لوئیس فرخان اور نیشن آف اسلام

   
۳۰ جولائی ۱۹۹۸ء

امریکہ کی سیاہ فام آبادی سے تعلق رکھنے والی تنظیم ’’نیشن آف اسلام‘‘ اور اس کے لیڈر لوئیس فرخان کے بارے میں ان دنوں عالمی ذرائع ابلاغ سے مختلف پروگرام نشر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے یہ خبر آئی تھی کہ برطانوی ہوم آفس نے لوئیس فرخان کے برطانیہ میں داخلے پر وہ پابندی برقرار رکھی ہے جو ۱۹۸۶ء میں اس بنا پر عائد کی گئی تھی کہ اس کے آنے سے نسلی فسادات بھڑک اٹھنے کا خطرہ ہے۔ اس خبر کے مطابق برطانیہ میں لوئیس فرخان کے پیروکاروں کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ ہے اور اس گروپ کے ارکان کئی سکول بھی چلا رہے ہیں۔ لوئیس فرخان نے گزشتہ دنوں برطانیہ آنے کی اجازت طلب کی تھی اور یہ لکھ کر دیا تھا کہ وہ برطانیہ کے قوانین کی پابندی کریں گے، لیکن اسی دوران قتل کے ایک مقدمہ کے سلسلہ میں ان کے پیروکاروں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا، جس کی وجہ سے برطانوی حکومت نے ان کی درخواست قبول نہ کرنے اور پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ادھر لیبیا کے صدر جناب معمر القذافی نے اس سال عید میلاد النبیؐ کے موقع پر جن عالمی لیڈروں کو لیبیا آنے کی دعوت دی ان میں لوئیس فرخان بھی شامل ہیں۔ وہ لیبیا حکومت کی طرف سے طلب کردہ مسلم لیڈروں کے عالمی اجتماع میں شریک ہوئے۔ لوئیس فرخان اس سے قبل بھی لیبیا کا کئی بار دورہ کر چکے ہیں اور ایک موقع پر جب لیبیا کے صدر معمر القذافی نے لوئیس فرخان کی سربراہی میں کام کرنے والی تنظیم نیشن آف اسلام کو امریکہ میں اسلام کی تبلیغ اور رفاہی کاموں کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا اور اس کی صدائے بازگشت امریکی حکومت کے اعلیٰ ایوانوں میں بھی سنی گئی اور امریکی کانگریس کے ایک ممبر پیٹرکنگ نے کانگریس سے تقاضہ کیا کہ لوئیس فرخان کو اس بات کی وضاحت کے لیے کانگریس میں طلب کیا جائے کہ انہیں صدر قذافی کی طرف سے ملنے والی اس امداد سے امریکی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، لیکن اس کے باوجود لوئیس فرخان طرابلس پہنچے اور امداد کی پہلی قسط (غالباً دس لاکھ ڈالر) وصول کی۔

انہی دنوں لوئیس فرخان نے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک عوامی ریلی منعقد کی جس میں عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق دس لاکھ کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی اور اس میں کھلے بندوں اذان، نماز اور قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ یہ تاثر دیا گیا کہ نیشن آف اسلام امریکہ میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ہے اور اس کے بعد سے عالمی ذرائع ابلاغ نیشن آف اسلام اور لوئیس فرخان کو اسی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں ضروری ہو گیا ہے کہ نیشن آف اسلام کے بارے میں تعارفی معلومات کو منظرِ عام پر لایا جائے تاکہ عام مسلمان امریکہ میں اسلام کے نام پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے والی اس تحریک کے عقائد و نظریات اور مقاصد سے آگاہ ہو سکیں۔

