جب سے جنرل پرویز مشرف کو بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے دورۂ دہلی کی دعوت ملی ہے تب سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے دونوں طرف سے سرکاری اور غیر سرکاری رابطوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی ایک مخصوص حلقہ لوگوں کے ذہنوں میں اس شک اور تردد کو پھر سے ابھارنے میں مصروف ہو گیا ہے کہ کشمیر کی جنگ شرعاً جہاد بھی ہے یا نہیں؟ اور کشمیری مجاہدین انڈین آرمی کے خلاف جو چھاپہ مار کارروائیاں کر رہے ہیں کیا اسے شرعی جہاد کی حیثیت دی جا سکتی ہے؟
اس کا اصل مقصد تو وہی ہے جو بھارت سرکار کی طرف سے مذاکرات کا نیا سلسلہ شروع کرنے کے پس منظر میں اس کا اصل ہدف ہے کہ کسی نہ کسی طرح مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کو ہتھیار ڈالنے اور جہاد ترک کر کے مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے حوالے کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ اور جس طرح ۱۹۴۷ء میں سرینگر اور پونچھ میں داخل ہوتے ہوئے مجاہدین سے سیز فائر کرا کے کشمیری عوام کی آزادی کو مذاکرات کی بھول بھلیوں میں گم کر دیا گیا تھا، وہی ڈرامہ ایک بار پھر دہرایا جائے اور مذاکرات کی میز سجا کر اس کی آڑ میں مجاہدین کے ہاتھوں سے گن چھین لی جائے۔ مگر مجاہدین کی قیادت کے عزائم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس دفعہ شاید بھارتی حکمران اس چال میں کامیاب نہ رہیں۔ کیونکہ کم و بیش تمام مجاہد تنظیموں کے قائدین مذاکرات سے قبل سیز فائر اور ہتھیار رکھنے کی بات کو قبول کرنے سے صاف انکار کر رہے ہیں، جو یقیناً ایک خوش آئند امر ہے اور کشمیری عوام کی آزادی اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کا زیادہ تر دارومدار اب بظاہر اسی بات پر رہ گیا ہے کہ مجاہد تنظیموں کے قائدین اس حوالے سے کس قدر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور اس کے لیے باہمی مفاہمت و اشتراک اور ربط و تعاون کا کس قدر اہتمام کرتے ہیں؟
گزشتہ روز ایک محفل میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی، پاک بھارت سربراہی مذاکرات، اور عالمی حلقوں کی مسلسل سرگرمیوں کے موجودہ تناظر میں جہادِ کشمیر کو سبوتاژ ہونے سے بچانے کے لیے کیا ہو سکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اب ضرورت ایک عدد شیخ احمد یاسین کی ہے جو مذاکرات اور گفتگو کی تمام چالوں کو مسترد کرتے ہوئے میدانِ جہاد میں ڈٹ جائے اور ہر قسم کے دباؤ سے بے نیاز ہو کر مقبوضہ کشمیر سے انڈین آرمی کی واپسی کے لیے جہادی سرگرمیاں جاری رکھے۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ جہادی تحریکوں اور تنظیموں میں سے ہر ایک کی قیادت اس کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اگر یہ آپس میں انڈر اسٹینڈنگ بڑھانے اور مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرنے کے لیے ضروری اقدامات کر لیں تو جہادی عمل اور ہزاروں نوجوانوں کی قربانیوں کو مذاکرات کی فضا میں تحلیل ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ ایسا ہی ہو گا اور بھارتی حکمران مذاکرات کے نام پر مجاہدین کی جدوجہد اور قربانیوں کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
