پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا عبد الحق خان بشیر نے، جو میرے چھوٹے بھائی اور گجرات کے محلہ حیات النبی میں جامع مسجد امام ابوحنیفہؒ کے خطیب ہیں، ۷ فروری جمعرات کو مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں شریعت کونسل کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کی رہائش گاہ پر مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کی ایک غیر رسمی مشاورت کا اہتمام کیا۔ ایجنڈا دو نکات پر مشتمل تھا:
- ایک یہ کہ عدلیہ کی بحالی اور دستور کی بالادستی کے لیے جو تحریک وکلاء کے فورم سے چل رہی ہے اس میں دینی حلقوں کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
- اور دوسرا یہ کہ مختلف مکاتب فکر کے ۳۰ سرکردہ علمائے کرام نے ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے جو متفقہ اعلامیہ جاری کیا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کیا صورت اختیار کرنی چاہیے؟
وکلاء کی تحریک کے بارے میں کم و بیش انہی جذبات کا اظہار کیا گیا جن کا اظہار ہم اس کالم میں ایک سے زائد مرتبہ کر چکے ہیں کہ:
- عدلیہ کی بحالی، دستور کی بالادستی اور پی سی او کے تحت معزول کیے جانے والے جج صاحبان کی ان کے دستوری مناصب پر واپسی کا موقف درست ہے، اس کے لیے چلائی جانے والی تحریک پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے اور ملک کے تمام طبقات کو اس تحریک کی پرزور حمایت کرنی چاہیے۔
- دینی جماعتوں کا رویہ اس سلسلہ میں حوصلہ افزا نہیں اور وہ اس میں بہت تاخیر سے کام لے رہی ہیں۔ انہیں وکلاء کی اس اصولی تحریک کے ساتھ یکجہتی اختیار کرنے کے لیے عملی پیشرفت کرنی چاہیے۔
- تحریک میں ’’سول سوسائٹی‘‘ کے مبہم عنوان کے ساتھ جو این جی اوز آگے بڑھ رہی ہیں، ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر این جی اوز کا ایجنڈا پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا ہے اور اس رخ پر بہت سی این جی اوز کی اب تک سرگرمیاں مبہم نہیں ہیں۔
- چونکہ پاکستان اور اس کے دستور، دونوں کی بنیاد اسلام اور جمہوریت پر ہے اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس ریاست کا یہی دینی تشخص عالمی استعمار کی نظروں میں کھٹکتا ہے، اس لیے جمہوری اقدار کی سربلندی اور آزادانہ جمہوری عمل کی بحالی کے ساتھ ساتھ اسلام کے ساتھ ملک و قوم کی کمٹمنٹ کا مسلسل اظہار بھی ضروری ہے۔ لہٰذا وکلاء تحریک کی قیادت کو توجہ دینی چاہیے کہ وہ اس اہم پہلو کو نظرانداز نہ کرے اور قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج کی قانون دان قیادت بھی اس موقف کا دوٹوک اظہار کرے کہ ان کی تحریک جمہوری عمل کی بحالی اور جمہوری اقدار کی سربلندی کے ساتھ ساتھ اسلام کی بالادستی کے لیے بھی ہے، اور وہ دستور پاکستان کی ان دونوں بنیادوں پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔
- جس طرح بجا طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے وہ فیصلے جن میں نظریہ ضرورت کے عنوان سے شخصی آمریتوں اور فوجی حکومتوں کو تحفظ دیا جاتا رہا ہے، وہ دباؤ کا نتیجہ تھے اور عدالت عظمیٰ کو اس قسم کے دباؤ سے آزاد کرانے کے لیے عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلائی جا رہی ہے، اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالت عظمیٰ کے وہ فیصلے جن کے تحت (۱) ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی بالاتر حیثیت سے انکار کیا گیا ہے، (۲) سودی قوانین کے خاتمے کے عدالتی فیصلے کو معطل کیا گیا ہے، (۳) اور صوبہ سرحد میں حسبہ ایکٹ کا راستہ روکا گیا ہے، وہ بھی اسی قسم کے ماحول کی پیداوار ہیں۔ اس لیے جس طرح ’’نظریہ ضرورت‘‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح اسلام کی بالادستی کی دستوری ضمانت سے گریز کے طرز عمل سے بچنا بھی ضروری ہے، کیونکہ ملک کی گاڑی اسی صورت میں اسلام اور جمہوریت کے دو متوازن پہیوں پر چل سکتی ہے۔