نیشن آف اسلام امریکہ کے آنجہانی سیاہ فام لیڈر ایلی جاہ محمد کی قائم کردہ تنظیم ہے اور گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھانے سے قبل اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ لفظ عالی جاہ نہیں ہے جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر لکھا جاتا ہے بلکہ ایلی جاہ ہے جو الیاس کا انگلش تلفظ ہے جس طرح یعقوب کو انگریزی میں جیکب اور یوسف کو جوزف کہا جاتا ہے اسی طرح الیاس کو ایلی جاہ بولا جاتا ہے۔ ایلی جاہ کا اصل نام ایلی جاہ پول تھا وہ ۱۸۹۷ء میں امریکی ریاست جارجیا میں عیسائیوں کے بیپٹسٹ فرقہ کے ایک واعظ کے ہاں پیدا ہوا۔ آٹو موبائیل کا کاریگر تھا۔ ۱۹۳۰ء میں اس کی ملاقات امریکی شہر ڈیٹرائٹ میں ولی دی فادر نامی ایک مبلغ سے ہوئی اور اس سے متاثر ہو کر اس نے اسلام کے نام پر اس کا مذہب قبول کر کے اپنا نام ایلی جاہ محمد رکھ لیا۔ ولی دی فادر جسے نیشن آف اسلام کے حلقوں میں ماسٹر ڈبلیو فادر محمد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس کے بارے میں انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں ہے کہ یہ شخص ۱۸۷۷ء میں مکہ میں پیدا ہوا اور ۱۹۳۰ء میں امریکہ چلا گیا۔ وہاں اس نے شکاگو میں مسجدیں بنائیں۔ وہ سیاہ فام شخص تھا، اس نے امریکہ کے سیاہ فاموں کے بتایا کہ وہ ان کی راہنمائی اور نجات کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جبکہ نیشن آف اسلام کے ارکان کا اس کے بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ وہ خدا کا فرستادہ اور کالوں کا نجات دہندہ تھا بلکہ خود اللہ تعالیٰ اس کی شکل میں ظاہر ہوا تھا۔ ایلی جاہ محمد ۱۹۳۰ء میں اس کا ساتھی بنا اور تھوڑے عرصہ میں ہی اس کے دست راست کی حیثیت اختیار کر لی۔

۱۹۳۴ء میں فارد محمد پُراسرار طور پر غائب ہو گیا اور ایلی جاہ محمد نے اس کے جانشین کے طور پر اس گروہ کی قیادت سنبھال لی۔ ایلی جاہ کا دعوی تھا کہ وہ خدا کا پیغمبر ہے اور سیاہ فاموں کی نجات اور برتری کے لیے بھیجا گیا ہے۔ امریکہ میں سیاہ فاموں پر صدیوں سے چلے آنے والے مظالم اور نسلی تفریق کے پس منظر میں اس نے اپنے پیروکاروں کو یہ عقیدہ دیا کہ دنیا کی قدیم سوسائٹیوں کے اصل راہنما سیاہ فام ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں جبکہ سفید فام شیطان کی نسل سے ہیں اور ان کی برتری کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اس نے سیاہ فاموں کو امریکی فوج میں بھرتی ہونے سے منع کیا جس کی پاداش میں اسے ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۶ء تک جیل بھگتنا پڑی اور اسے کالوں کے مسلمہ لیڈر کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس نے اپنے گروہ کا نام ’’نیشن آف اسلام‘‘ رکھا اور ’’محمد بولتا ہے‘‘ کے نام سے آرگن جاری کیا۔ اس نے کہا کہ سیاہ فام سب کے سب فطرتاً مسلمان ہیں اس لیے انہیں گوروں کے مذہب (عیسائیت) کو چھوڑ دینا چاہیے۔ ایلی جاہ محمد بنیادی طور پر سفید فاموں کے صدیوں سے چلے آنے والے مظالم کے خلاف سیاہ فاموں کے فطری ردِعمل کا نمائندہ تھا اور اس کے عقائد و افکار اور سرگرمیاں سفید فاموں کے خلاف اسی ردِعمل اور نفرت کے اظہار کے گرد گھومتی رہیں، لیکن اس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنی تحریک کو مذہبی رنگ دے دیا۔

اسی دوران اسے عالمی مکہ باز محمد علی کلے اور مالکم ایکس جیسے ساتھی مل گئے جن کی وجہ سے اس کی تحریک کو بہت زیادہ شہرت اور وسعت حاصل ہوئی۔ محمد علی کلے کو تو ساری دنیا جانتی ہے، البتہ مالکم ایکس کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ شخص ۱۹۲۵ء میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام مالکم ایکس تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی جرائم کی دنیا میں آگے بڑھنے لگا اور رفتہ رفتہ ایک ٹولی کا لیڈر بن گیا۔ ۱۹۴۶ء میں چوری کے الزام میں جیل چلا گیا جہاں سے ۱۹۵۲ء میں رہائی ملی۔ جیل کے دوران ایلی جاہ محمد کی تحریک سے متعارف ہوا اور اس میں شامل ہو گیا۔ رہائی کے بعد ایلی جاہ محمد سے ملا اور اس کا سرگرم ساتھی بن گیا۔ شعلہ نوا مقرر تھا، تھوڑے دنوں میں ایلی جاہ کے دست راست کی حیثیت اختیار کر لی۔ اسی طرح محمد علی کلے نے بھی ایلی جاہ محمد کی تحریک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا تھا اس لیے وہ بھی اس گروہ کے لیے خاصی تقویت کا باعث بنا، لیکن مالکم لٹل جو اَب مالکم ایکس یا مالکم شہباز کے نام سے متعارف ہو چکا تھا اور محمد علی کلے دونوں کو یہ فضا زیادہ دیر تک راس نہ آئی۔ محمد علی کلے کو دنیا کے مختلف حصوں کے مسلمانوں سے ملاقات کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اس لیے اس نے جلد محسوس کر لیا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا اسلام اور ایلی جاہ محمد کا اسلام دو مختلف اور متضاد مذہب ہیں۔

جبکہ مالکم ایکس کو ۱۹۶۴ء میں حج کے لیے حرمین شریفین میں حاضری کا موقع ملا تو دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمانوں کو دیکھ کر اس کے ذہن کے دریچے کھل گئے۔ چنانچہ حج سے واپسی پر امریکہ پہنچ کر اس نے ایلی جاہ محمد کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا اور محمد علی کلے نے بھی اس بغاوت میں اس کا ساتھ دیا۔ ان دونوں نے اہل سنت والجماعت کے عقائد کی بنیاد پر دنیا بھر کی مسلم برادری میں شمولیت اختیار کر لی اور مالکم شہباز نے نیویارک میں مسلم مسجد کے نام سے الگ مرکز بنا لیا جو راقم الحروف نے دیکھا ہے۔ ۲۱ فروری ۱۹۶۵ء کو ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مالکم شہباز کو شہید کر دیا گیا جس کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ قتل ایلی جاہ محمد کے ایما پر کیا گیا، البتہ مالکم شہباز شہیدؒ کی شہادت کے بعد بھی ان کا مرکز اور گروپ صحیح اسلام کے لیے بدستور سرگرم عمل ہے۔ ایلی جاہ محمد اس کے بعد ۱۹۷۵ء تک زندہ رہا اور اپنے گروہ کی قیادت کرتا رہا۔ ۱۹۷۵ء میں اس کی وفات ہوئی تو اس کے بیٹے وارث دین محمد نے اس کے جانشین کی حیثیت سے گروہ کی قیادت سنبھال لی، لیکن باپ کے غلط عقائد پر قائم رہنے کی بجائے اس نے بھی مالکم شہباز اور محمد علی کلے کا راستہ اختیار کیا اور اہل سنت والجماعت کے عقائد اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیم کا نام بدل دیا اور اپنے ساتھیوں کے لیے ’’بلالی مسلم‘‘ کا خطاب اختیار کیا۔

مگر بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ وارث دین محمد کے ان اعلانات کے بعد ایلی جاہ محمد کے ایک اور ساتھی لوئیس فرخان نے جو اس سے قبل مالکم شہباز شہید اور محمد علی کلے کے ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا الٹی زقند لگا کر ایلی جاہ محمد کی جانشینی کا دعویٰ کر دیا اور اس کے عقائد پر واپس جاتے ہوئے اس کے گروہ کی قیادت سنبھال لی۔ چنانچہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وارث دین محمد، محمد علی کلے اور ان کے ساتھ امام سراج وہاج اہلسنت والجماعت (شافعی مسلک) عقائد کی بنیاد پر صحیح العقیدہ مسلمانوں کی راہنمائی کر رہے ہیں، جبکہ لوئیس فرخان ایلی جاہ محمد کے جانشین ہونے کا دعویٰ کر کے نیشن آف اسلام کی قیادت سنبھالے ہوئے ہے۔ لوئیس فرخان انتہائی عیار اور چالاک شخص ہے وہ ایک طرف تو خود کو ایلی جاہ محمد کا نمائندہ قرار دیتا ہے اور اپنے سرکاری آرگن ’’دی فائنل کال‘‘ میں اس کے عقائد و نظریات کا مسلسل پرچار کر رہا ہے، مگر دوسری طرف دنیا بھر کی مسلمان تنظیموں اور حکومتوں کے ساتھ روابط بڑھا کر ان سے اخلاقی اور مالی تعاون بھی حاصل کر رہا ہے۔ یہ شخص ایلی جاہ محمد کے غلط عقائد کے خلاف بغاوت میں محمد علی کلے اور مالکم شہباز شہید کے ساتھ تھا، لیکن اس نے وارث دین محمد کے اعلانات کے بعد جب ایلی جاہ محمد کی سیٹ خالی دیکھی تو فوراً پلٹ کر اس کے گروہ کی قیادت سنبھال لی۔ اس نے ایلی جاہ محمد کے بیٹے وارث دین محمد کے خلاف امریکی عدالتوں میں ایک طویل مقدمہ لڑا کہ چونکہ وارث دین محمد اپنے باپ کے عقائد سے منحرف ہو گیا ہے اس لیے ایلی جاہ محمد اور نیشن آف اسلام کے اثاثوں پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ مقدمہ لوئیس فرخان نے جیت لیا ہے اور وہ تمام اثاثہ اب اس کے پاس ہیں، لیکن مسلمان اداروں سے مفادات اٹھانے میں بھی وہ پیش پیش ہے۔

