ارکان پارلیمنٹ کے نام مولانا منظور احمد چنیوٹی کا خط

   
۸ جون ۲۰۰۴ء

مولانا منظور احمد چنیوٹی تحریک ختم نبوت کے سرگرم راہنماؤں میں سے ہیں۔ وہ گزشتہ نصف صدی سے اس محاذ پر مسلسل مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے زندگی اسی مشن کے لیے وقف کر رکھی ہے اور ہمہ وقت اسی فکر اور دھن میں مگن رہتے ہیں۔ چناب نگر اور چنیوٹ کے درمیان صرف دریائے چناب حائل ہے۔ چناب نگر میں قادیانیوں کا ہیڈ کوارٹر ہے اور چنیوٹ میں مولانا چنیوٹی کا ادارہ ہے، اس لیے قادیانی قیادت کے ساتھ ان کا براہ راست آمنا سامنا رہتا ہے۔ بیسیوں معرکوں میں انہوں نے قادیانی قیادت کو نیچا دکھایا ہے۔ مرزا بشیر الدین محمود، مرزا ناصر احمد اور مرزا طاہر احمد کو مسلسل مباہلے کا چیلنج دیتے رہے ہیں، مگر آج تک ان میں سے کسی نے یہ چیلنج قبول نہیں کیا۔ جبکہ مولانا چنیوٹی ہر سال چھبیس فروری کو مباہلے کا دن مناتے ہیں اور باقاعدہ کانفرنس منعقد کر کے مباہلے کی یہ دعوت دہراتے ہیں۔ مرزا طاہر احمد اپنے خطابات میں مولانا چنیوٹی کا تذکرہ دشمن نمبر ون کے طور پر کرتے رہے ہیں، مگر کبھی مباہلے کے لیے سامنے آنے کا حوصلہ نہیں کیا۔

پنجاب کی تقسیم کے بعد قادیانیوں نے اپنا ہیڈ کوارٹر قادیان سے دریائے چناب کے کنارے، چنیوٹ کے پاس منتقل کیا اور اس کے لیے انگریز گورنر سر موڈی نے انہیں زمین دی تو اس نئے شہر کا نام ”ربوہ“ رکھا گیا، جس کے پیچھے ایک خاص سوچ اور پلاننگ کار فرما تھی۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ مسیح بن مریم ہیں، جبکہ قرآن کریم میں مسیح ابن مریم علیہما السلام کے حوالے سے ربوہ کا لفظ آیا ہے، اس طرح یہ نام بہت سے لوگوں کے لیے گمراہی کا باعث بن سکتا تھا۔ اس نام کو تبدیل کرانے کے لیے مولانا چنیوٹی نے سالہا سال محنت کی اور دینی جماعتوں و تحریک ختم نبوت کے قائدین کو توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کے ارکان پر بھی محنت کی اور انہیں قائل کیا کہ وہ ناواقف مسلمانوں کو اس دھوکے سے بچائیں۔ بالآخر وہ صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کرا کے ربوہ کا نام چناب نگر رکھوانے میں کامیاب ہو گئے۔

مولانا چنیوٹی ان دنوں تحریک ختم نبوتؐ کے محاذ کے علاوہ ایک اور مورچے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں متحدہ مجلس عمل کے قائدین سے رابطے کر کے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کے اضافے اور قادیانی اوقاف کو سرکاری تحویل میں لینے کے لیے قومی اسمبلی میں تحریک پیش کریں۔ انہوں نے اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن، مولانا سمیع الحق، حافظ حسین احمد اور پروفیسر ساجد میر سے رابطے کرنے کے علاوہ منصورہ میں متحدہ مجلس عمل کے سربراہ قاضی حسین احمد اور مولانا عبد المالک خان ایم این اے سے خود ملاقات کر کے انہیں اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ قاضی محترم نے مولانا چنیوٹی سے وعدہ کیا ہے کہ متحدہ مجلس عمل اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اٹھائے گی۔ چنانچہ جناب فرید احمد پراچہ ایم این اے نے ایک خط میں مولانا چنیوٹی کو اطلاع دی ہے کہ ان دو مسئلوں پر قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کے لیے باقاعدہ نوٹس دے دیا گیا ہے۔ اس پر مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ارکان پارلیمنٹ کے نام ایک خط میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ یہ خط قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے، اس گزارش کے ساتھ کہ تمام دینی حلقے اس مسئلے میں دلچسپی لیں اور علمائے کرام اپنے اپنے حلقے کے ارکان پارلیمنٹ سے وفود کی شکل میں ملاقاتیں کرنے کے علاوہ رائے عامہ کی رہنمائی کے لیے خطبات جمعہ، مضامین اور بیانات کے ذریعے بھی اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ ہمیں امید ہے کہ اگر متحدہ مجلس عمل کی ہائی کمان نے سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کی طرف توجہ دی تو وہ قومی اسمبلی کے ذریعے ان مسائل کے حل میں ضرور کامیاب ہو گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اب خط کا متن ملاحظہ فرمائیں۔

بگرامی خدمت ممبران قومی اسمبلی/ سینٹ آف پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! مزاج گرامی؟

گزارش ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت پوری ملت اسلامیہ کا اجماعی عقیدہ ہے، جو مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے بقول ”ملت اسلامیہ کی فکری اساس ہے اور اسی پر اسلام کے تحفظ اور بقاء کا دارومدار ہے۔“ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے مختلف مراحل میں اس عقیدے کے تحفظ اور منکرین ختم نبوت کی سازشوں سے ملت اسلامیہ کو محفوظ رکھنے کے لیے تاریخی فیصلے کیے ہیں، جن پر ملک بھر کے مسلمانوں کو فخر ہے اور جو یقیناً ان فیصلوں میں شریک ارکان پارلیمنٹ کے لیے نجات اخروی کا ذریعہ بنیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ

منکرین ختم نبوت بالخصوص قادیانی ان فیصلوں کو سبوتاژ کرنے اور بے اثر بنانے کے لیے ملک اور بیرون ملک مسلسل متحرک ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ عقیدہ ختم نبوت پر یقین و ایمان رکھنے والے غیور مسلمان بھی چوکنا رہیں اور اس سلسلے میں آئینی و قانونی فیصلوں کے تحفظ اور ان پر عملدرآمد کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں، تاکہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں۔ اسی تناظر میں دو اہم امور کی طرف میں آنجناب کو توجہ دلائی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ آپ ان کا گہری نظر سے جائزہ لیں گے اور عملی پیش رفت کے لیے مؤثر کردار ادا کریں گے۔

  1. قادیانی گروہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کی طرف سے غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے باوجود خود کو غیرمسلم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور دستوری فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مسلمان کہلانے پر مصر ہے، جس سے مسلمانوں اور قادیانیوں کی الگ شناخت مشکل ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر بیرونی ممالک میں قادیانی حضرات اس اشتباہ سے ناجائز فائدہ اٹھا کر خود کو مسلمان کے طور پر پیش کرتے اور بے شمار لوگوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک عرصے سے دینی حلقے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کا اضافہ کر کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی الگ شناخت کا اہتمام کیا جائے۔ اگر یہ تجویز کسی وجہ سے قابل عمل نہ ہو تو کم از کم مسلمانوں اور غیر مسلموں کے شناختی کارڈوں کا رنگ الگ الگ کر دیا جائے، جیسا کہ ووٹرز لسٹوں میں کیا جاتا ہے اور جیسا کہ سعودی عرب میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اقامہ کا رنگ الگ الگ کر کے ان کی جداگانہ شناخت کا اہتمام کیا گیا ہے۔

    ایک مرحلے پر حکومت پاکستان نے یہ مطالبہ منظور کر کے اس کے لیے احکامات بھی جاری کر دیے تھے، مگر قادیانیوں نے اپنے مخصوص حربوں کے ذریعے اس میں رکاوٹ پیدا کر دی اور ان احکامات پر عمل نہ ہو سکا۔ یہ مسئلہ اپنی پوری سنگینی کے ساتھ اب بھی موجود ہے، اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ میں اس مسئلے کو زیر بحث لایا جائے اور اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کر کے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور اسلامیان پاکستان کے جذبات کی پاسداری کا اہتمام کیا جائے۔

  2. صدر ایوب خان مرحوم کے دور میں محکمہ اوقاف قائم کر کے مسلم اور غیر مسلم اوقاف کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا تھا، جبکہ قادیانی اوقاف کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا، جو ناانصافی کی بات تھی۔ جبکہ قادیانی گروہ اپنے ان وسیع اوقاف کی آمدنی کو باطل عقائد و نظریات کے فروغ اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے لیے مسلسل استعمال کر رہا ہے۔
    اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ جس طرح بہت سی غیر مسلم اوقاف کو حکومت نے اپنی تحویل میں لیا ہے اور ان کا انتظام حکومت چلا رہی ہے، قادیانی گروہ کے اس نوعیت کے اوقاف کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا جائے۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی کے بعض ارکان کی طرف سے قراردادیں ایوان میں پیش کرنے کے لیے بھجوائی جا چکی ہیں، جو امید ہے کہ اگلے اجلاس میں زیر بحث آئیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

آنجناب سے گزارش ہے کہ ان قراردادوں پر دستخط کر کے ان محرکین میں اپنا نام شامل کریں اور اسے ایوان سے منظور کرانے میں سرگرم کردار ادا کریں، تاکہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلے میں اس پیش رفت میں آپ بھی شامل ہو جائیں اور ہم مل جل کراس اہم ایمانی تقاضے کی تکمیل کر سکیں۔

امید ہے کہ آنجناب اس عرضداشت کو سنجیدہ توجہ سے نوازیں گے، بے حد شکریہ۔

مولانا منظور احمد چنیوٹی،
سیکرٹری جنرل انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ،
ناظم ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد، چنیوٹ، ضلع جھنگ
   
2016ء سے
Flag Counter