- اس سلسلہ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ وکلاء تحریک کی ہر سطح کی قیادت سے رابطے کیے جائیں گے تاکہ انہیں اس تحریک میں حمایت کی یقین دہانی کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا جائے۔ اور پاکستان شریعت کونسل پنجاب لاہور میں ایک سیمینار کا اہتمام کرے گی جس میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ وکلاء تحریک کے سرکردہ زعماء کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں طے ہوا ہے کہ ۱۸ فروری کے انتخابات کی صورتحال حتمی طور پر واضح ہوتے ہی سیمینار کی تاریخ اور جگہ کا تعین کیا جائے گا اور رابطوں کا آغاز کر دیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
علمائے کرام کے متفقہ اعلامیہ کے بارے میں شرکائے اجلاس نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ۳۰ سرکردہ علمائے کرام کا موقف بالکل درست ہے لیکن بہت تاخیر سے ہے، اسے اس سے بہت پہلے منظر عام پر آ جانا چاہیے تھا۔ تاہم پھر بھی غنیمت ہے کہ ان علمائے کرام نے، جو انتخابی سیاست میں فریق نہیں ہیں، خالصتاً علمی اور دینی حوالے سے اپنے اس موقف کا صراحت کے ساتھ اظہار کر کے پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ نیز یہ کہ اگرچہ اس اعلامیہ میں کم و بیش ملکی صورتحال کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر لیا گیا ہے، لیکن اس حوالے سے یہ تشنہ ہے کہ اس میں ملک کی صورتحال کو بگاڑنے کے لیے کام کرنے والے حلقوں، بالخصوص سیکولر این جی اوز اور قادیانیوں کے منفی کردار کا تذکرہ نہیں کیا گیا جو موجودہ حالات کے تناظر میں بہت ضروری ہے اور رائے عامہ کو اس سے آگاہ کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ موجودہ سیاسی صورتحال کو نیا رنگ دینے اور مستقبل کے سیاسی نقشے میں رنگ بھرنے کے عمل میں اس وقت جو حلقہ پس پردہ سب سے زیادہ متحرک ہے وہ قادیانی لابی ہے جس کے بارے میں جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایک موقع یہ کہا تھا کہ قادیانی ہمارے ملک میں وہی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ایک چھوٹی سی اقلیت ہونے کے باوجود ملکی پالیسیوں کے تعین اور انہیں چلانے میں یہودیوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ امریکہ میں خواہ حکومت ڈیموکریٹس کی ہو یا ری پبلکن کی، اس کی پالیسیوں کا کنٹرول ہمیشہ یہودی لابیوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ بھٹو مرحوم کا یہ خیال بالکل درست ہے اور غالباً اسی خدشے کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے مطالبے کو منظور کیا اور پارلیمنٹ کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دیا تھا۔ مگر قادیانی گروہ پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو قبول کرنے سے مسلسل انکاری ہے اور اسے تبدیل کرانے کے لیے عالمی طاقتوں سے پاکستان پر دباؤ ڈلوا رہا ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر جو اس وقت پاکستان کے سیاسی مستقبل کا تانابانا بننے والوں کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جا رہے ہیں، قادیانی ہیں اور اس حقیقت کا اظہار ہمارے محترم اور معاصر کالم نگار جناب جاوید چودھری نے بھی ایک حالیہ کالم میں کیا ہے۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ یحییٰ خان کے دور میں جب مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے نام سے ملک سے الگ کرنے کے لیے عالمی سازشیں عروج پر تھیں، اس وقت حکومت پاکستان کے نفس ناطقہ کی حیثیت ایک نامور قادیانی ایم ایم احمد کو حاصل تھی اور مشرقی پاکستان کے ایک محب وطن لیڈر مولوی فرید احمد مرحوم نے کھلے بندوں یہ الزام لگایا تھا کہ ایم ایم احمد کی قیادت میں قادیانی ٹولہ پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ اس وقت جو کچھ ہوا، سب کے سامنے ہے اور ایم ایم احمد کا کردار بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے آج جب کہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کہی جا رہی ہیں اور جنوبی ایشیا کے جغرافیائی نقشے میں تبدیلی کی منحوس پیشگوئی کا سلسلہ جاری ہے، پاکستان کے سیاسی مستقبل کا تانابانا بننے والوں میں ایک ریٹائرڈ قادیانی کی مبینہ سرگرمیاں کسی طرح بھی خطرے سے خالی نہیں اور ان کا بروقت نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستان کے مختلف سیاسی رہنماؤں کو اس مقصد کے لیے تیار کیا جا رہا ہے کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے فیصلے کو ری اوپن کرانے اور اس کا ازسرنو جائزہ لینے کی بات چلائیں تاکہ الیکشن کے بعد وجود میں آنے والی قومی اسمبلی میں اس کی تحریک پیش کی جا سکے۔ اس سلسلہ میں اس امر کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب حدود آرڈیننس کا تیاپانچہ کیا گیا تو اس موقع پر امریکہ کی وزارت خارجہ کی طرف سے آن ریکارڈ یہ کہا گیا تھا کہ امریکہ نے حکومت پاکستان پر حدود آرڈیننس کے ساتھ ساتھ توہین رسالت کی سزا اور قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کے قانون کو منسوخ کرانے کے لیے بھی دباؤ ڈال رکھا ہے۔ اس کے جواب میں حکمران مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل سید مشاہد حسین نے پیرس کی ایک اخباری کانفرنس میں فرمایا تھا کہ اس کے لیے اب آئندہ الیکشن کے بعد ہی پیشرفت ہو سکتی ہے۔ اس پس منظر میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کی پس پردہ سرگرمیوں کو اگر ان کے قادیانی ہونے کے حوالے سے شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور اس سے خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے تو یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے اور اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی یہ افسوسناک اطلاع بھی اجلاس کے دوران سامنے آئی کہ ایک محترم سیاسی رہنما عمران خان نے بھی قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی مخالفت کر دی ہے اور کینیڈا سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’پاکستان پوسٹ‘‘ کی ۳۱ جنوری ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں جناب عمران خان کے ایک تفصیلی انٹرویو کی مین سرخی یہ ہے کہ ’’قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ غلط تھا‘‘۔ میں نے اس پر عرض کیا کہ میرا دل یہ نہیں مان رہا کہ عمران خان نے ایسا کہا ہوگا، بہرحال اس کی تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کروں گا اور انٹرویو کی تفصیلات سامنے آنے پر ہی اس کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔
بہرحال اجلاس میں ۳۰ سرکردہ علمائے کرام کے متفقہ اعلامیہ کے بارے میں اس پہلو سے تشنگی محسوس کیے جانے کے باوجود اسے وقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیا اور دو باتیں طے کی گئیں: ایک یہ کہ اس اعلامیہ پر دستخطوں کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی جائے اور اس پر زیادہ سے زیادہ علمائے کرام کے دستخط حاصل کیے جائیں۔ دوسرا یہ کہ اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے اور اکابر علماء کی اس آواز کو ملک بھر میں پھیلانے کی جدوجہد کی جائے۔
یہ ہے رپورٹ چند دینی رہنماؤں کی ایک باہمی مشاورت کی نشست کی جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال کے بارے میں ملک کے دینی کارکن کس رخ پر سوچ رہے ہیں۔ اس نشست کے شرکاء میں مولانا عبد الرؤف فاروقی، جناب عبد اللطیف چیمہ، مولانا میاں عبدالرحمن، مولانا یوسف احرار، حافظ ذکاء الرحمن اختر اور مولانا قاری جمیل الرحمن اختر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