۱۹۹۰ء میں رابطہ عالم اسلامی نے امریکہ میں مسلمان تنظیموں کی ایک کانفرنس منعقد کی تو اس میں لوئیس فرخان بطور مہمان خصوصی شریک تھا۔ اس نے اس کانفرنس کی رپورٹ اور تصویریں اپنے آرگن ’’دی فائنل کال‘‘ کے ۳۱ اکتوبر ۱۹۹۰ء کے شمارے میں نمایاں طور پر ’’مسلمان متحد ہو گئے‘‘ کے عنوان کے ساتھ شائع کیں، اس پر امریکہ کی مسلمان تنظیموں میں اضطراب پیدا ہوا۔ چنانچہ شکاگو کے ایک مسلم ادارہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک انفارمیشن اینڈ ایجوکیشن کے مدیر ڈاکٹر امیر علی نے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف کو ایک تفصیلی یادداشت بھجوائی جس کی ایک کاپی شکاگو حاضری کے موقع پر انہوں نے مجھے بھی مرحمت فرمائی۔ اس یادداشت کے ساتھ نیشن آف اسلام کے سرکاری ترجمان دی فائنل کال کی ۲۸ ستمبر ۱۹۹۰ء کی اشاعت کے ایک صفحہ کی فوٹو کاپی بھی منسلک ہے جس میں ایلی جاہ محمد کی فوٹو کے ساتھ ’’مسلمانوں کے عقائد کیا ہیں؟‘‘ کے عنوان سے نیشن آف اسلام کے عقائد درج ہیں۔ ان عقائد میں جہاں کالوں کی برتری اور آنے والے دور میں ان کی بالادستی کا ذکر ہے وہاں یہ بھی ہے کہ قیامت امریکہ میں قائم ہو گی اور اس کے نتیجے میں کالوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ ان عقائد میں یہ بھی لکھا ہے کہ قیامت کے دن سزا و جزا کا تعلق جسم و بدن کے ساتھ نہیں ہوگا بلکہ یہ روحانی اور ذہنی سکون یا اذیت کی صورت میں ہوگی اور انہی عقائد میں ماسٹر ڈبلیو فادر محمد کے بارے میں لکھا ہے کہ:

’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ۱۹۳۰ء میں ماسٹر فادر محمد کی شکل میں ظاہر ہوا تھا۔ یہ وہی مسیح ہے جس کا عیسائیوں کو مدت سے انتظار ہے اور وہی مہدی ہے جس کا مسلمانوں کو انتظار ہے۔‘‘

اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ لوئیس فرخان کی قیادت میں نیشن آف اسلام کے نام سے پیشرفت کرنے والی اس جماعت کا اسلام اور ملت اسلامیہ کے ساتھ کتنا کچھ تعلق ہے اور بعض مسلمان حکومتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اسلام کے نام پر کس قسم کے گمراہ لوگوں کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ادارے اور جماعتیں اس سلسلہ میں بیداری کا مظاہرہ کریں اور نیشن آف اسلام کو تقویت دینے کی بجائے امریکہ بھر کے مسلمانوں کو اس گمراہی سے بچانے کے لیے اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا اہتمام کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter