موجودہ ملکی و علاقائی صورت حال میں علماء دیوبند کا’’مشترکہ موقف‘‘

   
تاریخ : 
مئی ۲۰۱۰ء

۱۵ اپریل ۲۰۱۰ء کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں ملک بھر سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سرکردہ علماء کرام کا ایک بھرپور اور نمائندہ اجتماع منعقد ہوا جن کا تعلق دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی دینی و سیاسی جماعتوں، دینی مدارس اور علمی مراکز سے تھا، ایک عرصہ کے بعد مسلکی حوالہ سے اس قدر بھرپور اور نمائندہ اجتماع دیکھنے میں آیا جبکہ ملکی صورت حال اور علماء دیوبند کے بارے میں ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر کیے جانے والے مسلسل اعتراضات اور پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کے پس منظر میں اس قسم کے اجتماع کی ضرورت کافی عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی ۔

اس سے قبل ۱۳۔۱۴، اپریل کو جامعہ اشرفیہ میں ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ اکابر علماء کرام باہم سر جوڑے، بیٹھے رہے او رپیش آمدہ واقعات و حالات کے تناظر میں مسلکی بنیاد پر کوئی اجتماعی موقف طے کرنے کے لئے ان کے درمیان مشاورت چلتی رہی۔

اس اجتماع اور مشاورت میں شریک ہونے والے حضرات میں صدر وفاق المدارس و صدر اجلاس حضرت مولانا سلیم اللہ خان، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا عبد المجید آف کہروڑ پکا، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا عبید اللہ اشرفی، مولانا فضل الرحیم، مولانا عبد الرحمن اشرفی، مولانا سید عبد المجید ندیم، مولانا محمد احمد لدھیانوی، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں، مولانا اللہ وسایا، مولانا اشرف علی، مولانا عبد السلام، مولانا قاضی ارشد الحسینی، حافظ حسین احمد، مولانا پیر عزیز ارحمن ہزاروی ،مولانا مفتی حبیب الرحمن درخواستی، مولانا محمد عبد اللہ آف بھکر، مولانا انوار الحق حقانی، مفتی کفایت اللہ ہزاروی اور مولانا سعید یوسف خان بطور خاص قابل ذکر ہیں، راقم الحروف بھی مسلسل تین روز تک اس مشاورت میں شریک رہا اور مشترکہ موقف اور قرار دادوں کی تیاری میں حصہ لینے کی سعادت حاصل کی ۔

جامعہ اشرفیہ کی انتظامیہ بالخصوص مولانا حافظ فضل الرحیم نے مشاورت اور اجتماع کے انتظامات اور سینکڑوں علماء کرام کے اعزاز و اکرام اور خدمت میں جس قدر محنت اور جانفشانی سے کام لیا اسے تمام شرکاء نے سراہا جبکہ علماء کرام کے ساتھ رابطوں ،انہیں شرکت کے لئے آمادہ کرنے اور دوران مشاورت تمام امور کو مفاہمت کے دائرے میں رکھنے کے لئے وفاق المدارس العر بیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری مسلسل متحرک رہے ،اس طویل اور ہمہ جہت مشاورت کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ تمام حضرات نے باہمی مشاورت و مفاہمت کے بھرپور جذبہ کے ساتھ متعلقہ امور پر اظہار خیال کیا، آپس کے گلے شکوے سنے، غلط فہمیوں کا ازالہ کیا، مسائل کا گہرائی میں جا کر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا، مستقبل میں مل کر چلنے کا عزم کیا اور اس قسم کی اجتماعی مشاورت کے لئے وقتاً فوقتاً ملتے رہنے کا عہد کیا۔

اجتماع کا مشترکہ اعلامیہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے تحریر کیا اور قراردادوں کی ترتیب راقم الحروف کے ذمہ تھی، ان پر ابتدائی مشاورت اور ۱۵ اپریل کے وسیع تر اجلاس میں تفصیلی بحث و تمحیص اور ترامیم کے بعد متعدد ترامیم کی گئیں ، اور متفقہ طور پر ان کی منظوری دی گئی،یہ مشترکہ اعلامیہ جو موجودہ حالات میں پاکستان میں علماء دیوبند کے متفقہ موقف کی حیثیت رکھتا ہے اور قرار دادیں قارئین کی خدمت میں ان گزارشات کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں کہ ان کا پوری سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور اس باہمی مشاورت اور مشترکہ اعلامیہ کی روح کے مطابق ہر سطح پر باہمی اشتراک ومعاونت کو فروغ دیا جائے تا کہ ہم سب مل کر وقت کے چیلنجز اور تقاضوں کے مطابق اکابر علماء دیوبند رحمہم اللہ تعالیٰ کے مشن اور پروگرام کو آگے بڑھا سکیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں ،آمین یا رب العالمین۔

مشترکہ اعلامیہ

ملک بھر کے علماء کا یہ اجتماع عام مسلمانوں کے اس احساس میں برابر کا شریک ہے کہ ہمارا ملک جن گونا گوں مسائل سے دوچار ہے،اور اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لئے مملکت خداداد حاصل کی گئی اس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور عملاً اسلامی نظام زندگی اور اسلامی نظام عدل کی طرف پیش قدمی کی بجائے ہم اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام ہمہ جہتی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں ملک بھر میں کسی کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں ہے قتل و غارت گری اور دہشت گردی سے ہر شخص سہما ہوا ہے او رمجرم دندناتے پھرتے ہیں ،سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عفریت ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور عوام کے لئے اپنا جائز حق حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے، ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں مہنگائی اور بجلی کی قلت نے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری طرف ہمارے ملک کے بہترین وسائل ان عوامی تکلیفوں کو دور کرنے اور ان کے اسباب کا ازالہ کرنے کی بجائے امریکا کی مسلط کی ہوئی جنگ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے خرچ ہو رہے ہیں ، جبکہ امریکا کی طرف سے ہماری سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر کے ان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ برابر جاری ہے جن میں ہمارے بے گناہ شہریوں کی بہت بڑی تعداد شہید ہو رہی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جگہ جگہ بے گناہ مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور خود ہمارے شہریوں کے ساتھ امریکا میں بد ترین ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور امریکا مسلسل ہمارے بجائے بھارت کو نوازتے رہنے کی پالیسی پر گامزن ہے ۔

اس سب کے باوجود حکومت کی پالیسیوں میں امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ملکی مفادات کو بے دھڑک قربان کیا جا رہا ہے ، جب اجتماعی سطح پر مسلمانوں کواس قسم کے مسائل درپیش ہوں تو اس وقت بطور خاص اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اس کی نافرمانیوں سے بچا جائے لیکن ان حالات میں بھی بددینی کو فروغ مل رہا ہے، عریانی و فحاشی پر کوئی روک نہیں ،نفاذ شریعت کی پر امن کوششوں کو درخوراعتناہی نہیں سمجھا جاتا ،ان تمام حالات میں ملک کے درد مند مسلمان سخت بے چینی کا شکار ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا ہے جس میں نہ مایوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ بے عملی کی لہٰذا یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک کے ارباب حل و عقد اور عوام ایک دوسرے کو نشانہ ملامت بنانے کی بجائے مل جل کر اپنے طرز عمل میں انقلابی تبدیلیاں لائیں ،اسی طرح ملک کی کشتی گرداب سے نکل سکتی ہے،اسی لئے علماء کرام کا یہ اجتماع بلایا گیا تھا کہ وہ اس صورت حال پر غور کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں وہ طریقے تجویز کریں جو ملک کو ا س صورت حال سے نکالنے کے لئے ضروری ہیں ،چنانچہ یہ اجتماع متفقہ طور پر سمجھتا ہے کہ مندرجہ ذیل اقدامات نا گزیر ہیں۔