البتہ میرے نزدیک زیادہ پریشان کن مسئلہ بعض لوگوں کی طرف سے اس شک و شبہ کو دوبارہ اجاگر کرنے کا ہے جو جہادِ کشمیر کی شرعی حیثیت کے بارے میں دینی حلقوں میں پھر سے پھیلایا جا رہا ہے، اور خاص طور پر دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو نئے سرے سے سیاسی بحث میں الجھا کر تذبذب کو ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیونکہ دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ ہی اس جہادی عمل کی سب سے بڑی بنیاد ہیں۔ اگر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے انہیں شبہ اور شک کی دلدل میں دھکیل دیا گیا تو جہاد کے اس عمل کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا اور شک و شبہ کو ذہنوں میں اتارنے کا اصل مقصد بھی یہی ہے۔
اس لیے اس مرحلہ پر اس بات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ آل جموں و کشمیر جمعیت علماء اسلام کے امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم آف پلندری کا ارشاد ہے کہ
’’جہادِ کشمیر کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور حضرت سید احمد شہیدؒ نے ۱۸۳۱ء میں پشاور سے کشمیر کی طرف مارچ شروع کیا اور کشمیر کو آزاد کرا کے وہاں اسلامی ریاست قائم کرنے اور پھر اسے پورے برصغیر کی آزادی کی جنگ کے لیے بیس کیمپ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے ہمارا جہاد تب سے جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پورا کشمیر آزاد ہو کر اسلامی ریاست کی حیثیت اختیار نہیں کر جاتا۔‘‘
اس کے ساتھ اس تاریخی حقیقت کا حوالہ دینا بھی نامناسب نہ ہوگا کہ قیامِ پاکستان کے بعد جب جموں و کشمیر کے علماء اور عوام نے جہاد کا اعلان کیا اور عملاً جہاد کر کے وہ خطہ آزاد کرایا جہاں آج ’’آزاد ریاست جموں و کشمیر‘‘ کی حکومت قائم ہے، تو اس وقت بھی اس جہاد کی شرعی حیثیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کہا تھا کہ کشمیر کی جنگ شرعی جہاد نہیں ہے، مگر اس وقت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے علی الاعلان اسے شرعی جہاد قرار دیتے ہوئے اس سے عملی تعاون فرمایا تھا۔ چنانچہ ’’تجلیاتِ عثمانی‘‘ کے مصنف پروفیسر انوار الحق شیر کوٹیؒ لکھتے ہیں کہ
’’پاکستان آنے کے بعد آپ (علامہ عثمانیؒ) کو مسئلہ کشمیر سے سخت دلچسپی رہی۔ اس سلسلہ میں جیکب لائن کراچی میں آپ نے تقریر فرمائی اور بہت سا سرمایہ جمع فرما کر کشمیر کے مجاہدین اور مجروحین کی امداد کے لیے بھیجا۔ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کو ڈھاکہ تحریر کیا کہ وہ بھی کشمیر کے لیے چندہ جمع فرمائیں، انہوں نے دس ہزار روپے وہاں سے بھیجے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹروں کا ایک امدادی وفد ترتیب دیا تاکہ وہاں جا کر مجاہدین کی مرہم پٹی کریں۔ علامہ عثمانیؒ نے کشمیر میں جہاد کا فتویٰ دیا اور اس فتویٰ کی تمام ممالک اسلامیہ کے علماء اور شیوخ نے موافقت کی۔ علاوہ ازیں مولانا مودودی کو دلائل سے مطمئن کیا کہ کشمیر کی جنگ اسلامی جہاد ہے۔ اس کے علاوہ علامہ عثمانیؒ نے دستور ساز اسمبلی میں کشمیر کے متعلق ولولہ انگیز تقریر فرمائی اور آپ کی تقریر پر حکومت نے ایک کمیٹی مقرر کی جو ’’کشمیر کمیٹی‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی۔‘‘
میرے خیال میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے اس فتویٰ اور شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف خان مدظلہ کے اس ارشاد کے بعد جہادِ کشمیر کی شرعی حیثیت کے بارے میں کسی شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اس لیے ملک کے دینی حلقوں کو اس بحث میں اپنا مزید وقت خرچ کر کے مجاہدین کشمیر کی قربانیوں کو سبوتاژ کرنے کی کسی مہم میں حصے دار نہیں بننا چاہیے۔