے ان کا نتیجہ دیکھ لیا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ سعودی حکمران امریکہ کے اس سراسر ناجائز مطالبہ کو غور کے قابل بھی نہیں سمجھیں گے۔ لیکن ہماری گزارش ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے حکمرانوں کو ان اسباب کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے جن کی وجہ سے حالات اس امریکی مطالبہ کی نوبت تک پہنچ گئے ہیں۔ عرب حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ معاملات کو کہیں نہ کہیں بریک لگانے کی ضرورت محسوس کریں اور اس کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ ورنہ اگر اب بھی مسلمانوں اور عربوں کے عقیدہ و دین کے خلاف اس یکطرفہ یلغار کو بریک نہ لگی تو آخر اس کا وقت پھر کب آئے گا؟