  1. اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ ا سلام ہی نے یہ ملک بنایا تھا اور اسلام ہی اسے بچا سکتا ہے لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی تعلیمات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کرے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور ملک کے آئین کا اہم ترین تقاضا بھی اور اسی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملک میں انتہا پسندی کی تحریکیں اٹھی ہیں ، اگر ملک نے اس مقصد وجود کی طرف واضح پیش قدمی کی ہوتی تو ملک اس وقت انتہا پسندی کی گرفت میں نہ ہوتا لہٰذا وقت کا اہم تقاضا ہے کہ پر امن ذرائع سے پوری نیک نیتی کے ساتھ ملک میں نفاذ شریعت کے اقدامات کیے جائیں ،اس کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کو فعال بنا کر ان کی سفارشات اور فیصلوں کے مطابق اپنے قانونی اور سرکاری نظام میں تبدیلیاں بلا تاخیر لائی جائیں اور ملک سے کرپشن ،بے راہ روی اور فحاشی و عریانی ختم کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کیے جائیں ۔
  2. تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے مقاصد پر نفاذ شریعت کے مطالبے کو اولیت دے کر حکومت پر دباؤ ڈالیں اور اس کے لئے موثر مگر پر امن جد و جہد کا اہتمام کریں اور عوام کا فرض ہے کہ جو جماعتیں اور ادارے اس مقصد کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں ۔
  3. اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کو قرار دیا جا رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو اجاڑنے میں کوئی کسر چھوڑ نہیں رکھی، جگہ جگہ خود کش حملوں اور تخریبی کارروائیوں نے ملک کو بد امنی کی آماج گاہ بنایا ہوا ہے ، ان تخریبی کارروائیوں کی تمام محب وطن حلقوں کی طرف سے بار بار مذمت کی گئی ہے اور انہیں سراسر نا جائز قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کارروائیاں مستقل جاری ہیں لہٰذا اس صورت حال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر ملک بھر کی متفقہ مذمت اور فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود یہ کارروائیاں کیوں جاری ہیں اور اس کے بنیادی اساب کیا ہیں ؟ ہماری نظر میں اس صورتحال کا بہت بڑا سبب وہ افغان پالیسی ہے جو جنرل پرویز مشرف نے غلامانہ ذہنیت کے تحت کسی تحفظ کے بغیر شروع کر دی تھی اور آج تک اسی پر عمل ہوتا چلا آرہا ہے، لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت امریکا نوازی کی اس پالیسی کو ترک کر کے افغانستان کی جنگ سے اپنے آپ کو بالکل الگ کرے اور امریکی افواج کو مدد پہنچانے کے تمام اقدامات سے دستبردار ہو۔
  4. یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خود اپنے گھر کو آگ لگا بیٹھیں ،لہٰذا ہم پورے اعتماد اور دیانت کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں نفاذ شریعت اور ملک کو غیر ملکی تسلط سے نجات دلانے کے لئے پر امن جد و جہد ہی بہترین حکمت عملی اور مسلح جد و جہد شرعی اعتبار سے غلط ہونے کے علاوہ مقاصد کے لئے بھی سخت مضر ہے اور اس کا براہ راست فائدہ ہمارے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے اور امریکا اسے اس علاقے میں اپنے اثر و رسوخ کو دوام بخشنے کے لئے استعما ل کر رہا ہے، اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ اسے دین کا تقاضا سمجھتا ہے تو یہ اجتماع اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ ایسے حضرات کو حالات کے تقاضوں اور ضرورتوں سے آگاہ کر کے مثبت کردار کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کے لئے نا صحانہ اور خیر خواہانہ روش اختیار کی جائے۔
  5. حکومت اس بات کا احساس کرے کہ اندرونی شورشوں کا پائیدار حل بالآخر پر امن مذاکرات کے سوا کچھ نہیں ہوتا ،چنانچہ ملک کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے اپنی متفقہ قرار داد میں ایک طرف سابق حکمرانوں کی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے اور ڈرون حملوں اور غیر ملکی مداخلت کے بارے میں قومی خود مختاری کے تحفظ پر زور دیا تھا اور دوسری طرف اندرونی شورش کے لئے مذاکرات ہی کا طریقہ تجویز کیا تھا لیکن پارلیمنٹ کی اس قرار داد کو عملاً بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے ،لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس قرارداد کے مطابق اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر کے خانہ جنگی کاخاتمہ کرے۔
  6. تمام مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مشکلات اور مصائب کا اصل حل اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ اس کی رحمتیں حاصل نہیں کی جا سکتیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ہر طرح کے گناہوں سے توبہ کرکے رشوت ستانی اور ہر طرح کی حرام آمدنی، بے حیائی اور فحاشی ،جھوٹ ،غیبت اور دنیوی اغراض کے لئے باہمی جھگڑوں سے پرہیز کریں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طر ف متوجہ ہوں ،شرعی فرائض کو بجا لائیں اور اتباع سنت کا اہتمام کریں ۔

قراردادیں

  1. یہ اجتماع موجودہ ملکی اور علاقائی سنگین صورت حال کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں نفاذ اسلام سے مسلسل رو گردانی اور ایک اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے تقاضوں کو نظر انداز کرنے کا منطقی نتیجہ قرار دیتا ہے اور دو ٹوک رائے کا اظہار کرتا ہے کہ قومی خود مختاری کے تحفظ اور نفاذ اسلام کے بغیر ملک و قوم کو موجودہ دلدل سے نکالنا ممکن نہیں ہے،اس لئے یہ ضروری ہے کہ دستور پاکستان کی اسلامی دفعات اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق نفاذ اسلام کی طرف عملی پیش رفت کا اہتمام کیا جائے۔
  2. یہ اجتماع قومی خود مختاری اور ملکی سالمیت کو در پیش مبینہ خطرات و خدشات کے حوالہ سے شدید تشویش و اضطراب کا اظہار کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عوامی جذبات اور قومی مفادات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر فوری نظر ثانی کرے اور پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر عمل در آمد کر کے قومی پالیسیوں کا قبلہ در ست کرنے کو یقینی بنائے۔
  3. یہ اجتماع امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ناروا سلوک اور سفاکانہ وغیر منصفانہ رویے کی شدید مذمت کرتا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور دیگر سینکڑوں گمشدہ یا امریکہ کے حوالے کیے جانے والے مظلوم پاکستانیوں کی بازیابی اور رہائی کے لئے اپنی دستوری اور قومی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔
  4. یہ اجتماع سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی بعض یورپی ممالک میں جناب نبی اکرمؐ کے گستاخانہ خاکوں کی مسلسل اشاعت، فرانس میں حجابِ شرعی کے خلاف مہم اور اس قسم کے دیگر معاملات کو اسلام کے خلاف مغربی ثقافت کے علمبرداروں کے معاندانہ رویے کا آئینہ دار سمجھتا ہے اور دنیا بھر کی مسلم حکومتوں اور اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم (او آئی سی) سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات و احکام کے خلاف مغربی ثقافتی یلغار کے سدِّ باب کے لئے مشترکہ پالیسی وضع کریں ۔
  5. یہ اجتماع دینی مدارس کے خلاف مختلف ایجنسیوں اور حکومتی اداروں کی روز افزوں اور مسلسل کارروائیوں پر شدید احتجاج کرتا ہے اور آپریشن سے متاثرہ علاقوں میں سینکڑوں مساجد و مدارس کے انہدام کو شرمناک قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ دینی مدارس پر چھاپوں اور ان کے اساتذہ و طلبہ کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ فوری بند کر کے منہدم شدہ اور متاثرہ مدارس و مساجد کی فوری بحالی کا اہتمام کیا جائے اور بندمدارس کو کھول کر ان میں طلبہ کی رہائش و تعلیم کا نظام بحا ل کیا جائے۔
  6. یہ اجتماع ملک میں روز افزوں مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو غریب عوام سے زندگی چھین لینے کے مترادف تصور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ، جاگیر دارانہ نظام کے تسلسل اور غلط حکومتی پالیسیوں کے باعث اس عذاب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور عام شہریوں پر زندگی کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ عوام کو مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے اس عذاب سے نجات دلانے کے لئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کے ساتھ ساتھ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا بھی اہتمام کرے۔
  7. یہ اجتماع ملک میں مغرب کی بے حیاء ثقافت کے فروغ کے لئے این جی اوز اور میڈیا کی آزاد انہ روش ، حکومتی اداروں کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی اور قومی وسائل کے بے دریغ استعمال کو افسوس ناک قرار دیتا ہے اور اسے پاکستان کے اسلامی تشخص، قرآن و سنت کی تعلیمات اور عوام کے دینی رجحانات کے منافی سمجھتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور وطن عزیز کی اسلامی ثقافت کے تحفظ کا اہتمام کیا جائے۔
  8. یہ اجتماع بارہ ربیع الاول کے روز فیصل آباد، ڈیرہ اسماعیل خان ،کراچی اور بعض دیگر شہروں میں رونما ہونے والے افسوس ناک واقعات کو ملک میں فرقہ وارانہ کشمکش کو فروغ دینے کی سازش کا حصہ قرار دیتا ہے اور ان سانحات میں متاثرہ افراد اور خاندانوں کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ایسے واقعات کی مکمل عدالتی تحقیقات کرا کے مجرموں اور ان کے پشت پناہوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
  9. یہ اجتماع ملک کے تمام مکاتب فکر کے رہنماؤں اور کارکنوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ موجودہ سنگین قومی صورت حال میں جبکہ قومی خود مختاری، ملکی سالمیت اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کی فضاء پیدا کر کے استعماری قوتیں اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کا ایجنڈا رکھتی ہیں ۔۔۔ قومی وحدت اور ہم آہنگی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ،اس لئے کسی بھی سطح پر ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے جو فرقہ وارانہ کشمکش کا باعث بن سکتی ہوں بلکہ قومی ہم آہنگی کو بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں تا کہ قوم متحدہو کر موجودہ بحران کا مقابلہ کر سکے۔
  10. یہ اجتماع پارلیمنٹ میں دستوری ترامیم کے حالیہ بل میں اسلامی دفعات کے تحفظ کی جد و جہد کرنے والے علماء کرام اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کو اس کامیاب جد و جہد پر مبارک باد پیش کرتا ہے اور دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان اسلامی دفعات پر مؤثر عمل در آمد کے لئے بھی اقدامات کیے جائیں ۔
  11. یہ اجتماع ملک بھر کے علماء کرام اور دینی جماعتوں و کارکنوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ قومی وحد ت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی اختلافات کے عمومی اظہار سے حتی الوسع گریز کریں اور مشترکہ قومی و دینی مقاصد کے لئے باہمی تعاون و اشترا ک کی فضا کو فروغ دیں ،نیز یہ اجتماع قوم کے تمام طبقات اور حلقوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ قومی وحدت کے بھرپور مظاہرہ کے ساتھ بیرونی مداخلت کا راستہ روکنے کا اہتمام کریں۔
  12. یہ اجتماع ملک بھرکے علماء کرام کے اس نمائندہ اجتماع کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً اس قسم کے مشترکہ اجتماعات کا انعقاد جاری رکھنے کا اعلان کرتا ہے۔
  13. یہ اجتماع میڈیا سے اسلامی شعائر اور دینی حلقوں کے خلاف کردار کشی کے مسلسل پروپیگنڈے پر شدید احتجاج کرتا ہے اور خاص طور پر میڈیا چینلز پر ایک لڑکی کو کوڑے مارے جانے کی ویڈیو کے بارے میں اس انکشاف کی بنیاد پر کہ یہ جعلی طور پر فلمائی گئی تھی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس کی انکوائری کرا کے اسلامی احکام کو تمسخر کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
  14. ایبٹ آباد میں جلسے اور جلوس پر بے تحاشا فائرنگ اور اس کے نتیجہ میں متعدد افراد کے قتل کے واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہے اور ہزارہ کے مظلوم عوام سے مکمل ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔
  15. یہ اجتماع کراچی میں مولانا سعید احمد جلال پوری ؒ ، مولانا عبد الغفور ندیم ؒ ، قاری عبد الحفیظؒ اور ان کے رفقاء جامعہ صدیقیہ کراچی کے طالب علم محمد سفیرؒ ،ڈیرہ اسماعیل خان میں خواجہ محمد زاہدؒ ، شیخ ایازؒ ، کوئٹہ بلوچستان میں میر مٹھا خان خٹک اور ان کے رفقاء اور دیگر مختلف سانحات میں جام شہادت نوش کرنے والے تمام علماء کرام کے وحشیانہ قتل عام کی شدید مذمت کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ علماء کرام اور دیگر شہداء کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ یہ اجتماع تمام شہداء کے لئے دعائے مغفرت کے ساتھ ان کے جملہ پسماندگان اور عقیدت مندوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتاہے۔
  16. یہ اجتماع مختلف ایجنسیوں کی طرف سے دینی مدارس کے بے گناہ اساتذہ، طلباء اور کارکنوں کو ہراساں کرنے ، اغواء کرنے اور بلا وجہ مقدمات قائم کرنے کی شدید مذمت کرتا ہے اور مقدمات ختم کرنے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کرتاہے۔
   
2016ء سے
Flag Counter